ہوم << داستانِ حج 1440 ھ قسط (23) - شاہ فیصل ناصرؔ

داستانِ حج 1440 ھ قسط (23) - شاہ فیصل ناصرؔ

دارُألهجرة النبی، مدينة الرسولﷺ۔

اٰتَيْتُكَ مَاشِيًا وَوَدِدّتُّ أَنِّىْ. مَلَكْتُ سَوَادَ عَيْنِىْ أمتطيه.

وَمَالِىْ لَا أَسِيْرُ عَلَى الْمَآقِىْ.إِلٰى بَلَدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فِيْهِ.

میں تیرے پاس چل کر پیدل آیا اور کاش میں اپنی آنکھوں کی پتلی کا مالک ہوتا تو اس پر سوار آتا۔ اور میں ایسے شہر میں پلکوں پر چل کر کیوں نہ آوں، جہاں الله کے رسول ﷺ ہیں۔روئے زمین پر مکه مکرمه کے بعد بہترین مقام محمد الرسول اللهﷺ کی دارہجرت مدينة النبیﷺ اور آپ کی مسجد حرم نبویﷺ ہے۔ یہاں کے باشندوں (انصارصحابہ کرامؓ) نے انتہائی مخدوش اور کڑے حالات میں نبی اکرم ﷺ اور مہاجرین صحابہ کرامؓ کو سینے سے لگایا۔

مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے آپﷺ اور ابوبکرصدیق ؓ بروز پیر 8 ربیع الاول سن 13 ہجری بمطابق 23 ستمبر 622ء کو مدینہ کی بیرونی بستی قباء پہنچے تھے۔ تقریبا 4 یا 11 دن قباء میں قیام کے بعد بروز جمعہ مدینہ منورہ داخل ہوئے۔ یوں یہ مسلمانوں کا دارالھجرة ، اسلامی ریاست کا پہلا دارالخلافہ اور مجاہدین اسلام کا مرکز و محور بنا۔

امام مالک بن انس رحمه الله نے مدینے کی فضیلت یوں بیان کی ہے۔ ”مدینہ منورہ نبی ﷺ کی دار ہجرت اور آپﷺ کی سنت کا مرکز ہے۔ اس کی ہر طرف شہداء (صحابہ کرام ؓ ) مدفون ہیں۔ اللہ تعالی نے اسے اپنے پیارے نبی ﷺ کیلئے پسند فرمایا، حتٰی کہ آپﷺ کی قبر مبارک بھی یہی بنی۔ اس میں ”رَوضَةٌ مِن رِيَاضِ ألجَنّة” ہے، منبر رسول اور مسجد قباء ہیں”۔
اس کی فضیلت احادیث صحیحہ میں وارد ہے۔ مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ طیبہ بھی حرم ہے۔ اس کا شکار، درخت اور گھاس سب کچھ قابل احترام ہیں۔ عبداللہ ؓ بن زید سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا، ”سیدنا ابراھیم نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا اور مکہ والوں کیلئے دعا کی تھی اور میں نے مدینہ کو اسی طرح حرم قراردیا ہے.

اور اس کے غلہ اور رزق کیلئے مکہ سے دگنی برکت کی دعا کی ہے۔ (بخاری 2129) علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ”مدینہ عَیر پہاڑ سے ثور پہاڑ تک حرم ہے (شمالاً جنوبًا)اور ابوھریرة ؓ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا “مدینہ کی دو پتھریلی میدانوں (حرتین یا لابتین) کا درمیانی علاقہ حرم ہے(شرقًا غربًا)۔(بخاری۔ 1873)

ابوھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا،” مجھے ایک ایسے شہر (میں ہجرت) کا حکم ہوا ہے جو دوسرے شہروں کو کھا لے گا۔ (یعنی سب کا سردار بنے گا) منافقین اسے یثرب کہتے ہیں لیکن اس کا نام مدینہ ہے وہ (برے) لوگوں کو اس طرح باہر کر دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو نکال دیتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو مدینہ طیبہ سے بہت محبت تھی۔ آپﷺ دعا فرماتے، ” أَللّهُمّ حَبّب إلينا ألمدينة كحُبّنا مكة أوأشّدّا ۔ اے اللہ مدینہ کی محبت ہماری دلوں میں مکہ سے بھی بڑھا دے۔(بخاری۔ 1889)

آپﷺجب کسی سفر سے واپس مدینہ آتے، تو شہر کے قریب پہنچتے ہی مدینہ کے شوق کی وجہ سے سواری کو تیز کردیتے، اور اپنے چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹاتے۔ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج ہم اس مبارک شہر دار ہجرت النبیﷺ مدینه طيبه پہنچ گئے۔ تقریبا 1 بجہ رات کو حرم نبوی کے 22 نمبر گیٹ کے سامنے اپنی رہائش گاہ اجنحةالروضه ہوٹل پہنچ گئے۔ سامان بسوں سے اتار کر ہوٹل کے استقبالیہ میں پہنچ گئے جہاں حجاج کرام کا رش رجسٹریشن کیلئے جمع تھا۔ کافی انتظار کے بعد ہمیں پانچویں منزل پر کمرہ نمبر 48 کی چابیاں مل گئیں۔ مکہ کی رہائش گاہ کی نسبت یہاں ہوٹل تنگ اور سہولیات کم تھی۔ لیکن یہ تو مدینہ ، طیبہ اور طابہ ہیں، اسلئے یہاں خوش رہنا ہے۔

مسجد نبوی ﷺ :مدينه طيبه رسول اللهﷺ کی دار ہجرت اور قیام گاہ ہے۔ یہاں مسجد نبوی ﷺ ہے جو مسجد الحرام کے بعد دنیا کی سب سے اہم اور مبارک مسجد ہے۔ اس کی تعمیر کا آغاز 18 ربیع الاول سنہ 1ھ کو ہوا ۔ آپﷺ نے مدینہ کو ہجرت کے فوراً بعد اس مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور خود بھی اس میں بھر پور شرکت کی ۔ مسجد نبوی جس جگہ قائم کی گئی وہ دراصل دو یتیموں کا تھا۔ ورثاء اور سرپرست اسے ہدیہ کرنے پر آمادہ تھے اور اس بات کو اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھتے تھے کہ ان کی زمیں شرف قبولیت پا کر مدینہ منورہ کی پہلی مسجد بنانے کیلئے استعمال ہوجائے مگر رسول الله ﷺ نے بلا معاوضہ وہ پلاٹ قبول نہیں فرمایا، اور ابوبکر صدیق ؓ کو اس کی قیمت کی ادائیگی کا حکم دیکر اس جگہ پر مسجد اور مدرسہ کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔ مسجد کی دیواریں پتھر اور اینٹوں سے جبکہ چھت درخت کی لکڑیوں سے بنائی گئی ۔ اس طرح سادگی اور وقار کے ساتھ مسجد کا کام مکمل ہوا۔

مسجد سے ملحق آپﷺ کی ازواج مطہرات کیلئے کمرے (حجرے) بنائے گئے اور مسجد سے متصل ، دوردراز سے آئے ہوئے طالبان علوم نبوت کے لئے ایک چبوترہ (صفہ) بنایا گیا ۔ ریاست مدینہ میں مسجد نبوی کی حیثیت مسلمانوں کے لئے معبد ، کمیونٹی سینٹر، عدالت اور مدرسے کی تھی۔ مسجد کے قلب میں عمارت کا اہم ترین حصہ ریاض الجنہ ہے جہاں ہر وقت زائرین کی بڑی تعداد موجود رہتی ہے ۔ یہاں مانگی جانے والی کوئی دعا رد نہیں ہوتی۔ خصوصًا حج کے موقع پر رش کے باعث یہاں داخلہ انتہائی مشکل ہوجاتا ہے ۔ اسی مقام پر منبر رسول بھی ہے ۔ گنبد خضراء کو مسجد نبوی میں امتیازی خصوصیت حاصل ہے جس کے نیچے آپﷺ کا روضہ مبارک ہے جہاں آپﷺ کے ساتھ ابوبکر صدیق ؓ اور عمرفاروق ؓ بھی آرام فرما ہیں۔

یہ مقام در اصل ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ کا حجرہ مبارک تھا ۔آپﷺ نے اپنے دست مبارک سے مسجد نبوی کی تعمیر شروع کی جبکہ کئی مسلم حکمرانوں نے اس میں توسیع اور تزئین و آرائش کا کام کیا۔ ابتداءً مسجد نبوی تقریباً 1060 مربع میٹر رقبہ پر محیط تھا۔ سن 7ھ (627ء) کو پہلی دفعہ اس میں توسیع کی ضرورت پڑی جب نمازیوں کی تعداد گنجائش سے زیادہ ہوئی۔ آپﷺ کے حکم پر مغربی اور شمالی طرف سے مسجد کو وسیع کرکے اس کا کل رقبہ2475 مربع میٹر کیاگیا۔

دوسری بار امیر المؤمنین عمر فاروق ؓ کے دور خلافت میں سن 17ھ (638ء) کو مسجدنبوی میں توسیع کرکے اس کا کل رقبہ575 3 مربع میٹر تک پہنچایاگیا۔ تیسری دفعہ سن 29ھ میں امیر المؤمنین عثمان ؓ بن عفان نے مسجد کی تعمیر نو اور توسیع کر کے 4081 مربع میٹر تک اس کا احاطہ بڑھایا۔ توسیع کا عظیم ترین منصوبہ شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دور میں تشکیل دیاگیا جس کے تحت رسول اللہ ﷺ کے دور کے تمام شہر مدینہ کو مسجد کا حصہ بنادیا گیا ہیں۔ مسجدنبوی کی زیارت ثابت شدہ سنت ہے، اور یہ ان تینوں مساجد میں سے ایک ہے، جن کی طرف عبادت کی نیت سے سفر کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا، ” سفر نہ کروں سوائے تین مساجد کے، مسجد حرام، میری یہ مسجد (مسجدنبویﷺ) اور مسجد اقصٰی۔ (متفق علیہ)

یہاں ایک نماز دیگر مساجد کی نسبت ہزارگنا بہتر ہے۔ ابوھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،” صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ”(بخارى۔ 1190)

مسجد نبویﷺ میں منبر رسولﷺ سے لے کر آپﷺ کے حجرہ مبارکہ تک کی جگہ کو جنت کا ایک باغ قراردیا گیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا، ”مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي.” میرے گھر اور منبر کا درمیانی حصہ جنت کے باغات میں سے ایک باغیچہ ہے۔ اور میرا منبر میرے حوض (کوثر) پر ہوگا۔ (بخاری 1888) جنت کے باغیچہ کا مطلب ہے کہ اس جگہ میں عبادت جنت تک پہنچا دیتی ہے۔اور قیامت کے دن یہ جگہ جنت منتقل کی جائے گی۔

جب حاجی مدینہ طیبہ جاتا ہے تو وہ مسجد نبویﷺ کی زیارت کی نیت کرے گا نہ کہ قبرِ نبی ﷺ کی زیارت کی نیت کرے، کیونکہ عبادت کی خاطر قبر کی زیارت کا سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ وہ احادیث جن میں حج کے بعد قبر رسولﷺ کی زیارت کے وجوب کا ذکر ہے وہ ضعیف و من گھڑت ہے جیسا کہ یہ حدیث، ” جس نے حج کیا اور میری زیارت نہیں کی یقینا اس نے مجھ سے جفا کی۔ یہ اور اس جیسے احادیث موضوعی ہیں ۔ تاہم آپﷺ کے قبر کی زیارت ان اعمال میں سے ہے جس کے ذریعہ اللہ کا تقرب حاصل کیا جاتاہے اور بندہ کو خوشی و سرور حاصل ہوتی ہے۔

آپﷺ پر درود و سلام پیش کرنا باعث رحمت اور امت پر آپﷺ کا حق ہے۔ اسلئے نبی کریم ﷺ کی قبر کی زیارت کرتے ہوئے آدمی کو انتہائی ادب و احترام اور خاموشی کے ساتھ روضہ مبارکہ کے سامنے کھڑے ہوکر مسنون الفاظ کے ساتھ سلام پیش کرنا چاہیے۔ جیسے ”السلام علیک یا رسول الله ورحمة الله و بركاته”اس کے بعد آپﷺکے دو قریبی ساتھیوں اور امت کی عظیم ہستیوں، خلیفہ رسول ابوبکر صدیق ؓ اور امیر المومنین عمر فاروق ؓ پر سلام بھیجنا چاہیے جو آپﷺ کے ساتھ روضہ مبارکہ میں استراحت فرما ہیں۔ ”السلام علیك یاابابکر الصدیق ؓ ، السلام علیك یا عمرالفاروق ؓ ”۔

مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے مسجد نبوی ﷺ میں باجماعت فرض نمازوں کی ادائیگی، نوافل، تلاوت ، ذکرواذکار اور درس و تدریس میں اپنا وقت گزارنا چاہیئے۔ اس کے علاوہ مدینہ میں بعض دوسری شرعی زیارات بھی ہیں، جیسے مسجد قباء، بقیع الغرقد اور شہداء اُحد، ان مقامات کی زیارت بھی مسنون اور مستحب ہے۔ یہ زیارات سارا سال مشروع اور مستحب ہیں۔ ان کیلئے کسی خاص وقت کا قید ہے نہ یہ حج کا حصہ ہے۔

بعض لوگوں کا یہ سمجھنا کہ مدینہ کی زیارت حج کی تکملہ اور اسکے مستلزمات میں سے ہے اور حج اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، یہ خیال غلط ہے۔ اگر کوئی شخص مدینہ طیبہ کی زیارت کیے بغیر واپس چلا جاتا ہے تو اس کا حج و عمرہ مکمل ہو جاتا ہے، البتہ اسے اس عظیم اجروثواب سے محروم نہیں رہنا چاہیے۔

Comments

Click here to post a comment