ہوم << داستانِ حج 1440 ھ قسط (19) - شاہ فیصل ناصرؔ

داستانِ حج 1440 ھ قسط (19) - شاہ فیصل ناصرؔ

حج کے بعد ، عبادات و زیارات : مناسک حج کی ادائیگی کی بعد ہم فرائض سے آزاد ہوئے تھے۔ اب ہمارا کام حرم کعبہ میں فرض نمازوں کی باجماعت ادائیگی اور نفل طوافیں کرنے تھے۔

ہم روزانہ فجر سے قبل حرم جاتے، چاشت کے وقت واپس ہوٹل آتے، ناشتہ ، آرام ، نماز ظہر اور کھانے کی بعد دوبارہ عصر سے پہلے حرم پہنچتے اور پھر نماز عشاء ادا کرکے واپس ہوتے۔ اس ٹائم ٹیبل کے مطابق ہم مکہ مکرمہ میں اپنا بقیہ وقت گزارتے۔ اس کیساتھ مکہ کے بعض مشہور تاریخی مقامات کی زیارت کرنا بھی باقی تھا۔ اگر چہ ان زیارات کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، لیکن تاریخی حیثیت ضرور ہے۔ حجاز مقدس الله كی آخری نبی محمدالرسول اللهﷺ کی جائے پیدائش اور مھبط وحی ہے۔ اسلئے ہر مسلمان کو اس کیساتھ دلی لگاؤ ہے۔ خصوصًا وہ مقامات جن کا آپﷺ کیساتھ کچھ تعلق ہو۔ مسلمان مشکلات کے باوجود، دیوانہ وار پروانوں کی طرح وہاں پہنچتے ہیں۔ اور اپنے عشق و محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ مومن کیلئے ایک ایسا اثاثہ ہے جس پر بجاطور فخر کیا جاسکتاہے۔ ہم اپنے ٹائم ٹیبل میں ان مقامات کی زیارت کیلئے بھی وقت نکالتے۔

یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ ان تاریخی مقامات کی سیر اچھی منصوبہ بندی اور گروپ کیساتھ کرنا چاہیے۔ جس جگہ جانا ہوں پہلے اس کی شرعی اور تاریخی حیثیت جاننا چاہئے جو سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں اور انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔ گروپ میں کوئی گائیڈ یعنی پرانا حاجی یا وہاں رہنے والا کوئی دوست ہو، تو بہت اچھا ہوگا۔ ایک ساتھی کو امیر و ذمہ دار بنانا چاہیے جو ساتھیوں کے مشورے سے گروپ چلائے گا۔ ٹرانسپورٹ کیلئے ایسی ٹیکسی یا ویگن بک کرنا چاہیے جس کے ڈرائیور کی زبان سمجھی جاتی ہو۔ ترجیحا پشتو اور اردو سپیکر حضرات اچھے ہوتے ہیں۔

کرایہ، مقامات اور وہاں رکنے کے وقت کا پہلے سے بات طے کرنا چاہیے۔ اپنے ساتھ پانی، جوس اور خشک میوہ جات یا فروٹ لینا چاہیے۔ ہرجگہ شرعی اصولوں کو مدنظر رکھ کر بدعات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ان ہدایات کی روشنی میں زیارت اور سیر بہت فائدہ مند ہوگا۔ اکثر لوگ جلدبازی سے کام لیکر ایسے گروپ یا ڈرائیور کا انتخاب کرتے ہیں، جن کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نہ ہو، پھر نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے اور حج کے ضائع ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ لہذا احتیاط کرنی چاہیے۔

جبل نور، غار حرا :مکہ مکرمہ میں زیارات کے سلسلے میں ہماری پہلی منزل غارحرا تھی۔ جہاں رسول اللہ پر وحی کی شروعات ہوئی تھی۔ مکہ کی جنوبی طرف کچھ فاصلے پر ایک پہاڑ ہے جس کا نام جبل نور یعنی روشنی کا پہاڑ ہے۔ یہاں سے ساڑھے چودہ سو سال قبل اس تاریک دنیا میں ھدایت کی نور پھوٹ پڑی تھی، وہ نور ختم نبوت اور قرآن کریم تھا۔ جس کی پہلی وحی اس پہاڑ کی چوٹی پر موجود غار حرا میں نازل ہوئی، اور پوری دنیا کو منور کیا۔ بعثت سے قبل آپﷺ نے عربوں کے مشرکانہ رسوم اور اعمال و افعال سے دلبرداشتہ ہوکر غارحرا میں گوشہ نشینی اختیار کی۔

رمضان المبارک کے مہینے میں جبریل آمین علیہ السلام آکر آپﷺ کو پہلی وحی نازل کرکے نبوت کا آغاز کیا۔ اس غار کی زیارت کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، لیکن آثارنبویﷺ کی تلاش میں حجاج کرام اورعمرہ زائرین بہت تکلیف برداشت کرکے بھی وہاں پہنچتے ہیں۔ہم نے نماز فجر حرم میں ادا کرکے، اشراق کے بعد غار حرا جانے کا پروگرام بنایا۔ حرم کی نئی توسیع ( ایکسٹینشن ) کے ذریعے مروہ کی طرف نکل کر شعب عامر بس سٹیشن سے ایک ویگن میں سوار ہوئے۔ اور چند منٹ بعد جبل نور کے دامن میں اتر گئے۔ تقریبا 6 بج رہے تھے کہ ہم نے اوپر چڑھنا شروع کیا۔

تنگ راستے پر زائرین کی دو طرفہ ٹریفک رواں دواں تھی۔ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے میں پورا ایک گھنٹہ لگ گیا۔ لیکن چوٹی سے غار تک پہنچنے کیلئے رش کی وجہ سے مزید ایک گھنٹہ درکار تھا۔ یہاں راستہ ون وے تھا اور ٹریفک دو طرفہ، اسلئے لائن میں کھڑے ہوکر صبر کے ساتھ انتظار کرتے۔ زیارت کرنے والوں کا ایک گروپ چڑھ جاتا اور ان کی جگہ نئے لوگ نیچے غار کی طرف اتر جاتے۔ ایک گھنٹہ کے صبر اور جہد مسلسل کی بعد غار حرا تک پہنچنے اور واپس ہونے میں کامیابی ہوئی۔ تقریبا آٹھ بج چکے تھے، سورج کی تمازت سے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا۔

پہاڑ سے اترنا، چڑھنے کی نسبت مشکل اور خطرناک ہوتا ہے۔ کئی جگہوں پر شارٹ کٹ راستہ استعمال کرنے کی وجہ سے میں اپنے ساتھیوں سے آگے ہوکر الگ ہوا، لیکن اپنے دو نئی بین الاقوامی ساتھیوں، شام الغوطہ کے الشیخ مالک اور افغانستان فراہ کے صبغت اللہ سے مل گیا۔ وہ دونوں بھی غار حرا کی زیارت کرکے نیچے اتررہے تھے، اور آپس میں مسلمانوں کی موجودہ ابتر صورتحال پر بحث کررہے تھے۔ مجھے بھی ان کی ڈسکشن میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ شیخ مالک شام کی مشہور شہر الغوطہ کا رہنے والا نوجوان عالم دین ہے۔ جو تكتلةالخيرات نامی حج گروپ سے وابسطہ بہترین مقرر اور ٹرینر ہے۔

ان کی باتیں موقع محل کے مطابق، قرآن و حدیث کے حوالوں سے مزین اور ایسے شیرین تھے کہ بقیہ سفر کا پتہ بھی نہ چل سکا اور ہم نیچے ٹیکسی سٹینڈ تک پہنچ چکے تھے۔ شیخ مالک رخصت ہوئے اور میں اپنے ساتھیوں کا انتظار کرنے لگا۔ تقریبا 9 بجے ساتھی جمع ہوئے اور ویگن کو 5 ریال فی نفر دے کر حرم روانہ ہوئے۔ گاڑی حجون اور معابدہ کی طرف پر حرم جارہی تھی۔ یہ وہی راستہ ہے جس پر نبی کریم ﷺ فتح مکہ اور حجة الوداع کے دن مکہ میں داخل ہوئے تھے۔ساڑھے نو بجے حرم پہنچ کر زم زم پیا اور وضو بناکر تازہ دم ہوئے ، پھر باب فھد کے سامنے زیر زمین سرنگ کے ذریعے گھڑی بلڈنگ کی نیچے سے کدی سٹیند جانے والی بس میں سوار ہوئے۔ کدی اڈہ سے بس نمبر 915 میں سوار ہوکر بلڈنگ پہنچ گئے۔

نماز ادا کرنے کی بعد کھانا کھایا اور آرام کیا۔ نماز عصر سے پہلے بیت اللہ الحرام گئے۔ عصر کی بعد حاجی خان شہزادہ نے رابطہ کیا جو دوسری چھت پر طواف کررہے تھے۔ مغرب اور عشاء یہی ادا کرکے باہر نکل گئے اور ہوٹل شركةمكة میں کھانا کھا کر بلڈنگ واپس ہوئے۔

Comments

Click here to post a comment