ہوم << بیعت وارشاد (حصہ اول) - مفتی منیب الرحمن

بیعت وارشاد (حصہ اول) - مفتی منیب الرحمن

بیعت کا مادّہ یعنی حروفِ اصلی ’’ب ی ع‘‘ ہے، ’’بیع‘‘ کے حقیقی معنی ہیں: ’’بیچنا‘‘اور اس کی ضد کا مادّہ یعنی حروفِ اصلی ’’ش ر ی‘‘ہے اور ’’شراء اورشَریً ‘‘ کے معنی ہیں:’’خریدنا‘‘، لیکن یہ دونوں لفظ (بیع وشراء)متضاد معنی میں آتے ہیں، یعنی ان کے معنی ہیں:’’خرید وفروخت‘‘، اسی لیے فقہ کی کتابوں میں ’’کِتَابُ الْبُیُوْع(بَیْع کی جمع)‘‘میں صرف بیچنے یا خریدنے کے مسائل نہیں ہوتے، بلکہ دونوں کے مسائل ہوتے ہیں.

کیونکہ بیع وشراء کے لیے دوفریق کا ہوناضروری ہے۔ ’’بَاعَ ‘‘مجرّد سے آئے تو اس کے معنی ہیں:’’بیچنا‘‘ اور بابِ افتعال سے ’’اِبْتَاعَ‘‘کے معنی ہیں: ’’خریدنا‘‘،اس کے برعکس ’’شِرَاء‘‘مجرّدسے آئے تو اس کے معنی ہیں: ’’بیچنا‘‘،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(۱)’’اور لوگوں میں سے ایک شخص ایسا ہے جو اللہ کی رضا جوئی کے بدلے میں اپنی جان کو فروخت کردیتا ہے (یَشْرِیْ)، (البقرہ:207)‘‘ (۲)’’اور برادرانِ یوسف نے اُنھیں معمولی قیمت کے چند سکوں کے عوض بیچ دیا(شَرَوْہُ) اور انھیں اُن میں کوئی دلچسپی نہ تھی، (یوسف:20)‘‘۔

’’شِرَاء‘‘ بابِ افتعال سے ’’اِشْتِرَاء‘‘ آئے تو اس کے معنی ہیں: ’’خریدنا‘‘،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک اللہ نے ایمان والوں سے اُن کی جانوں اور مالوں کو جنّت کے عوض خرید لیا ہے(اِشْتَریٰ) ، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں ، (یاتو اللہ کے دشمنوں کو)قتل کرتے ہیں (یاخود راہِ حق میں) شہید ہوجاتے ہیں، اس پر تورات ، انجیل اور قرآن میں (اللہ کا )سچا وعدہ ہے اورکون ہے جو اللہ سے زیادہ اپنا وعدہ وفا کرنے والا ہو، سو تم اس سودے پر خوش ہوجائو جو تم نے اللہ سے کیا ہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے، (التوبہ:111)‘‘۔ الغرض ایک ہی مادّے سے ’’شِرَاء‘‘بیچنے کے معنی میں ہے اوراسی مادّے سے ’’اِشْتریٰ‘‘ خریدنے کے معنی میں ہے۔

یہ تمہیدی کلمات ہم نے اس لیے لکھے ہیں کہ ایمان بھی بندے کا اللہ تعالیٰ سے ایک پیمان ِ وفاہے، ایک میثاق ہے ، ایک عہد ہے ، اس کو شریعت میں ’’بیعت‘‘ سے بھی تعبیر کیا ہے۔ گویا ایمان لانے والا اللہ تعالیٰ سے ایک عقد کرتا ہے ، ایک پیمانِ وفا باندھتا ہے اور اپنی جان ومال اُس کی رضا کے تابع کردیتا ہے ، یہ سودا عہدِ نبوت میں رسول اللہ ﷺ کے واسطے سے ہوتا تھا۔ عہدِ رسالت مآب ﷺ میں ہمیں کئی بیعتیں ملتی ہیں: ایک ’’بیعت علی الاسلام‘‘ ، جو صحابۂ کرام اسلام قبول کرتے وقت کرتے تھے، دوسری’’ بیعت علی الھجرۃ‘‘ جوصحابۂ کرام نے اپنے دین وایمان کی حفاظت کی خاطر مکہ سے مدینہ کی جانب ترکِ وطن کے لیے کی تھی،تیسری ’’بیعت علی الجہاد‘‘جو جہاد کے موقع پر کی تھی اور ایک ’’بیعت اطاعتِ معروف اور ترکِ منکَرات ومحرَّمات‘‘ کے لیے تھی، ذیل میں ہم بالترتیب اُن کی چند مثالیں بیان کرتے ہیں:

’’عمرو بن عاص قریب المرگ تھے ، وہ اپنے چہرے کو دیوار کی طرف موڑ کر روئے جارہے تھے، اُن کے بیٹے عبداللہ نے کہا: ابا جان! آپ کو اللہ کے رسول نے کئی بشارتیں دی ہیں،وہ اُس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: ’’ہمارا سب سے بڑا اثاثہ توحید ورسالت کی شہادت ہے‘‘، مجھ پر تین دور گزرے ہیں:ایک دور وہ تھا کہ میری نظر میں رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کوئی ناپسندیدہ نہیں تھااور میری خواہش تھی کہ (العیاذ باللہ!)میں اُن پر قابو پائوں تو انھیں قتل کردوں، اگر اسی حال میں میری موت واقع ہوجاتی تو میں جہنمی ہوتا ۔ پھر جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی تو میں نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی: (یارسول اللہ!) ہاتھ آگے بڑھائیے تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں، رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ بڑھایا تومیں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

عمرو! کیا ہوا(یعنی کیا ارادہ بدل لیا ہے)،انھوں نے عرض کی: (بیعت کے لیے)میری ایک شرط ہے،آپ ﷺ نے فرمایا:بولو! کیا شرط ہے، انھوں نے عرض کی:مجھے ( گزشتہ گناہوںکی) بخشش مل جائے، آپ ﷺ نے فرمایا:تجھے معلوم نہیں کہ اسلام ماضی کے تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے۔۔۔ آگے چل کر وہ بیان کرتے ہیں: ’’(بیعت کے بعد) رسول اللہ ﷺ سے زیادہ میرے لیے کوئی محبوب نہیں تھا اور آپ سے بڑھ کر میری نگاہ میں کسی کی قدرومنزلت نہیں تھی، (آپ کے رعب کا عالَم یہ تھاکہ) مجھ میں آنکھیں بھر کر آپ کا دیدار کرنے کی ہمت بھی نہیں تھی‘‘، اگر کوئی مجھ سے کہتا :’’آپ ﷺ کا سراپا بیان کرو‘‘تو میں بیان نہ کرپاتا، کیونکہ میں نے آنکھ بھر کر آپ کو دیکھا بھی نہ تھا،(مسلم:121)‘‘۔

جابر بن عبداللہ بیعتِ عقبہ ثانیہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں: ’’ہم بیعت کرنے لگے تو اسعد بن زُرارہ نے، جو میرے علاوہ سّتر اشخاص میں سے سب سے چھوٹے تھے،میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: یثرِب والو! ذرا رکو!ہم اپنی سواریاں چلاکر یہ جانتے ہوئے یہاں آئے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیںاور آپ کا ساتھ دینا پورے عرب سے ٹکرانا ہے(دوسری روایت میں ہے:باطل کی ہر سرخ وسفید طاقت سے ٹکرانا ہے)، اس کی نوبت آئی تو دین کی خاطر اپنوں کو بھی قتل کرنا ہوگااور تلواروں کے آگے سینہ سِپر ہونا ہوگا، سواگر تم پورے عالَمِ عرب سے ٹکرانے کے لیے تیار ہو تو بیعت کرو، تمھارا اجر اللہ کے ذمے ہے اور اگر تم اپنے اندر اس کی ہمت نہیں پاتے تو چھوڑ دو،تم عنداللہ معذور ہو(یعنی بیعت کر کے توڑنا اچھی بات نہیں ہے)،ہم نے کہا: اسعد بن زرارہ! ہاتھ بڑھائو، واللہ! ہم اس عہد پر قائم رہیں گے ،ہم اس سے دست بردار نہیں ہوں گے اور ہمیں جنّت ملے گی۔

اس موقع پر اہلِ یثرِب نے کہا: اگر اللہ نے آپ کو غلبہ دے دیا تو کیا آپ ہمیں چھوڑ کر اپنی قوم کے پاس چلے جائیں گے؟، رسول اللہﷺ نے تبسم فرمایااور کہا: ہمارا اور تمھارا خون ،ہماری تمھاری فتح وشکست ،ہمارا اور تمھارا عہد ،ہماری اور تمھاری حرمت ایک ہوگی، میں تم سے ہوں گا اور تم مجھ سے ہوگے،جس سے تمھاری جنگ ہوگی ،اُس سے ہماری بھی جنگ ہوگی اور جس سے تمھاری صلح ہوگی، اُس سے ہماری بھی صلح ہوگی، یعنی مکہ فتح ہونے کے بعد بھی میں تمھارا ساتھ نہیں چھوڑوں گا، (سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَادْ، ج:3، ص:203-204، ملخصا)‘‘، چنانچہ 8ہجری میں مکہ فتح ہوگیا لیکن رسول اللہ ﷺ مدینۂ منورہ ہی میں رہے اور آج بھی اہلِ مدینہ کے درمیان ہیں اور قیامت کے دن بھی وہیں سے اٹھائے جائیں گے۔

اس کے بعد بیعت علی الجھاد کا مرحلہ آیا، چنانچہ صحابۂ کرام نے 6ہجری میں ایک درخت کے نیچے رسول اللہ ﷺکے ہاتھ پر قصاصِ عثمان کے لیے بیعت کی تھی، اس بیعت کے موقع پر صحابہ نے پوچھا: (یارسول اللہ!) ہماری بیعت کی شرائط کیا ہیں، آپ ﷺنے فرمایا:تم نے ہر اچھے برے وقت میں میرا حکم ماننا ہے اور ہر حال میں اپنا مال (راہِ حق میں)خرچ کرنا ہے، معروف کا حکم دینا ہے اور مُنکَر سے روکنا ہے ، کسی کی ملامت کی پروا کیے بغیر حق بات کہنی ہے۔اگر میں تمھارے پاس یثرِب آگیا تو جس طرح تم اپنی جان اور آل اولاد کا دفاع کرتے ہو، ویسے ہی میرا بھی دفاع کرو گے اور تمھیں اس کے عوض جنّت ملے گی‘‘۔اس بیعت کا تذکرہ قرآنِ مجید میں ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’(اے رسول مکرّم!)بے شک اللہ اُن مومنوں سے راضی ہوگیا ،جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، سو اللہ کو معلوم تھا جو اُن کے دلوں میں ہے ، پس اللہ نے اُن کے دلوں پر طمانیت نازل فرمائی اور عنقریب آنے والی فتح کا انعام دیااور ان کو بہت سی غنیمتیں عطا فرمائیں جن کو وہ حاصل کریں گے اور اللہ بہت غلبے والا، بہت حکمت والا ہے، (الفتح:19)‘‘، نیز فرمایا: ’’بے شک جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں، وہ درحقیقت اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، اُن کے ہاتھوں پر اللہ کاید ہے، (الفتح:10)‘‘، یعنی بظاہر یہ دستِ مصطفی ہے، لیکن درحقیقت یہ ’’ید اللہ‘‘ ہے، کیونکہ یہ بیعت رسول اللہ ﷺ کے توسط سے اللہ کی ذات سے ہی ہورہی تھی۔

بیعت علی الجھاد کی بابت حضرت سلمہ بن اَکوَع بیان کرتے ہیں: ’’میں نے نبی ﷺ کی بیعت کی اور پلٹ کر درخت کی اوٹ میں آیا ، پھر جب لوگ چھَٹ گئے، تو نبی ﷺ نے فرمایا:ابن اکوع! تم بیعت نہیں کرو گے،میں نے عرض کی: حضور !میں تو بیعت کرچکا ہوں، آپ ﷺنے فرمایا: پھرکرلو، سو میں نے دوبارہ بیعت کی ، (راوی بیان کرتے ہیں: )میں نے سلمہ بن اکوع سے پوچھا: سلمہ! تم نے کس چیز پر بیعت کی تھی، انھوں نے فرمایا: موت پر بیعت کی تھی، (بخاری:2960)‘‘،اسی حقیقت کو علامہ اقبال نے بیان کیاہے:

یہ شہادت گہہِ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

قرآنِ کریم میں بیعتِ مومنات کا بھی ذکر ہے، فرمایا: ’’اے نبی! جب آپ کے پاس مومن عورتیں ان شرائط پر بیعت کرنے کے لیے آئیں کہ وہ کسی چیز کو اللہ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہرائیں گی ، نہ چوری کریں گی ، نہ بدکاری کریں گی ، نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی ، نہ اپنے ہاتھ اور پائوں کے درمیان (سے متعلق) کوئی بہتان گھڑ کر لائیں گی، وہ کسی نیک بات میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی، تو انھیں بیعت فرمالیاکریں اور اُن کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کریں ، بے شک اللہ بہت بخشنے والا ،نہایت مہربان ہے،(الممتحنہ:12)‘‘۔

مقامِ غور ہے کہ قرآنِ کریم کی یہ آیتِ مبارکہ تعلیم دے رہی ہے کہ بیعت محض کوئی رسمی بات نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک عقد ہے ، پیمان ہے ، منشور ودستورِ وفا ہے اور مومنات صحابیات پر بھی ان کی پابندی لازم ہے اور ان سے باقاعدہ اس کا اقرار لیا جارہا ہے۔یہ عقیدہ وعمل کا جامع منشورہے ،روایات میں ہے: صحابیات کی بیعت کے لیے حضور اُن سے ہاتھ نہیں ملاتے تھے ،بلکہ یاتو چادر اُن کی طرف بڑھا دیتے تھے جس کا ایک کنارہ رسول اللہ ﷺ کے دستِ مبارک میں ہوتا اور دوسرا کنارہ بیعت کرنے والی خاتون کے ہاتھ میں ہوتایا ایک ٹب میں پانی ڈال دیتے اور ایک کنارے پر رسول اللہ ﷺ اپنا ہاتھ پانی میں ڈالتے اور دوسرے کنارے پر بیعت کرنے والی خاتون اس میں اپنا ہاتھ ڈالتی اور اس طرح بیعت قائم ہوجاتی ۔ (جاری ہے)

Comments

Click here to post a comment