ہوم << سرسید احمد خاں اور انگریز کی غلامی - چوہدری محمد ذوالفقار سِدّھو

سرسید احمد خاں اور انگریز کی غلامی - چوہدری محمد ذوالفقار سِدّھو

اپنے وقت کی سپریم طاقت بریطانیہ کو ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کر چکنے کے بعد ایسے لوگوں کی ضرورت تھی جو کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی ذہن سازی کریں کہ انگریز مکمل طور پر ہندوستان پر قابض ہو چکا ہے۔

اس لئیے اب فرنگی تسلط کو قبول کرتے ہوئے انگریز کی تابع داری میں زندگی گزارنے ہی میں عافیت ہے۔ چونکہ فرنگی تسلط کے خلاف علماء اکرام ہندوستان کے مسلمانوں کی راہنمائی کے لئیے ہر طرح کی قربانی دے رہے تھے۔ دارالعلوم دیوبند کی بنیاد بھی ہندوستان کے مسلمانوں کی نظریاتی اور اخلاقی اساس بچانے کی غرض ہی سے رکھی گئی تھی۔

یہ دینی ادارہ قابض انگریز کے مقابل مسلمان کے عقائید کی حفاظت کے ساتھ فرنگی کے لادین نظریاتی سے بچاؤ کا فریضہ بہت احسن طریق سے سر انجام دے رہا تھا۔ انگریز کو دارالعلوم دیوبند کے مقابل اپنے مقاصد کے حصول کے لئیے مذہبی شناخت رکھنے والے لوگ درکار تھے۔ سرسید احمد خاں کا انتخاب انگریز کا بہترین انتخاب تھا۔ سید احمد خاں نے انگریز کی تفویض کردہ ڈیوٹی نبھاتے ہوئے ، سب سے پہلے مسلمانوں کے دینی عقائید میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لئیے معجزات سے انکار کر دیا۔

نماز کو ورزش قرار دے دیا وغیرہ وغیرہ ، اور پھر انگریز کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے انگریزی سرکار کی ملازمت کے حصول کے لئیے انگریزی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے مسلمانوں کی ذہن سازی کی۔ یعنی مسلمانوں کی آزادانہ ذہنی اپروچ کو غلامانہ اپروچ میں تبدیل کرنے کے لئیے انگریز کے تیار کردہ طریقہ کار کی ترویج کے لئیے علی گڑھ یونیورسٹی کو قائم کیا۔ ماحول انسانی شخصیت اور معاشرہ کے سنورنے اور بگڑنے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔

تبلیغی جماعت میں تین دن ، چالیس دن ، چار ماہ لگانا فرض یا واجب نہیں ہیں۔ وہ بندہ کا ماحول بدلتے ہیں۔ دنیا کے بے دین ماحول سے نکال کر مسجد کے ماحول میں تین دن ، چالیس دن ، یا چار ماہ تک رکھتے ہیں۔ مسجد کے پاکیزہ ماحول میں رہ کر انسان جو کچھ چار ماہ میں سیکھتا ہے وہ دنیا کے ماحول میں رہ کر چار سالوں میں نہیں سیکھ سکتا۔ علی گڑھ یونیورسٹی کا ماحول انگریز کی غلامی کا ماحول بنایا گیا تھا۔ مسلمانوں کی ترقی کے نام سے مسلمانوں کی تنزلی کے بندوبست کا نام علی گڑھ یونیورسٹی تھا۔ اسی ماحول کے تربیت یافتہ اور اسی یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ طبقہ نے ہندوستان کے مسلمان کی تقسیم میں اہم کردار ادا کیا۔

علماء اکرام کے مقابل مسلمانوں کی انگریز کی تابع دارانہ ذہن سازی کی خدمات کے اعتراف میں انگریز نے سید احمد خاں کو سر کا خطاب دیا تھا۔ اور پھر آگے چل کر علی گڑھ تعلیم کے نصابی مکتبہ فکر نے ہی پاکستان کو دو لخت کیا۔ کوئی ایک بھی عالم دین پاکستان کے ٹکڑے کرنے میں شامل نہ تھا۔ سارے کے سارے کردار علی گڑھ یونیورسٹی کے شاگرد تھے۔ پاکستان میں بے دینی کا ماحول ، رشوت ، سفارش ، سود ، دیگر سب خرافات کے ساتھ انگریزی طرز حکومت کا تسلسل علی گڑھ نظام تعلیم کے تعلیم یافتہ لوگوں کا قائم کردہ ہے۔

آج تک پاکستان میں نفاذ نظام دین اسلام کے مخالفین اور انگریزی نظام حکومت کے محافظ سر سید احمد خاں کی نظریات کے حامل لوگ ہی ہیں۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ دنیا بھر کا مقروض علی گڑھ نظام تعلیم کے لوگوں کا گھناؤنا کارنامہ ہے۔ پاکستان کو حالت نزع میں پہچانے والے علی گڑھ نظام تعلیم پڑھے ہوئے لوگ ہیں۔

علماء اکرام کو ہر گالی دینے والے علی گڑھ نظام تعلیم سے فیضیاب لوگ ہیں۔ مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ آج کے چند عالم دین انگریزی کاز کے مبلغ ، انگریز سے سر کا خطاب پانے والے سر سید احمد خاں کی مدح سرائی میں مصروف ہیں۔ شائید مجمع العلوم کے اثرات اپنا کام دکھا رہے ہیں۔