ہوم << عدم اعتماد کیوں - ندااسلام

عدم اعتماد کیوں - ندااسلام

سفر کی طوالت سے زیادہ انسانوں کے غیر انسانی رویے نے اس کے اعصاب شل کر دئیے تھے۔اس شہر میں ان اجنبی مسافروں سے زیادہ اس غیر انسانی سلوک کا شکار اور گواہ بھی کوئی ہو گا،یہ تو ان میں سے کوئی نہ جانتا تھا۔

شہر شہر کا سفر کرنے والے مسافر شاید اس سلوک کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں مگر حالات کی تنگی کے شکار سفید پوش اور خوددار انسان کو جب اس سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو بلاشبہ یہ روئیے اعصاب چٹخا دینے والے ہوتے ہیں۔آپ خود سوچیں کہ یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ پہلے تو کمائی کے لالچ میں مسافروں کو فریب اور بد نیتی سے کوچ میں ٹھونس لیا جائے اور پھر عین اس جگہ جا کر مسافر کو بیچ دوراہے کھڑا کر دیا جائے جب کہ منزل پر پہنچنے میں کچھ ہی سفر باقی ہو اور مسافر سرشاری میں ڈوبنے ہی والا ہو۔

منزل پر پہنچانے کا معاہدہ کر کے ڈاکوؤں کے ایک اور گروہ کو لوٹنے کا موقع فراہم کرنا اپنے ہم پیشہ لوگوں کو راضی کرنے کے مواقع تو ممکن بناتا ہے اور مسافر پھی بالآخر در بدر کی ٹھوکریں کھا کر اپنی منزل پر پہنچ ہی جاتا ہے مگر ہم کیوں نہیں سوچتے کہ مسافر تو زکوٰۃ کے مصارف میں بھی شامل ہے اگر چہ وہ اپنی ذاتی حیثیت میں کتنا ہی مالدار کیوں نہ ہو۔قابل فکر بات تو یہ ہے کہ عدم اعتماد کی یہ فضاء بنانے میں وہ لوگ بھی پیش پیش ہیں جو خود فریب خوردہ معاشرے کے ستائے اور بد نیتی کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں۔بڑے بڑے چہرہ شناسی کے ماہر بھی ان عام انسانوں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔

ملک کی معیشت کی حالت یہ ہے کہ ہر سرمایہ دار اپنے سرمائے کا بچانے کی فکر میں ہے۔انسانیت کا جذبہ سرمایہ دارانہ نظام نے نچوڑ لیا ہے۔غرض سے شروع ہونے والی سوچ خود غرضی پر ہی ختم ہوتی ہے،اپنا مفاد پر آنچ نہیں آنے دی جاتی خواہ مجبور انسانوں کو کفر کے درجے تک پہنچانے کے گناہ بھی کرنا پڑے۔عجب ہے کہ اس ماحول کو بنانے والے اور "حصہ بقدر جثہ" لینے والے بھی بڑھتی ہوئی عدم اعتماد کی فضاء کی شکایت کرتے ہیں اور اس سے نکلنے کی تدبیریں سوچتے ہیں .

حالانکہ،اسلام نے جو ضابطہ اخلاق دیا ہے اس پر عمل پیرا تو عدم اعتماد کی فضاء بننے ہی نہیں دیتے۔سرمایہ دارانہ نظام کا جال اور اسلامی نظام معیشت سے اعراض ہی یقیناً عدم اعتماد کو فروغ دے رہا ہے اور مادہ پرستی،خود غرضی نے انسانیت کے سمندر سے کھوج کھوج کر اخلاق حسنہ کو چوس لیا ہے،اخلاق عالیہ کا خاتمہ کر دیا ہے اور عدم اعتماد،فریب دھوکہ دہی اور بد نیتی سے اپنا الو سیدھا کرنے کے ایسے ایسے کریہہ طریقے بتائے ہیں کہ انسانیت کا سر جھک گیا ہے۔

اگر ہم اس فضاء کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ جس میں کوئی کسی پر اعتماد کے لئے تیار نہیں۔اپنے مفاد کی فکر یا نقصان یا فریب کا خوف باہمی معاہدے،معاملات اور کاروبار کرنے میں مانع ہے اور بے یقینی سی بے یقینی کی کیفیت افراد،اداروں اور معاشروں کو اپنی گرفت میں لے کر سانس لینے میں بھی مزاحم ہے۔تو ہمیں اسلامی اقدار کی طرف لوٹنا ہو گا،ریاست مدینہ کا رول ماڈل حقیقی معنوں میں اپنانا ہو گا،اعلی انسانی صفات سے اپنے آپ کو مزین کرنا ہوگا،تب ہی ہم بڑھتی ہوئی بے یقینی اور عدم اعتماد کی فضاء کو اعتماد میں بحال کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ہمیں سودی معیشت کو کھلم کھلا باطل کہنا ہو گا۔

سودی نظام کا حصہ بننے سے انکار کرنا ہو گا۔ہمیں اپنے سودی سرمائے کو کراہت سے دیکھنا ہو گا۔ہمارا مزاج یہ نہیں کہ غریب کا خون چوس کر اپنے گھر کو دولت سے بھرا جائے۔ہمارا اخلاق یہ ہے کہ ہمسایہ خالی پیٹ سو جائے اور ہمیں خبر نہ ہو تو محاسبے کی فکر ہمیں سونے نہ دے۔اللہ ہمیں سودی معیشت سے اعلان جنگ کر ے والوں میں شامل کرے۔اٰمین