ہوم << ریڈ لائن پر گرین لائٹ اور ضرورت مند اراکین پنجاب اسمبلی- محمد اکرم چوہدری

ریڈ لائن پر گرین لائٹ اور ضرورت مند اراکین پنجاب اسمبلی- محمد اکرم چوہدری

خبر کچھ یوں ہے کہ صدر پاکستان عارف علوی حرکت میں آئے ہیں پاک فوج میں کمان کی تبدیلی کے بعد انہوں نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو متنبہ کیا کہ وہ جماعت کے رہنما¶ں اور سوشل میڈیا ٹیم کو نئے آرمی چیف اور فوج پر تنقید سے روکیں۔

فوج کی عزت اس کی ریڈ لائن ہے اسے پار نہ کیا جائے۔ صدر مملکت کے اس پیغام کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک اور یو ٹرن لیا ہے اور اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی کے نام سے واٹس ایپ گروپ میں عمران خان کا پیغام پہنچایا گیا ہے کہ پی نئے آرمی چیف پر کسی بھی فورم پر کوئی تنقید نہ کی جائے اور اس بات پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ اب یہ یو ٹرن تو خوش آئند ہے کیونکہ پاکستان تحریکِ انصاف اپنی سیاسی ناکامیوں کا ذمہ دار ادارے کو ٹھہرا کر خود تمام معاملات سے بری الذمہ ہونے کی کوششوں میں ہے اور وہ جھوٹ اس تسلسل، تواتر اور اعتماد سے بول رہے ہیں کہ سننے والوں کو لگتا ہے کہ صرف سچ ہی پی ٹی آئی کی طرف سے بولا جا رہا ہے۔

اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ عمران خان کے ماننے والے کیوں ان کی ہر غلط اور درست بات پر سوچے سمجھے بغیر یقین کر لیتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہاں ایک ایسا قبیلہ ضرور موجود ہے جو عمران خان سے زیادہ ان کا وفادار بننے کی کوشش میں رہتا ہے۔ عمران خان لگ بھگ ساڑھے تین سال تک حکومت میں رہے اور اس دوران انہوں نے متعدد بار یہ کہا کہ فیصلے وہ خود کرتے ہیں، تمام فیصلوں کے ذمہ دار وہ خود ہیں، ہر فیصلہ ان کی مرضی سے ہوتا ہے، فیصلے مشاورت سے ہوتے ہیں، سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی اتنی تعریف کسی نے نہیں کی جتنی تعریف عمران خان بحثیت وزیراعظم کرتے رہے، بلکہ اس وقت نون لیگ کی طرف سے ادارے پر ہونے والی تنقید کا بھی جواب دیتے تھے.

اس وقت تک پاکستان آرمی اور چیف آف آرمی سٹاف پر ان کا سب سے زیادہ اعتماد تھا یعنی کوئی ایسا موقع نہیں کہ جہاں عمران خان نے فوج اور اس کے سربراہ کی کھل کر تعریف نہ کی ہو وہ تو یہ بھی کہا کرتے تھے کہ فوج کو سب پتہ ہے کہ میں کیا کرتا ہوں۔ لیکن یہ خیالات صرف اس وقت تک کے ہیں جب تک عدم اعتماد کا ماحول نہیں بنا تھا اس کے بعد تو عمران خان نے فوج کو اپنا سیاسی حریف سمجھ کر سیاست کی اور اتنی منفی سیاست ملکی تاریخ میں شاید ہی کسی نے کی ہو، اس بدترین سیاست کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی کیونکہ اس منفی سیاست میں شہدا کی قربانیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

عمران خان وزارتِ عظمیٰ سے الگ ہوئے تو انہوں نے کہا کہ حکومت تو پی ٹی آئی کی تھی لیکن فیصلے کہیں اور سے ہوتے تھے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لگ بھگ ساڑھے تین سال تک وہ خاموشی سے تمام فیصلوں پر سر جھکائے عمل کرتے رہے اس وقت تک کہ جب تک ان کی حکومت ختم نہیں ہوئی یعنی اگر حکومت میں رہتے تو بھلے فیصلے کوئی اور بھی کرتا رہے تو خان صاحب کو اعتراض نہ ہوتا۔ یہ وہی خان صاحب ہیں جو وزیراعظم بننے سے قبل کہا کرتے تھے کہ اگر فوج یا کسی اور جگہ سے مداخلت ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سیاسی حکومت یا وزیراعظم اہل نہیں لیکن اپنے دور حکومت میں وہ لگ بھگ ساڑھے تین سال تک اس مداخلت کو ایک پیج کے نام سے سراہتے رہے.

اور سیاسی مخالفین کو ایک صفحے کے بیانیے سے ڈراتے رہے لیکن حکومت کے خاتمے کے بعد ان کے خیالات میں بہت بڑی تبدیلی آئی اور انہوں نے اپنی ہر ناکامی اور ہر غلط فیصلے کا ذمہ دار کسی اور کو ٹھہرا دیا۔ کیا عمران خان نے وزیراعظم کے عہدے کی خاطر یہ سمجھوتہ کیا اور مصلحت اختیار کی اس کا جواب تو انہیں قوم کو دینا چاہیے ویسے وہ غلطی کے اعتراف میں خاصی مہارت رکھتے ہیں اور قوم انہیں معاف کرنے میں بھی سخاوت کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوم کا وقت ضائع کرنے کے جواب میں صرف غلطی کا اعتراف کافی ہے، اس غلطی سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کون کرے گا۔ بہرحال اب اگر عمران خان کو یہ احساس ہوا ہے کہ ادارے پر نامناسب انداز میں اور ہر وقت تنقید کرنا بہتر نہیں ہے.

اور انہوں نے یو ٹرن لیا ہے تو یہ ایک نئی تبدیلی ہے لیکن چند ماہ کے دوران مسلسل غلط بیانی کی وجہ سے قوم کے ذہنوں میں جو نفرت پی ٹی آئی نے بھری ہے اس کا ذمہ دار کون ہے۔ ان نوجوان اور بے خبر ذہنوں میں جو نفرت کے بیج بوئے گئے ہیں اس نقصان کا ازالہ کون کرے گا۔ عمران خان یا ان کے ساتھ سیاسی میدان کے کھلاڑیوں کے لیے تو بیانیہ بدلنا یا یو ٹرن لینا آسان ہو گا کہ مسلسل غلط بیانی کرتے رہیں اور اچانک ایک دن کہیں کہ بیرونی اور امریکی سازش کا بیانیہ بھی ختم، حکومت گرانے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بھی نہیں تھا لیکن چند ماہ صبح دوپہر شام اس بنیاد پر بولے جانے والے جھوٹ کا حساب کون دے گا اگر یہ سب جھوٹ تھا تو کیا عوامی سطح پر ویسے ہی اس کا اعتراف کرنا اور اپنے ووٹرز کو یہ بتانا ضروری نہیں تھا کہ لوگوں کے جذبات بھڑکانے کے لیے غلط بیانی کی گئی، سیاسی شکست کو چھپانے کے لیے قومی سلامتی سے کھیلا گیا۔

بات تو آئین اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے ہوتی ہے، طاقتور کو قانون کے نیچے لانے کی ہوتی ہے لیکن کیا قومی سطح کے لیڈر جسے بین الاقوامی میڈیا بھی کوریج دیتا ہو وہ کئی ہفتوں تک مسلسل غلط بیانی کرتا رہا کیا یہ کرپشن نہیں، کیا اس کی کوئی سزا ہے، اس سے بڑی کرپشن کیا ہو گی کہ آپ اپنی حکومت کے خاتمے کی وجہ ملکی سلامتی کو ہی داو¿ پر لگا دیں۔ افواجِ پاکستان کو ہر ناکامی کا ذمہ دار قرار دینے والے ذرا اپنے کا ادوار دیکھیں، آج معیشت تباہ ہوئی ہے تو اس کی وجہ انیس سو پچاسی سے لے کر آج تک کی سیاسی حکومتوں کے کارناموں کی وجہ سے۔ انیس سو پچاسی تک تو یہ حالات نہ تھے، نہ روپے کی قدر اتنی کم تھی، نہ مہنگائی تھی، نہ قرضے تھے یہ سب تحفے انہوں نے دیے ہیں جو اپنی ہر ناکامی کا ذمہ دار افواجِ پاکستان کو قرار دیتے ہیں۔

معیشت کی تباہی، غربت، قرضوں کا بوجھ، بدانتظامی ، مالی عدم استحکام ، سیاسی عدم استحکام ، کرپشن، بدامنی، میرٹ کا قتل عام یہ سب تحفے بھی مختلف سیاسی حکومتوں کے ہیں۔ افواجِ پاکستان کی مداخلت کو مسائل کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ عمل کن حالات میں ہوا، ملک کو کن مشکلات کا سامنا تھا، ملک کے حالات کیسے تھے، کیا ملک کے حالات مداخلت کا تقاضا نہیں کر رہے تھے۔ تاریخ کا جائزہ لیں اور غیر جانبدارانہ انداز میں تجزیہ کریں آپ کو احساس ہو گا کہ ہر وقت وسیع تر ملکی مفاد میں فوج نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس عرصے میں سیاست دانوں کے اپنے کاروبار تو چلے، ان کی فیکٹریاں بڑھتی چلی گئیں، کاروبار پھیلتے رہے، پرائیویٹ اداروں نے فروغ پایا لیکن ریاستی ادارے مسلسل خسارے کا شکار رہے۔

یہ ان لوگوں کی حکومتوں میں ہوا ہے جو ہر ناکامی کا ذمہ دار فوج کو قرار دیتے ہیں۔ جو ظلم ان لوگوں نے ملک کے ساتھ کیا ہے وہ لکھتے ہوئے دل دہل جاتا ہے قلم ٹوٹ جاتے ہیں اور ہاتھ بے جاں ہو جاتے ہیں لیکن سب اپنے اپنے وقت میں افواجِ پاکستان کو تنقید کا ہدف بناتے ہیں کیونکہ خود کو نااہل کہلوانے سے بہتر ہے مظلوم کہلوایا جائے اور معصوم پاکستانیوں کی معصومیت سے فائدہ اٹھا کر اگلی حکومت کا راستہ سیدھا کیا جائے۔ بہرحال کہنا، کہتے رہنا، بولنا اور بولتے رہنا آسان ہے، قائم رہنا، سچ بولنا اور ملک و قوم کی خدمت کرنا مشکل ہے۔ تاریخ بے رحم ہے وہاں فیصلہ ضرور ہوتا ہے کہ ترقی کس کے دور میں ہوئی اور تباہی کس کے فیصلوں سے آئی۔ قارئین اس کا جائزہ لیں تاکہ اندازہ ہو کہ مظلوم کون ہے اور ظلم کس پر ہوا ہے۔

پنجاب اسمبلی نے وزرا کی تنخواہوں، الاو¿نسز اور مراعات کا گورنر کی جانب سے واپس بھیجاگیا ترمیمی بل دوبارہ کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔ اراکین کو مبارکباد کیونکہ انکی کمزور مالی حالت اور ملک و قوم کی محبت میں انہیں اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی ضرورت رہتی ہے اسمبلی میں یہ آتے تو عام آدمی کا کام کرنے کے لیے ہیں لیکن ہر وقت اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ پنجاب میں کئی ایسے سیاست دان بھی ہیں جنہیں ان کے حلقے کے عوام ڈھونڈتے پھر رہے ہیں مخدوم خسرو بختیار کی بھی تلاش جاری ہے۔

انہیں تو حلقے میں گئے اتنا وقت گذر گیا ہے کہ لوگ ان کی شکل ہی بھولنے لگے ہیں لیکن ان کے وعدے ابھی تک یاد ہیں کیونکہ وہ جنوبی پنجاب محاذ کے نام پر، جنوبی پنجاب کے عوام کی محرومیوں کو ختم کرنے کے لیے حکومت کا حصہ بنے لیکن ووٹرز کو ان کا حصہ دیے بغیر کہیں گم ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں زندگی کے مزے لے رہے ہیں جب کہ یہاں لوگوں کی بات سننے کے لیے کوئی نہیں ہے۔ اسی طرح سارے منتخب نمائندوں کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا وہ تمام سہولیات جو انہیں حاصل ہیں کیا یہ کسی ووٹر کو حاصل ہیں یقیناً نہیں تو پھر لوگ نظام پر سوال کیوں نہ اٹھائیں۔

صدر پاکستان نے خوشخبری سنائی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہو گا اور جمہوریت مستحکم ہو گی، صدر مملکت وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں تاکہ دونوں جماعتوں میں برف پگھلائی جائے اور گفتگو کی کوئی صورت نکلے۔ جہاں تک صدر مملکت کا ملک کے ڈیفالٹ نہ کرنے کا بیان ہے تو انہیں سب سے پہلے یہ بات اپنی جماعت کو سمجھانی چاہیے کیونکہ ڈیفالٹ کرنے کا خطرے کی خبر پی ٹی آئی کے لوگ ہی دیتے ہیں بہتر صدر صاحب اپنے لوگوں کو اعتماد میں لیں کہ وہ ایسی گفتگو سے پرہیز کریں کیونکہ جب اس معاملے میں جان نہیں اور حقیقت سے دور دور کا بھی تعلق نہیں تو یہ منفی مہم لوگوں کو بدظن کرنے کے لیے ہے اس سے کسی سیاسی جماعت سے زیادہ ملک کا نقصان ہے۔

اسحاق ڈار سے ملاقاتیں خوش آئند ہیں بات چیت ضرور کریں لیکن پی ٹی آئی والوں کو یہ بھی سمجھائیں کہ ہر وقت طعنے اور دھمکیاں دیتے رہیں گے تو کوئی بھی بات نہیں کرے گا اگر وہ بات کرنا چاہتے ہیں، مذاکرات کی خواہش رکھتے ہیں تو پہلے خاموش رہنا سیکھیں۔

Comments

Click here to post a comment