ہوم << داستانِ حج 1440 ھ قسط (15) - شاہ فیصل ناصرؔ

داستانِ حج 1440 ھ قسط (15) - شاہ فیصل ناصرؔ

وقوف عرفہ : زوال سے قبل وضو بنایا اور وقوف کیلئے تیاری کی۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے کہ عرفات میں زوال کے بعد مغرب تک ٹھہرنا حج کا سب سے اہم فرض ہے، جس کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا تھا کہ ،“ألحجُّ ألعَرَفه” یعنی حج اصل میں عرفہ کے دن عرفات میں وقوف کرنے کا نام ہے۔

اس دن کی دعا سب سے بہترین دعا ہے۔ اسلئے یہاں مکمل یکسو ہوکر اللہ تعالی سے دین و دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں مانگنی چاہیے۔ وقوف عرفات زوال کی بعد شروع ہوتا ہے۔ مسجد نمرہ میں حج کا مختصر خطبہ اور نماز ظہروعصر اکھٹے ادا ہوتی ہیں اور پھر مغرب تک وقت دعا اور استغفار میں گزارنا ہوتا ہے۔ ہم چونکہ مسجد نمرہ سے کافی دور تھے، اسلئے ہمیں اپنے خیمے میں نماز ظہروعصر ادا کرنی تھیں، لیکن خیمے میں موجود حجاج کرام کے نقطۂ نظر میں کافی اختلاف تھا۔ ایک گروپ نمازوں (ظہروعصر) کو پورا یعنی چار رکعت اپنے اپنے اوقات پر ادا کرنے کا حامی تھا۔

دوسرا گروپ ان نمازوں کو اپنے اپنے وقت پر قصر ادا کرنے کا خواہشمند تھا۔ جبکہ تیسرا گروپ دونوں نمازوں کو اکٹھے اور قصر پڑھنے کے حق میں تھا۔ ہر کوئی اپنے موقف کے مطابق نہ صرف عمل کرنا چاہتا تھا، بلکہ دوسروں پر بھی اپنا موقف توپنا چاہتا۔ جیسا کہ میں نےشروع میں عرض کیاتھا کہ ہم نے حج کے ہر عمل میں احادیث کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ اسلئے اپنی تحقیق اور مطالعے کی بنیاد پر ہم نے دونوں نمازوں کو اکٹھے اور قصر پڑھا۔ کیونکہ آپﷺ نے اپنے حج میں یہی طریقہ کیاتھا۔ (صحیح مسلم۔ 2950)

گرمی کی شدت اور باران رحمت: گرمی اور حبس کی شدت کیساتھ آسمان پر بادل چھا گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے گرج چمک کیساتھ موسلادار بارش شروع ہوئی۔ گرمی اور ہجوم کے ایسے موقع پر بارش اللہ کی عظیم رحمت تھی، جس سے موسم خوشگوار ہوا۔ اکثر حجاج جبل رحمت گئے تھے جبکہ ایک کثیر تعداد خیموں میں موجود تھی۔ لیکن ان میں سے بھی زیادہ لوگ گپ شپ اور بات چیت میں وقت گزار رہے تھے۔ سال بھر کے اس عظیم دن کی یہ چند قیمتی گھڑیاں بھی ہم سے غفلت میں گزر جاتے ہیں۔ ہم نے ایک طرف بیٹھ کر کچھ وقت دعا کی اور کچھ ذکرواذکار۔ بارش کم ہوتے ہی مکتب کی میزبانوں نے ظہرانہ پیش کرنا شروع کیا، چاول اور گوشت سے بھرے بڑے بڑے لگانوں (برتنوں) کی ترسیل شروع ہوئی۔

بارش سے گرمی کم ہوئی اسلئے حجاج نے خوراک شوق سے کھایا۔ بلکہ بہت سا ضائع اور باقی ہوا۔ عصر کی بعد ہم نے جبل رحمت جانے کا فیصلہ کیا۔ مون سون کی تیز بارش نے جہاں گرمی کو بھگایا تھا وہاں راستوں کو بھی صاف کیا تھا۔ پہلے گئے ہوئے حجاج گیلے احراموں کیساتھ واپس آرہے تھے اور باقی جارہےتھے۔ راستے اور سڑکیں جہاں لوگوں سے بھری تھیں، وہاں پانی اور کولڈ ڈرنکس کی خالی بوتلوں سے بھی بھری پڑی تھیں۔ یہاں رش میں جانے کا الگ مزہ تھا۔

تقریبا بیس، پچیس منٹ بعد (6:40) پر ہم جبل رحمت کے سامنے پہنچ گئے۔ حج سیکیورٹی اہلکاروں نے لوگوں کے سیلاب کو منظم کرنے کا بہترین انتظام کیا تھا۔ پہاڑ تک جانے اور واپس آنے کیلئے الگ الگ راستے بناے تھے، جو سیلابی ریلے کی طرح مسلسل بہہ رہے تھے۔ ہم بھی اس ریلے میں داخل ہوئے اور اللہ اللہ کرکے آدھ گھنٹے میں جبل رحمت پہنچ گئے جو برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ کی طرح سفید منظر پیش کر رہاتھا۔ اوپر چوٹی تک جانا ناممکن تھا، اسلئے راستے سے ایک طرف ہوکر تھوڑے وقت کیلئے بیٹھ گئے اور دعا کی۔ شام قریب ہورہاتھا، اسلئے ہم نے خیمہ واپسی کا ارادہ کیا۔ راستے میں بعض حجاج کرام گاڑیوں پر سوار ہورہے تھے۔ مکتب پہنچ کر یہاں بھی حجاج کرام واپسی کی تیاریوں میں مصروف تھے۔

عرفات سے واپسی اور مزدلفہ آمد: شام ہوتے ہی حجاج کرام کے پیدل قافلے مزدلفہ روانہ ہوئے۔ بسیں اور گاڑیاں بھی سڑکوں پر نکل گئیں۔ نماز مغرب اور عشاء مزدلفہ میں اکٹھی اور قصر ادا کرنی ہیں ۔ مکتب والوں نے ہمیں بسوں کیلئے انتظار کی تلقین کی، اسلئے ہم اطمنان سے بیٹھ گئے۔ مکتب کے اہلکاروں نے اپنا سامان سمیٹنا شروع کیا، اور اس ایک دن کیلئے بنائے گئے اپنے خوبصورت کیمپ کو اجاڑنے لگے۔ اگلے ایک سال بعد دوبارہ ایک دن کیلئے پھر یہ کیمپ آباد کیا جائے گا، لیکن پتہ نہیں اگلے مہمان کون خوش قسمت ہوں گے۔ اللہ تعالی ہمیں بھی ان خوش قسمتوں میں لکھے۔

رفتہ رفتہ لوگ رخصت ہونے لگے۔ کافی انتظار کے بعد ہم بھی ایک بس میں سوار ہوئے۔ دوسرے ساتھیوں کو سیٹیں مل گئیں جبکہ میں اور دین بوبرائی سیڑھیوں میں بیٹھ گئے۔ رش اور ٹریفک جام کی وجہ سے چند کلومیٹر کا یہ راستہ ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت میں طے ہوا۔ آخرکار مزدلفہ میں ایک نامعلوم جگہ پر بس نے ہمیں اتاردیا۔ آگے میدان احرام میں ملبوس مردوخواتین سے بھرا پڑا تھا۔ آج کی رات کھلے آسمان تلے یہاں گزارنا ہے۔

ہمیں قریب ایک خالی جگہ ملی، جہاں ہمارے گروپ نے پڑاؤ ڈالا، اور چٹائیاں بچادیں۔ قریبی وضو خانے میں رش کم تھا۔ وہاں جاکر ہم نے وضو بنائے اور پہلے نماز مغرب باجماعت ادا کی ، پھر عشاء (دو رکعت)اور نماز وتر پڑھ کر فورا لیٹ گئے۔ چند منٹ بعد پرسکون نیند نے اپنے آغوش میں لے لیا۔