ہمارے ایک طرف بھارت ہے جس کے دہشت گردوں کی لاہور دھماکے میں ملوث ہونے کی تمام تفصیلات وزیر داخلہ نے بیان کر دی ہیں اور ہماری دوسری جانب افغانستان ہے جدھر سے چمن میں براہ راست فائرنگ کر کے ہمارے آٹھ شہریوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔یہ صورت حال ہر سنجیدہ آدمی کو دعوت فکر دے رہی ہے۔
ہم اگر سیاسی الزام و دشنام سے اوپر اٹھ سکیں تو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت تو ہمارا کھلا دشمن ہے۔ اس کے حولے سے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں ۔اس لیے وزیر داخلہ کی بیان کر دہ تفصیلات سے کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ دہشت گر دی ہو یا براہ راست جارحیت ، بھارت کو جب اور جہاں موقع ملے گا وہ وار کرے گا۔یہاں سوال ایک اور ہے؟ ہمارے سامنے ہے کہ ناچی گیتا سے کلبھوشن تک اور کلبھوشن سے ابھے نندن تک ، بھارت نے جس شکل میں بھی وار کیا ہم نے اس کا جواب دیا اور اسے ناکام بنایا۔
یہاں تک تو ہم سرخرو ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد بھارتی جارحیت پر ہمارا ’ ڈپلومیٹک آفینسو ‘ کہاں ہے؟ ناچی گیتا بھی ہم نے لوٹا دیا اور ابھے نندن بھی، باوجود اس کے کہ دونوں پاکستان کے خلاف جارحیت کے مرتکب ہوئے تھے۔کلبھوشن کی صورت بھی ہم نے بھارتی دہشت گردی کا نیٹ ورک پکڑا لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم عالمی برادری میں بھارت کو کٹہرے میں نہیں کھڑا کر سکے ۔ الٹا ہم عالمی عدالت میں پیشیاں بھگتتے پھر رہے ہیں؟ کیا یہ ہماری خارجہ پالیسی میں کوئی کمی رہ گئی ہے یا کوئی اور مسئلہ ہے؟ جو بھی ہے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت میں بھی واقعات ہوئے ، بغیر کسی تفتیش اور تحقیق کے وہ پاکستان پر الزام لگا دیتا ہے اور ہم دفاعی پوزیشن میں کھڑے ہو کر وضاحتیں پیش کرنے لگ جاتے ہیں۔لیکن پاکستان میں جب کوئی واردات ہوتی ہے ، باوجود اس کے کہ ہم بھارتی شہری بھی گرفتار کر لیتے ہیں اور ثبوت بھی سامنے رکھ دیتے ہیں لیکن پھر بھی ہم بھارت پر اس طرح کا دبائو نہیں ڈال پاتے جو ڈالنا چاہیے ہوتا ہے۔یہ معمولی بات نہیں۔ یہ ایک سنگین اور سنجیدہ معاملہ ہے اور اسے اس کی پوری معنویت کے ساتھ دیکھا جانا چاہیے۔ اس وقت بھی جب رانا ثنا اللہ لاہور دھماکے کی تفصیلات بیان کر رہے تھے .
میں یہی سوچ رہا تھا کہ اس حادثے پر جس طرح ہم نے داخلی سطح پر اہداف حاصل کیے. اور مجرمان کو گرفتار کیا کیا اسی طرح ہم سفارتی سطح پر بھی بھارت پر دبائو بڑھا سکیں گے؟رانا ثناء اللہ کی کانفرنس کے بعد ایک اور کانفرنس بھی ہو نی چاہیے تھی اور وہ وزیر خارجہ کی تھی۔ بلاول ملک سے باہر تھے تو حنا ربانی کھر تو موجود تھیں۔ کشمیر میں جس طر ح بھارت نے بین الاقوامی قوانین کو پامال کیا ہے ، اس سب کے باوجود اگر مودی جیسے شخص کے خلاف حقوق انسانی کا مقدمہ بین الاقوامی برادی میں بھر پور طریقے سے پیش نہیں کیا جا سکا تو پھر ہمیں سوچنا ہوگا معاملہ کیا ہے؟
ہمارے سفارتی معاملات توجہ کے طالب ہیں یا پھر یہ ہماری معاشی صورت حال ہے جو سفارت کاری میں بھی ظہور کر رہی ہے۔وجہ جو بھی ہے ، لازم ہے کہ اس کو جنگی بنیادوں پر دیکھا جائے۔کم از کم اس سوال پر تو غور کر لیا جائے کہ کیا سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام حاصل ہو سکتاہے؟ افغانستان کا معاملہ بھی تووجہ کا طالب ہے۔ ہمارے ہاں تو امریکہ کے افغانستان سے انخلاء پر خوشیاں منائی گئیں اور ہر سطح پر ہماری طرف سے نئی حکومت کے لیے خیر سگالی کا مظاہرہ کیا گیا لیکن کیا وجہ ہے کہ ادھر سے ایسی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا؟ پاکستان دنیا بھر کو قائل کرتا پھر رہا ہے کہ افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کر لیا جائے اور افغانستان سے پاکستان پر حملے ہو رہے ہیں۔یہ رویہ بھی بہت سارے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
کیا یہ بھائی چارے کا سارا بوجھ یکطرفہ طور پر پاکستان نے ہی اٹھانا ہے یا دوست ممالک کی بھی کوئی ذمہ داری ہوتی ہے؟ کیا یہ سمجھا جائے کہ افغانستان میں کچھ نان سٹیٹ ایکٹرز موجود ہیں جن پر وہاں کی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں؟ یا پھر یہ سمجھا جائے کہ ان نان سٹیٹ ایکٹرز کو وہاں کی حکومت میں سے بھی کسی نہ کسی سطح پر تائید اور معاونت حاصل ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے اور افغان حکومت اپنی اس پالیسی پر قائم ہے کہ اس کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی تو پھر اس پالیسی کو عملی طور پر بروئے کار آنا چاہیے۔باہم دوستانہ تعلقات کی ضرورت اگر ہوتی ہے تو سبھی کو ہوتی ہے ۔ یہ یکطرفہ معاملہ نہیں ہوتا۔پاک افغان جائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق دو طرفہ تجارت کا حجم ڈھائی ارب ڈالر سے کم ہو کر ایک ارب ڈالر رہ چکا ہے۔
ہر روز صرف چمن بارڈر سے پاکستان سے قریب ایک سو ٹرک سازو سامان لے کر افغانستا ن میں داخل ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ افغانستان ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے۔ باہمی تجارت کا زیادہ فائدہ بہر حال افغانستان ہی کو ہے ۔اب اگر چمن بارڈر پر ہی پاکستان کو بے گناہ شہریوں کی لاشیں اٹھانا پڑیں تو اس دو طرفہ تجارت پر بھی ایک وقت آئے گا کہ سوالات اٹھیں گے۔ سفارت کاری مگر وہی پیغام لے جاتی ہے جو ملکی قیادت بھیجنا چاہے۔ آپ ان دونوں واقعات پر مجموعی طور پر قومی قیادت کا رد عمل دیکھیے۔آپ کو لگے گا جیسے اخبارات میں بیانات دینے والی سیاسی قیادت کسی اور ملک کی ہے اور یہ واقعات کسی اور ملک کے ساتھ ہوئے ہیں۔ قومی قیادت اگر سیاسی تعصبات اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے باہر نکلے گی تواسے معلوم ہو گا کہ اور بھی غم ہی زمانے میں سیاست کے سوا۔ صف اول کی سیاسی قیادت میں سے شاید ہی کسی نے چمن میں ہونے والی شہادتوں پر بات کی ہو۔یہ کون لوگ تھے جوقتل کیے گئے؟کیا یہ پاکستان کے شہری نہ تھے؟
کیاان کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری نہیں تھی؟ دیکھا جائے تو یہاں بھی امتحان سفارت کاری ہی کا ہے کہ وہ برادر اسلامی ملک کی قیادت کو بتائے کہ بھائی چارہ ایک یکطرفہ عمل نہیں ہے۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ بھائی چارے کی ساری ذمہ داریاں پاکستان اکیلا اٹھاتا رہے اور بدلے میں اس کو لاشیں ملتی رہیں۔اطراف کو ایک دوسرے کا احترام کرنا ہو گا۔
پاکستان نے اپنے حصے اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر افغانستان کا ہاتھ بٹایا ہے۔ ہر سطح پر ۔پاکستان حق بجانب ہے کہ جواب میں اس کی سرحد اور اس کی سالمیت کا بھی تحفظ کیا جائے۔ کیا پاکستانی قیادت یہ پیغام یکسوئی کے ساتھ اطراف میں پہنچائے گی؟ چمن بارڈر سے لاہور دھماکے تک ، اس داستان خوں رنگ کا اصل سوال یہی ہے۔
تبصرہ لکھیے