ہوم << یہ تو سب کو پتہ ہے-محمد طلحہ سِپرا

یہ تو سب کو پتہ ہے-محمد طلحہ سِپرا

یوں تو خدا نے پاکستان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے مگر شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا ملک ہو جہاں شرحِ ناخواندگی چالیس فیصد سے زائد ہونے کے باوجود ہر دوسرا شخص ” عقلِ کُل“ رکھتا ہو۔ اگر میری بات سن کر آپ کو حیرانی ہو رہی ہے تو ابھی اپنے پاس بیٹھے شخص سے دنیا کا کوئی سوال پوچھ لیں، مجال ہے کہ وہ معذرت کرکے خاموش ہو جائے۔ بلکہ قوی امکان ہے کہ وہ اپنی قیمتی رائے سے آپ کے علم میں اضافہ ہی کرے گا۔

گزشتہ برس جب کچھ ہم خیال دوستوں کہ ہمراہ ” ادبی بیٹھک“ کا سلسلہ شروع کیا تو ایسے بے شمار ”با علم“ لوگوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔

مثال کے طور پر ادبی بیٹھک میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو کہ خوش گفتار، نہایت دھیمہ لہجہ اور لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ لیے تشریف فرما تھے۔ جناب سے پسندیدہ لکھاری کا نام پوچھا تو ایک ہاتھ میں سگریٹ سلگائے اشفاق احمد (رح) مرحوم کی تعریف میں قصیدے پڑھنا شروع کردیے۔ ابھی میں انکے علم و ادبی ذوق سے متاثر ہونے ہی والا تھا کہ فرمانے لگے، "طلحہ بھائی، اشفاق صاحب تو زبردست لکھاری ہیں ہی، مگر ان کی ' بہن' بانو قدسیہ کے قلم میں جو جادو تھا، سبحان اللّٰہ!“

ادھر انہوں نے سبحان اللہ کہا ادھر میں نے استغفراللہ کہہ کر جناب سے اجازت طلب کی کیونکہ اب ان کو کون بتلائے کہ بانو قدسیہ مرحومہ (رح) ان کی بہن نہیں بلکہ ”اہلیہ“ تھیں۔

بالکل ایسے ہی ایک صاحب جو انگریزی ادب میں ملکہ رکھتے تھے، بتلا رہے تھے کہ شیکسپیئر کے تخلیق کردہ ادب کا نا صرف انگریزی بلکہ دنیا جہان کی زبانوں میں لکھے گئے ادب سے کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا مگر جب ان سے شیکسپیئر کی لکھی ہوئی ان کی پسندیدہ نظم پوچھی تو کہنے لگے ” Daffodils “۔

یہ بات سن کر ورڈز ورتھ مرحوم کو دکھ تو ہوا ہوگا، مگر شیکسپیئر کی روح پر کیا گزری ”یہ کہانی پھر سہی“۔

ایسے لوگ سوشل میڈیا پر بھی اپنے علم و دانش کے موتی بکھیرے نظر آتے ہیں۔ ”بدنامِ زمانہ“ فلم ”جوائے لینڈ“ کے خلاف مہم چلی تو ایک صاحب نے اس فلم کے خلاف کم و پیش پانچ، سات سو الفاظ پر مشتمل تحریر لکھ کر اپنے غم و غصّے کا اظہار کیا۔ عاجز نے فقط اتنا پوچھا کہ ” کیا آپ نے یہ فلم دیکھی ہے؟“ تو شدید آگ بگولا ہوگئے اور فرمانے لگے کہ فلم دیکھنے کی کیا ضرورت ہے ”یہ تو سب کو پتا ہے۔“

میں نے اپنی اس قدر لا علمی پر جناب سے نہ صرف معزرت طلب کی بلکہ ان کی تحریر کو ”دو بار“ لائک بھی کردیا۔

ایسے باکمال لوگ بازار میں موجود ہر چیز کی قیمت سے بھی خوب آشنائی رکھتے ہیں ۔ آپ روزمرہ استعمال ہونے والی اشیاء جیسے موبائل، ٹیلی ویژن، موٹر سائیکل وغیرہ سے لے کر قربانی کے جانور تک کوئی چیز خرید لیں، یہ آپکو ضرور احساس دلائیں گے ”مہنگا لے لیا استاد“

مگر جب خریدنے سے پہلے ان سے رابطہ کریں تو اکثر کسی دوست کے ”ولیمے“ یا ”سسر“ جی کے گھر پائے جاتے ہیں۔

آپ یہ تحریر پڑھ کر سوچ رہے ہوں کہ مجھے یہ سب کیسے معلوم ہے، تو جناب، ”یہ تو سب کو پتا ہے“!