دنیا کے ہر خطے اور علاقے کی اپنی ایک منفرد ثقافت ہوتی ہے اور علاقے اپنی ثقافت سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی اپنی ایک ثقافت ہے۔ ہماری ثقافت اور تہذیب میں دنیا کی دوسری ثقافتوں کا عکس بھی جھلکتا ہے۔ لیکن ہماری ثقافت کا ایک پہلو ایسا ہے جو دنیا کے کسی اور حصے میں نظر نہیں آتا اور وہ ہے ٹرک۔ جی ہاں! ٹرک۔
آپ حیران کیوں ہو رہے ہیں؟ یہ ٹھیک ہے کہ ٹرک دنیا کے بیشتر حصوں میں پائے جاتے ہیں لیکن جیسے ٹرک ہمارے ہاں ملتے ہیں، ان کی شبیہ دوسری جگہوں پر نہیں ملتی۔
کراچی سے خیبر تک چلنے والی ایک دیو ہیکل ، چار پہیوں والی جو شے اکثر آپ کو سڑک پر دوسری گاڑیوں کا راستہ روکے، دھواں پھیلاتے اور زور زور سے ہارن بجاتی نظر آتی ہے، وہی ٹرک ہے۔ ہمارے ہاں ٹرکوں کو دلہنوں کی طرح سجایا جاتا ہے۔ مختلف قمقمے، گھنگرو ،موتیوں کی لڑیاں اور اسی طرح کے دیگر لوازمات ٹرکوں کی آرائش وزیبائش کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن یہ تو صرف ابتدا ہے، ٹرکوں پر مصوری کے اعلیٰ فن پارے اور شاعری کے جو بہترین شاہکار نقش کیے جاتے ہیں، ان کی مثال نہیں ملتی۔ ٹرکوں کے پیچھے آپ کو اکثر ایک بھاری بھرکم شخص وردی میں ملبوس نظر آئے گا۔ اس کے ہونٹوں پر سرخی کی موٹی تہہ، گالوں پر غازہ اور آنکھوں میں مسکارہ ہوتا ہے۔ یہ سابق صدر پاکستان جنرل ایوب خان عرف "تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد" ہیں۔
اقبال کے شاہین کی صحیح ترجمانی ٹرکوں کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا۔ آپ نے یقیناً ٹرکوں کے پیچھے ایک چیل نما پرندہ دیکھا ہو گا، جو دراصل اقبال کا شاہین ہے۔ شاید آج کا شاہین ایسا ہی ہو۔ شاہین کے علاوہ دیگر جانور اور پرندے بھی ٹرکوں کی زینت بنتے ہیں۔ مثلاً شیر۔ جی ہاں یہ وہی شیر ہے جسے آپ اکثر معصوم سی بلی سمجھ کر" ہائے کیوٹ "کہہ دیتے ہیں۔
علمِ مصوری کے نادر نمونوں کے علاوہ ٹرک علم و ادب کا وسیع ذخیرہ بھی رکھتے ہیں۔ مثلاً
"ماں کی دعا ، جنت کی ہوا"۔
واہ کیا قافیہ پیمائی ہے۔ میر تو اس شعر کو سن کر بھڑک ہی اٹھیں !!!
یا
"ہارن دے کر پاس کر یا برداشت کر"۔ برداشت کرنے کے علاوہ ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں ،کیونکہ ہارن لگا تار بجانے کے باوجود ٹرک ڈرائیور ٹس سے مس نہیں ہوتا۔
اور ، "جلنے والے کا منہ کالا۔"
ویسے منہ کالا کرنے کے لیے جلنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ وہ تو ٹرک کےدھوئیں سے یوں ہی کالا ہو رہا ہوتا ہے۔
ٹرکوں کے پیچھے لکھا ہوا ایک قطعہ بحر، عروض اور زمین کی بندش سے یوں آزاد ہے جیسے ٹرک ڈرائیور خود کو ٹریفک قوانین سے آزاد سمجھتے ہیں یعنی،
ڈرائیوری بھی عجب کھیل ہے،
گاڑی کی بریک فیل ہے،
مر گیا تو موت ہے،
بچ گیا تو سینٹرل جیل ہے!!!
مصوری اور شاعری کے علاوہ ہمارے کفیل بھائی گھوٹکی والے بھی تو ہیں جن کا ذکر کیے بغیر کوئی ٹرک مکمل نہیں ہوتا۔ یہ بہترین فاسٹ بولر ،بلے باز اور فیلڈر ہیں۔ جانے کیوں ان کو کرکٹ بورڈ والے ٹیم میں کھیلنے کا موقع نہیں دیتے۔ اگر یہ ٹیم میں شامل ہوتے تو شاید ہم ورلڈ کپ ہارنے کا غم نہ کر رہے ہوتے۔
اس سب کے علاوہ بعض نوادر ہمارے ناقص فہم میں آ نہیں سکے، سو بیان سے باہر تو ر ہیں گے ، لیکن بہر حال ، ایبسٹریکٹ آرٹ یعنی تجریدی فنون کی شاخ اسی قبیل کے لیے وضع کی گئی ہے۔۔۔
غرض یہ کہ ٹرک، فنون لطیفہ کی ہر شاخ کے آئینہ دار ہیں اور انہیں اپنی ثقافت سے کسی طور الگ نہیں کیا جا سکتا۔
تبصرہ لکھیے