ہوم << داستانِ حج 1440 ھ قسط (22) - شاہ فیصل ناصرؔ

داستانِ حج 1440 ھ قسط (22) - شاہ فیصل ناصرؔ

جمعة المباركه ٢٩ ذى الحج ١٤٤٠ ھ۔ بمطابق 30 اگست 2019ء

اسلامی سال 1440ھ كا آخرى جمعه مكة المكرمه ميں-

آج اسلامی سال کے آخری مہینے ذی الحجہ کا آخری دن اور آخری جمعہ تھا، مکہ مکرمہ میں ہمارے قیام کا بھی آخری جمعہ تھا۔ اسلئے پہلے سے ذہنی طور پر اس کیلئے تیار تھے۔فجر سے قبل حرم پہنچ گئے ۔ نماز اور طواف کے بعد واپس ہوئے۔ غسل اور ناشتہ کے بعد تقریبا 9 بجے دوبارہ حرم گئے اور امام کے سامنے والی جگہ بیٹھ گئے۔ خطبہ 12:25 پر شروع ہوا۔ توجہ سے سنا۔ جس کا موضوع تھا نجات اعمال پر نہیں بلکہ اللہ کے فضل سے ہے، ہاں اعمال سبب ہے لیکن اسمیں کثرت نہیں بلکہ حسن چاہئیے۔

نماز کے فورا بعد نکل کر بروقت بلڈنگ پہنچ گئے۔ کھانے کے بعد آرام کیا اور عصر کیلئے حرم دوبارہ پہنچ گئے۔ نماز عشاء کیلئے امام کی مخصوص جگہ گئے، جہاں ایک عرب معلم الاستاد صالح نے مجھے جگہ دی۔ الاستاد صالح کا تعلق علاقہ ابہا سے ہے لیکن مکہ مکرمہ میں رہ رہے ہیں اور یہی ایک سکول میں جغرافیہ کے معلم ہیں۔ ان سے مفید بات چیت اور گپ شپ ہوئی۔ وہ پاکستان کے جغرافیہ سے بھی واقف تھے۔ نماز عشاء امام حرم الشیخ بندر بلیلہ کی امامت میں ان کے قریب پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ نماز کے بعد رہائشگاہ واپس ہوئے۔

ہفتہ یکم محرم الحرام ١٤٤١ ھ۔ بمطابق 31 گست2019ء ۔

نئے اسلامی سال 1441ھ کی شروعات سرزمین وحی، بلدالله الحرام مكةالمكرمة میں ہوئی۔ معمول کے مطابق نمازفجر کیلئے حرم گئے اور ناشتہ کیلئے واپس ہوئے۔آرام، نماز ظہر اور ظہرانے کے بعد دوبارہ حرم گئے۔ عصر کے بعد میں اور چچا حمداللہ صفا کی طرف نکل کر مکہ کی مشہور تاریخی قبرستان جنةالمعلى گئے۔ یہاں آپﷺ کے خاندان کے افراد سمیت کئی صحابہ کرام کی قبریں ہیں۔ جن میں عبدالمطلب، ابوطالب، خدیجة الكبری رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا اور عبداللہ بن زبیر ؓ وغیرہ کی قبریں شامل ہیں۔ نماز مغرب مروہ میں ادا کرکے باب فہد کی سامنے گئے جہاں ہمارا رشتہ دار سعداللہ سلارزئ منتظر تھے۔ ان سے ملکر نماز عشاء ادا کی اور بلڈنگ واپس ہوئے ۔

اتوار ٢ محرم الحرام ١٤٤١ ھ۔ بمطابق یکم ستمبر 2019ء ۔

مکہ میں حج کے بعد تعلیمی سرگرمیوں کی شروعات: مكةالمكرمه میں موسم حج کے اختتام پر آج اتوار ٢ محرم ١٤٤١ھ کو تعلیمی ادارے کھل گئے۔ حرم تک جانے والی حجاج کی ٹرانسپورٹ روٹ کو بھی تبدیل کیا گیا۔ اب ہماری بسیں کدی کی بجائے بطحہ قریش کی طرف پر ایک لمبی چکر کاٹ کر عزیزیہ کی طرف سے حرم آتیں۔آج مسجد الحرام کے ساحات میں بھی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ نماز عصر کے بعد اساتذہ اور طلباء خوبصورت نفیس لباس اور عربی رومال (شماغ العربی) اڑھے دلکش نظارہ پیش کر رہےتھے۔نیچے توسیع ملک فھد میں ایک عالم بہت شیرین انداز میں سنن ابی داؤد کی درس دے رہے تھے، جسمیں شرکت کرکے نماز مغرب تک احادیث نبویﷺ سننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ عشاء کے بعد واپسی کی۔

پیر ٣ محرم الحرام ١٤٤١ ھ۔ بمطابق 2 ستمبر 2019ء

الوداع ! اے مکةالمكرمه

مکہ مکرمہ میں ایک ماہ گزارنے اور حج کی عظیم عبادت ادا کرنے کی بعد اب اس پاک و مبارک سرزمین سے ہماری رخصتی ہوگی۔ ہوٹل میں لگائے گئے شیڈول کی مطابق عصر 4 بجے ہمیں روانہ ہونا تھا۔ہمارے ذمے حج کا آخری عمل ”طواف وداع” کرنا باقی تھا۔ رات سے ہم نے اپنا سامان پیک کرلیا تھا۔ سویرے اٹھ کر حرم گئے۔ فجر کے بعد واپس ہوئے۔ غسل کرکے ناشتہ کیا۔ میں مکہ مکرمہ کے ضلع النسیم میں واقع ”مرکزتفسیر للدراسات القرآنية” گیا۔ وہاں مدیر مشروع (پراجیکٹ منیجر) نایف بن سعیدالزھرانی سے ملا اور ”المختصر فی التفسیر” کے دس نسخے وصول کرکے ہوٹل آیا۔

ساتھی طواف وداع کیلئے حرم گئے تھے۔ تقریبا 12 بج رہے تھے۔ میں پیدل کدی سٹاف روانہ ہوا۔ جماعت کا وقت بھی قریب تھا۔ سٹاف بالکل خالی تھا، کیونکہ یہاں سے ٹرانسپورٹ بند ہوا تھا۔ لیکن خوش قسمتی سے ایک بس آئی، اور میں اس میں سوار ہوا۔ حرم پہنچ کر جماعت کھڑی ہوئی تھی۔ میں نے باہر ساحہ میں نماز ظہر باجماعت ادا کی، جو اس مرتبہ بیت اللہ الحرام میں ہماری آخری جماعت تھی۔ نماز کے بعد مطاف داخل ہوا اور ساتھیوں سے ملکر ”طواف وداع” شروع کیا۔ اس آخری طواف کی کیفیت بیان کرنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں ۔ بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ تمام ساتھیوں کی آنکھیں اشک بار تھیں۔

دوپہر کی سخت گرمی میں اس آخری طواف اور دعا کی لذت زندگی بھر یاد رہی گی۔ اللہ کے اس عظیم گھر سے رخصتی کی حالت الفاظ میں بیان سے باہر ہے۔ 2 بجے کعبة المشرفه پر آخری نگاہ ڈالتے ہوئے باب عبدالعزیز سے نکل کر بس سٹاف گئے۔ بس نمبر 915 میں سوار ہوکر بلڈنگ پہنچ گئے۔ وہاں حجاج کرام اپنے سامان کے بڑے بڑے سوٹ کیسز اور کاٹن کمروں سے نکال کر نیچے گراونڈ کو لا رہے تھے۔ ہم سیدھا ڈائننگ ہال گئے، کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے گئے۔ اور سامان نیچے اتار دیا ۔ نماز عصر کدی کی مسجد محمد السبیل میں ادا کی۔ بسیں پہنچ چکی تھیں اور اسمیں سامان رکھا جارہاتھا۔ تین سو حجاج کرام پر مشتمل چھ بسوں کا قافلہ عصر چھ بجے مدينة النبىﷺ کی طرف روانہ ہوا۔ مکہ سے مدینہ تک 460 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ آہستہ آہستہ ہم مکہ مکرمہ سے دور ہوتے گئے۔

مكة المكرمة کی جدائی :

مجھے فرقت میں رہ کر پھر وہ مکہ یاد آتا ہے

‏وہ زم زم یاد آتا ہے ، وہ کعبہ یاد آتا ہے

مکہ مکرمہ روئے زمین کا سب سے بہترین مقام ہے جہاں اللہ تعالی نے توحید کا پہلا مرکز اور اپنا گھر خانہ کعبہ بنایا ہے، اس کے گرد طواف کی خصوصی عبادت وضع کی ہے اور اپنے بندوں کے دلوں میں اس بقعہ ارض کی ایسی محبت ڈال دی ہے کہ جو نہیں گیا ہے وہ جانے کا خواہش مند ہے اور جو گیا ہے وہ بار بار جانے کی خواہش رکھتا ہے۔جب اللہ کے خلیل ابراھیم علیه السلام نے اس کی تعمیر کی تو اس کو آباد رکھنے کیلئے اللہ سے دعائیں کی، جن میں ایک دعا یہ تھی ،“ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِىْ إِلَيْهِمْ” الہی لوگوں کے دلوں کو اس کی طرف مائل کریں۔” ابراھیم خلیل الله کی اس دعا کا اثر ہے کہ یہاں سے رخصتی کے وقت قدم آگے نہیں جاتے۔ اور دل و آنکھیں بار بار اس کی طرف مڑتے ہیں۔

یہ تو ان لوگوں کی حالت ہوتی ہے جو چند دن یہاں گزارتے ہیں۔ ذرا غور کریں ہمارے پیارے نبی محمدرسول اللهﷺ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے تھے، اپنے بچپن کے یادگار ایام گزارے اور یہی پل کر جوان ہوئے۔ ان کے رشتہ دار اور عزیز و اقارب یہاں موجود تھے۔ ان کو جب یہاں سے نکالا جاتا تو آپﷺ کتنا افسردہ اور غمگین ہوتے۔عبداللہ بن عدی بن حمراءؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مکہ مکرمہ میں حزورہ مقام پر دیکھا، جو مکہ کی طرف متوجہ ہوکر فرماتے

(وَاللّٰهِ إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللّٰهِ، وَأَحَبُّ أَرْضِ اللّٰهِ إِلَى اللّٰهِ، وَلَوْلَا أَنِّيْ أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ)۔ اے مکہ!اللہ کی قسم، تو اللہ کی زمین میں سب سے بہترین اور اسے محبوب زمین ہے۔ اگر یہ لوگ مجھے نہ نکالتے، تو میں نا نکل جاتا۔” (ترمذی ۔3925)

اس محبت کے باوجود رسول اللہﷺ نے اللہ کی رضا اور دین کی محبت کی خاطر مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کی۔ اس قربانی کی بدولت اللہ تعالی نے آپﷺ کے مشن (دین اسلام)کو مدینہ طیبہ میں عظیم کامیابی اور فتح و نصرت عطاء کرکے تمام عالم کو پہنچایا۔ مکہ والوں کی ھجرت اور مدینہ والوں کی نصرت نے ملکر اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد ڈالی، جو رفتہ رفتہ عرب و عجم پر سایہ فگن ہوئی۔

آج ہم اسی راستے ”طریق ہجرت” پر محو سفر تھے، جس پر 1440 سال قبل آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یار غار ابوبکر صدیق ؓ کے ہمراہ ہجرت کی تھی۔ لیکن رات کی تاریکی اس راستے کی نظارہ کرنے میں رکاوٹ تھی۔ تقریبا ایک گھنٹہ سفر کے بعد قافلہ 7:15 پر نماز مغرب کیلئے ایک پمپ میں رک گیا جبکہ کھانے اور نماز عشاء کیلئے 9:15 پر دوبارہ رک گئے۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد اب مسلسل سفر شروع ہوا۔

کچھ دیر بعد رات کی پختگی کے ساتھ ساتھیوں کی گفتگو اور گپ شپ کی آوازیں غائب ہونے لگیں، اسلئے میں نے بھی سونے کا ارادہ کیا، لیکن گاڑی کی سیٹ میں پرسکون نیند ممکن نہیں ہوتی۔ تاہم کبھی نیند اور کبھی بیداری سے بقیہ سفر طے کرکے ہمارا قافلہ رات 12:30 پر مدینة النبىﷺ کی حدود میں داخل ہوا ۔ ہاں یہ آپﷺ کا محبوب شہر مدینہ، طیبہ، اور طابہ ہے۔۔

چل اس (ﷺ) کے شہر کی طرف، یہ دل اگر اداس ہے

بہشت اس (ﷺ) کے روضے کی جالیوں کے پاس ہے

Comments

Click here to post a comment