ہوم << شجر بزرگ - حمیراعلیم

شجر بزرگ - حمیراعلیم

میں بوڑھا درخت اس جگہ نجانے کتنے سالوں سے کھڑا ہوں۔ایک بیج کی شکل میں یہاں آ گراپھر گاڑیوں سے اڑنے والی دھول مجھ پر پڑی تو میں اس میں دب سا گیا بارش پڑی تو میری کونپلیں کھل اٹھیں اور آہستہ آہستہ میں بڑھتا گیا۔

پہلے پہل تو کسی نے میری طرف توجہ ہی نہ دی پھر جب مجھ پہ پھل لگا تو کچھ بچوں نے مجھے نوٹس کیا پھل پکنے سے پہلے ہی انہوں نے مجھ پہ پتھر برسانے شروع کر دئیے ۔مجھے ان پتھروں سے سخت تکلیف ہوتی جب بھی کوئی کچا آم گرتا تو مجھے دکھ ہوتا مگر بچے مزے لے لے کر اسے کھاتے میں یہ دیکھ کر اپنا دکھ بھول جاتا اور ان کی خوشی میں خوش ہو جاتا۔

جوں جوں میری عمر بڑھتی جا رہی تھی میرا سائز بھی بڑھتا جا رہا تھا۔میری شاخیں پھیلنے لگیں تو کچھ چرواہے بھی میری طرف متوجہ ہو گئے۔وہ اپنا ریوڑ میرے تنے کےساتھ کھڑا کرتے اور جانوروں کو میری چھوٹی چھوٹی شاخیں اور پتے کھلاتے۔سردیوں کے موسم میں لوگ میرے پاس بیٹھتے اور چند شاخیں توڑ کر آگ جلا لیتے ۔اگرچہ اس سب سے مجھے شدید تکلیف ہوتی اور میں چیختا چلاتا انہیں روکنے کی کوشش کرتا مگر وہ سنتے ہی نہ۔پھر میں اس سب کا عادی ہوتا چلا گیا۔

اب موسم بہار میں میں بچوں کا پسندیدہ درخت ہوتا ۔تو موسم گرما میں بڑوں کا لوگ گرمی سے پناہ لینے کیلئے میری شاخوں کی گھنی چھاؤں میں رکتے۔غریب لوگ چند لمحے سستانے کے لیے لیٹ جاتے۔سردیوں میں میں لوگوں کو گرمائش پہنچاتا تو گرمیوں میں پھل اور چھاؤں ۔ میرے پھل توڑنے والے بچے میری آنکھوں کے سامنے بڑے ہو گئے۔کوئی اسکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی پہنچ گیا۔کسی کی شادی ہو گئی۔کوئی جاب پہ لگ گیا۔اور ان کی زندگیوں میں میرا کردار بھی بدل گیا۔

سڑک کنارے جہاں کبھی کھیت اور میدان تھے اب ہاوسنگ اسکیمز اور کالونیز بن گئی تھیں ۔نجانے میں کیسے بچا رہ گیا۔شاید اس لئے کہ میں پھلدار درخت تھا کسی نے مجھے کاٹا نہیں ۔ان کالونیز اور اسکیمز میں بہت سے بوڑھے میرے ہم عمر تھے جو اپنے اپنے گھروں میں بیکار چیز کی طرح پڑے رہتے تھے۔ چند بوڑھے شام کو واک کرنے نکلتے تو میرے پاس رک کر باتیں کرنے لگتے۔کچھ عرصے بعد بہت سے ایسے بزرگ گھروں سے چارپائیاں اور کرسیاں لا کر میری چھاؤں میں محفل جمانے لگے۔ان کے ساتھ ان کے پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں بھی ہوتے جنہیں ان کی مائیں نانا اور داداکےساتھ سیر کو بھیج کر چند لمحے کے لیے اپنی جان چھڑا لیتی تھیں۔یہ سب بوڑھے تو چارپائیوں اور کرسیوں پر براجمان ہو کر ایک دوسرے سے دکھ سکھ کرتےاور سارے بچے ان کے پاس ہی کھیلتے رہتے ۔یوں میں ان سب کا ہمراز بن گیا۔

مجھے معلوم تھا کہ ظفر صاحب ایک ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر تھے جو اب اپنے بیٹے ، بہو اور دو پوتوں کےساتھ رہتے ہیں اور ان کی بہو گھر کے سارے چھوٹے موٹے کام انہی سے کرواتی ہے یوں اسے مفت کا ایک نوکر ملا ہوا ہے۔ جنید صاحب ایک پولیس آفیسر تھے جو بڑے جلالی قسم کے آفیسر تھے اور ابھی بھی گھر بھر پر انہی کا حکم چلتا ہے۔دو بیٹے شادی شدہ ہیں اور ایک بیٹی اور بیگم کےساتھ اس ہاوسنگ سوسائٹی میں نئے نئے شفٹ ہوئے ہیں ۔پوتے پوتیوں سے بڑی محبت کرتے تھے اس لئے خود ہی انہیں ساتھ لےکر روزانہ شام کو واک کے لیے نکل آتے ہیں ۔

اکمل صاحب نے عمر عزیز کے تیس سال امریکہ میں مزدوری کرتے گزار دئیے پھر بچوں کی شادیاں کر کے انہیں سیٹل کر دیا اور خود واپس پاکستان آ گئے جہاں اب وہ اپنی بیگم کےساتھ اکیلے رہ رہے ہیں ۔تنہائی میں دل گھبراتا ہے تو شام کو باہر نکل آتے ہیں اور یہاں بیٹھ کر اپنا دل بہلا لیتے ہیں ۔اسی طرح سب کی کوئی نہ کوئی کہانی ہے اور سب کا کوئی نہ کوئی دکھ ہے۔پر ہر شخص اپنا اپنا دکھ چھپائے زندگی گزار رہا ہے۔

لیکن میری چھاؤں اور پھل امیر غریب ، دکھی سکھی، بچوں بڑوں سب کے لیے یکساں ہے۔میری دعا ہے کہ میں سب کے لیے تادم حیات ایسے ہی سکون اور راحت کا باعث بنا رہوں۔

Comments

Click here to post a comment