ہوم << میں اس شخص کو نہیں جانتا-یوسف سراج

میں اس شخص کو نہیں جانتا-یوسف سراج

میں اس شخص کو نہیں جانتا!
تصویر والے اس شخص کو،
پورا کوئی نہیں جانتا۔
۔۔۔۔
اب ٹھیک سے یاد نہیں آ رہا کہ میں اس وقت کہاں تھا؟ اب وقت بھی تو اتنا بیت گیا ہے، یعنی یہی کوئی دو چار دن!
ویسے ہو سکتا ہے یہ کئی صدیاں پہلے کی کوئی بات ہو، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کئی صدیاں بعد کی کسی مجلس کا کوئی تذکرہ ہو، کون کہہ سکتا ہے کہ کیا ہو؟ یہ لیکن ایک غیر معمولی مجلس تھی، جیسے جنت کی کسی محفل کا حسیں عکس۔ ممکن ہے یہاں صدیوں تک جادوگروں نے کوئی عمل کئے ہوں، یا بہت عرصہ یہاں نورانی بابے روحوں کی صفائی پر مامور رہے ہوں۔ ورنہ اس زمانے میں ایسی مثبت مجلسیں کہاں ملتی ہیں؟ شائد یہی وجہ تھی کہ یہاں چہرے اجلے اجلے تھے ، دل نکھرے نکھرے اور معصوم معصوم۔ یہاں محبت کے مارے، الفت سے بندھے عجیب لوگ جمع ہوئے بیٹھے تھے۔ یہ سارے لوگ اپنی اپنی مصروفیات کی کشش توڑ کے اپنے اپنے مدار چھوڑ کے یہاں ایک محبت بھرے گرم سورج کے گرد گھومنے آئے تھے۔
نہ جانے یہ کون سا مقام تھا؟
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، یہ کوئی پہاڑی تھی، جس کے ساتھ یا جس کے اندر بنی بڑی فراخ عمارت میں یہ لوگ جمع ہوئے بیٹھے تھے، سو موقع ملتے ہی میں بھی انھی میں جمع ہو کے بیٹھ گیا تھا کہ جو بھی ہوگی ، دیکھی جائے گی۔ ک
کبھی کسی لمحے مجھے لگتا تھا کہ میں یہاں کے بعض چہرے پہچانتا ہوں، پھر لیکن کچھ ایسا ہوجاتا تھا کہ وہ سب نئے نئے اور اجنبی اجنبی لگنے لگتے تھے۔
یہ سب کوئی بہت مشہور لوگ بھی تھے شائد، جو باری باری اٹھ کے ایک جگہ آتے اور اپنی ہی جہازی سائز تصویر کے آگے بیٹھے ایک شخص کے بارے مختلف اور نئی نئی باتیں کرنے لگتے۔ جس شخص کے بارے یہ دل کی باتیں بتا رہے تھے، یہاں ہو رہی باتیں سننے سے پہلے میرا خیال تھا کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں، اور کہنے والوں کو بھی جانتا ہوں۔ پھر مگر مجھے لگتا کہ نہیں دراصل میں کچھ نہیں جانتا۔ ان میں زیادہ تر مرد تھے ، جن میں کچھ نیم دائرے میں اور کچھ بہت اونچی پشتوں والی نشستوں پر براجمان تھے۔ جس شخص کے بارے یہاں گفتگو جاری تھی، اس کے پیچھے تو اسی کی تصویر تھی اور آگے پھولوں کا ڈھیر لگا تھا، یہ وہ گل دستے تھے جو اپنے اپنے سیاروں سے آنے والے اس شخص کی مسکراہٹ پر دان کرنے لائے تھے۔ کبھی مجھے لگتا یہ شخص پورا وجود ہے اور کبھی لگتا نہیں بس مسکراہٹ ہے۔ یہ دھیمی مسکراہٹ ایسی مستقل تھی کہ کبھی یہ شخص تصویر لگتا اور کبھی تصویر ہی یہ شخص لگنے لگتی۔
کہیں یہ مسکراہٹ مجھے پگھلا نہ دے کہ میں نے تو گھر بھی لوٹنا تھا۔ چنانچہ میں گھبرا کے ادھر ادھر دیکھنے لگتا۔ یہاں ایک شخص وہ تھا جو اپنے جہاندیدہ بشرے اور بہتی برسات کے سے تیر بہدف لفظوں کی بشارت سے بہت معزز اور معتبر لگتا تھا، کبھی لگتا یہ دور کسی ملک شام سے آیا کوئی شخص ہے یا شاید یہاں ایسا کوئی رواج ہو کہ عمر کی شام تک اپنے مورچے پر ڈٹے رہنے والے کو یہاں شامی کہا جاتا ہو۔خیر کسی بھی وجہ سے شامی ہو چکے اس سخص نے کہا، اس تصویر والے شخص کے بارے باتیں سننے کیلئے آنے کی مجھے بڑی تڑپ تھی اور ساری رات میں یہاں سے جانا نہیں چاہتا تھا مگر اب میں ابھی جانا چاہتا ہوں، کہنے لگے یہ کیسا بندہ ہے، جس کے بارے میرے جیسا بندہ بھی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ بات کہاں سے شروع کرے؟ اب خیال آتا ہے کہ شائد یہ مجیب الرحمٰن شامی ہوں، کہنے لگے اب میں اٹھتا ہوں کیونکہ ٹی وی پر اپنا 'نقطہ نظر' کہنے کا بھی وقت آ گیا ہے۔ یہاں ایک اور شخص تھے، جو مجھے آدم کے بیٹوں ہابیل قابیل کے سگے بھائی ہی لگے۔ انھیں دیکھ کے مجھے اندازہ ہوا کہ ساٹھ ہاتھ قد والے بابا جی آدم کے اولین بیٹے کیسے دکھائی دیتے ہوں گے؟ شاید ان کی ایک عدد خوش ذوق بیگم صاحبہ بھی رہی ہوں گی۔ دراصل یہ بات انھوں نے خود ہی وہاں بتائی تھی۔ کہنے لگے، چونکہ سب ہی اس شخص کی بات کر رہے ہیں، تو مجھے کہنا چاہئے، دراصل میری بیوی نے مجھے یہ تجویز کیا تھا کہ اس تصویر والے شخص کی ویڈیوز دیکھو، ان ویڈیوز میں ایسا کچھ اور اتنا کچھ ہوتا ہے، جو کسی اور کی ویڈیو میں نہیں ہوتا، انسانی رشتوں، جذبوں اور ولولوں کی ایسی کارآمد باتیں جو لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بدل دیتی ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی ایسے بلند قامت اور آہنی عزم والے شخص کو لوگ خاکوانی کیوں کہتے ہیں؟ شائد وہی آدم زاد کی خاکی نسبت سے خاکوانی، خیر قد و قامت سے ان کے سگے بھائی اور اپنی دراز و خوشگوار زلفوں سے خواتین کو حسرت و رشک میں ڈال دینے والے یہاں ایک اور شخص کو بھی میں دیکھتا رہا۔ شائد انھوں نے کسی دور میں سجدوں کا کوئی عالمی ریکارڈ بنا رکھا ہوگا یا کچھ اور ، بہرحال لوگ انھیں ساجد کہہ کر مخاطب کر رہے تھے۔ یہ مجلس انھی کی محبت بھری ساحری کا کرشمہ تھی۔ دھیمے سے اس شخص میں بھی کوئی کمال ضرور ہے، میرا خیال تھا یہ شخص بھی ممدوح کی تعریف کریں گے، انھوں نے لیکن یہاں میرے خلاف بولنا شروع کر دیا۔ وہ یوں کہ میں جو سمجھتا تھا،جس تصویر والے شخص نے مجھے یہاں پہاڑی والی عمارت میں بلایا ہے، میں اس شخص کو جانتا ہوں، لیکن یہ ساجد صاحب میری یہی غلط فہمی دور کئے جاتے تھے، یہاں تک کہ بالآخر جب یہ چپ ہوئے تو مجھے اندر ہی اندر مان لینا پڑا، میں اپنے ممدوح کو بالکل نہیں جانتا۔ پھر وہ شخص آئے جن کے بارے بتایا گیا کہ یہ بہت باتوں کے شاہد ہیں اور ڈراؤنے جادوگروں وغیرہ کے پاس بھی رہے تو نذیر بھی ہیں۔ اردو پوائنٹ کے علاوہ بھی ان کی گفتگو میں بڑے پوائنٹ تھے۔ یہ جب بولے تو بھی میرے ہی خلاف بولے اور جب چپ ہوئے تو مجھے لگا ناصرف تصویر جیسے شخص کو میں نہیں جانتا بلکہ اس شاہد و نذیر کو بھی میں نہیں جانتا۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں بمشکل آنسو ضبط کرنے کی کسی کیفیت میں بھی کبھی اسے دیکھوں گا۔ دراصل شاہد و نذیر ہو چکے اس شخص نے بتایا کہ کسی شخص کے تصویر والا شخص ہونے کی ریسپی کیا ہے۔ اس کے لیے کتنا حوصلہ، کتنا تحمل، کتنا بڑا دل ، کتنی زیادہ صلاحیت اور ان سب کے مقابل کتنا بڑا ظرف چاہئے ہوتا ہے۔
کچھ کچھ یاد آتا ہے، یہاں آفاق پہ چھائے اشفاق احمد بھی تھے، یہاں تن من کے صوفی خالد ارشاد بھی تھے۔ یہاں امیر العظیم بھی تھے، اور اتنے لوگ تھے کہ کاش مجھے ایک زندگی اور ایک حافظہ اور مل سکتا تاکہ میں سارے نام یہاں گنوا سکتا۔
میرا خیال تھا جب میں بولوں گا تو میں پھولوں کے پیچھے موتیا سے زیادہ مہکتے اس شخص کے بارے وہ بات کہہ دوں گا جو بابے اشفاق احمد نے فیض کے بارے کہی تھی، کہ اگر فیض دربار رسالت میں ہوتا تو رسول اسے کیا کہتے؟ آپ فرماتے، فیض دھیما ہے، بردبار ہے۔ کبھی غصہ نہیں کرتا، کبھی پلٹ کے جواب نہیں دیتا۔ اس میں بہت تحمل ہے وغیرہ ۔۔
مگر میں نے دو شعر پڑھے۔

ہم نے اس کو اتنا دیکھا جتنا دیکھا جا سکتا تھا
لیکن پھر بھی دو آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا تھا
۔۔ ۔۔۔
اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا

اور بس یہی کہا، فرش کے اس شخص پر اتری ایسی مقبولیت عرش کی عطا کردہ مقبولیت کا عکس ہے اور بس اللہ کا فضل، ہر کسی پر یہ فضل نہیں ہوتا، ایسا فضل بس کبھی کبھی ، کسی کسی پر ہوتا ہے۔
میرے ساتھ صحافت کے استاد عاصم حفیظ بھی تھے اور پیغام ٹی وی کے فخرالاسلام بھی۔ جب میں شملہ پہاڑی کی پریس کلب نامی اس کھوہ سے نکل رہا تھا تو اپنے دونوں ساتھیوں کے سامنے یہ اعتراف کر رہا تھا ۔
میرا خیال تھا کہ 7 لاکھ کتابوں کی اشاعت اور کئی ملین ویڈیو ویوز سے کروڑوں لوگوں کے دل پر دستک دینے والے اس شخص Akhter Abbas کو میں جانتا ہوں مگر اب جب کہ میں نے
Shahid Nazir Ch
اور
Abdul Majeed Sajid
کو سن لیا ہے۔
اور یہ جو
Mujib Ur Rahman Shami ،
M Aamir Hashim Khakwani
صاحب اور نہ جانے کہاں کہاں سے آئے اس خوشبو کے شیدائی پھولوں نے جو کچھ کہہ دیا ہے، تو بخدا مجھے اعتراف کرنے دیجیے کہ
میں اختر عباس کو بالکل نہیں جانتا۔
شائد اختر عباس کو پورا ابھی کوئی بھی نہیں جانتا ۔

Comments

Click here to post a comment