ہوم << حِفاظتِ حديث - شاہ فیصل ناصرؔ

حِفاظتِ حديث - شاہ فیصل ناصرؔ

اللہ تعالی نے انسان کو دنیا میں پیدا کرکے، جسطرح اس کی جسمانی ضروریات (خوراک،پوشاک اورمسکن وغیرہ) کا انتظام کیا ہے۔ اسی طرح اس کے روحانی ضرورت (صراط مستقیم کی طرف) ھدایت کا انتظام بھی بہ طریقہ احسن کیا ہے۔

ھدایت کی یہ عظیم نعمت وحی کی ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ جو ہر زمانے میں انسان کو دو ہی ذرائع سے پہنچی ہے۔ ایک الله کا کلام یعنی وحی جلی اور دوسرا انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات یعنی وحی خفی۔پرانے ادوار کی طرح اس نئے دور میں بھی انسان کو اسلام کی ھدایت میسر آنے کی یہی دو ذرائع ہیں۔ جن کے بارے میں خاتم الانبیاء محمد الرسول أللّه ﷺ نے فرمایا ہے، ”ترکت فیکم امرینِ لَن تَضلُّو ماتَمسَّكتُم بِهما، كِتابَ أللهِ وَ سُنّة رسُوله ﷺ“ میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں،جب تک تم ان دونوں کومضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھوں گے، ہرگز ہرگزگمراہ نہ ہوں گے، اک اللہ کی کتاب اور دوسرا رسول اللہﷺ کی سنت (حدیث) ہے۔ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا سنو!مجھے کتاب (قرآن) دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اورچیز بھی (یعنی حدیث)۔

فرق صرف اتنا ہے کہ قرآن وحی جلی اور وحی متلو ہے جبکہ آحادیث مبارکہ وحی خفی اور وحی غیر متلو ہے۔ باالفاظ دیگر قرآن حکیم متن ہے اور صحیح آحادیث اس کے تشریح و توضیح ہے۔ یہی دوچیزیں دین اسلام کی اصول ومنابع ہیں، جن پراس دین متین کاعمارت استوار ہے۔اسلئے اللہ تعالی نےان دونوں کی حفاظت کی ذمہ داری بذات خودلی ہے۔چنانچہ فرمان الہی ہے،”اِنَّانَحۡنُ نَزَّلۡنَاالذِّکۡرَوَاِنَّالَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ﴿الحجر۔۹﴾ بےشک ہم ہی نےاس”ذکر”کو نازل کیاہے اور بلاشبہ ہم ضروراس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اس آیت میں استعمال شدہ لفظ الذکر کی معنی ”مطلق وحی” ہے۔ جو قرآن وحدیث دونوں کومشتمل ہے۔ جسطرح قرآن کریم کی حفاظت، حفظ اور کتابت کے ذریعے سے کی گئی، اسی طرح حدیث کی حفاظت بھی انہی دو طریقوں سےکی گئی ہے۔

١) حفاظت حدیث بذریعہ سماع و حفظ:

کسی بھی خبر، واقعے اور بات وغیرہ کی حفاظت کی پہلی بنیاد حفظ ہے۔ یہ سادہ اور فطری طریقہ ہے،جسمیں تغیر آنے کی امکان بھی کم ہے۔ وحی کی اولین مخاطب اہل عرب ان پڑھ تھیں۔ پڑھے لکھے لوگ ان میں پانچ فیصد سے بھی کم تھے۔ان کے اکثریت پڑھنا لکھنا نہیں جانتے، لیکن قدرتی طور پر وہ قوی الحافظہ واقع ہوئے ہیں۔ وہ ایک ہی وقت میں ہزاروں اشعار، قصیدے اور امثال سنادیا کرتے تھے۔ پھر انہی لوگوں میں رسول اللّٰهﷺ كی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین خصوصی طور پر درجہ ذیل دو اسباب کی وجہ سے زیادہ قوی الحافطہ تھیں۔

١) ظاھری اور طبی سبب:

کم کھانا، کم سونا، کم بولنا، دنیاوی مشاغل اور کثرت اموال سے کنارہ کشی۔ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایسی معمولات تھے جن کی وجہ سے ان کے قوتیں اور حافظے مزید بیدار ہوئے۔

٢) معنوی اور روحانی سبب:

تقوٰی، گناہوں سے بچنا، دین داری اور دیانت، قوت حافظہ کیلئے اھم اسباب ہیں جو صحابہ کرام میں بدرجہ اتم موجود تھے۔ اس کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی دعائیں، آپ ﷺ کا طریقہ تعلیم اور آپ ﷺ کی بابرکت مجلس کی فیض نے ان کی حافظے اور روحانی قوت میں بے پناہ اضافہ کر دیا تھا۔اسلئے رسول اللہ ﷺ انہیں کتابت کی نسبت حفظِ حدیث کی زیادہ ترغیب دیا کرتے تھے۔ چنانچہ وفدِ عبدالقیس کے واقعے میں ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں تعلیم دینے کے بعد فرمایا، ‏‏‏‏احْفَظُوهُنَّ وَأَخْبِرُوا بِهِنَّ مَنْ وَرَاءَكُمْ" ان باتوں کو حفظ کرلو اوران لوگوں کو بھی بتلادینا ،جوتم سے پیچھےہیں اوریہاں نہیں آئےہیں".

آپﷺ نے حفظ حدیث کی طرف ترغیب دے کر فرمایا، ”نَضَّرَاللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّاحَدِيثًافَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ غَيْرَهُ، ”اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو مجھ سے کوئی حدیث سنے پھر اسے یاد رکھ کر اسے دوسروں کو پہنچا دے، (ترمذی ٢٦٥٤)-

ایک روایت میں ہے، ”رَحِمَ اللهُ اِمرَأً سَمِعَ مِنِّی حَدِیثًا فَحَفِظهُ۔ اللہ تعالی اس شخص پر رحم فرمائے جس نے مجھ سے حدیث سن کر یاد کی” ان وجوہات و ترغیبات کی بناء پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی ﷺ کی ہر فرمان کو سننے کی بعد یاد کیا اور آپﷺ کی ہر فعل کو دیکھ کر اس کی مطابق اپنی عملی زندگی بنائی۔ اور آپ ﷺ کی فرمودات وافعال کو اھتمام کیساتھ محفوظ کرکے آگے اپنے تلامذہ تک پہنچایا۔

صحابہ کرام کے بعد حفظ حدیث کا سلسلہ جاری رکھنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے تابعین میں بڑے بڑے علماء اور حفاظ حدیث پیدا کئے۔ جنہوں نے حفاظت حدیث میں بہت محنت کی ہیں۔ ان میں عروہ بن زبیرؒ ، ابراھیم نخعی ؒ ، حسن بصری ؒ ، سعید بن جبیرؒ ، سالم بن عبداللہ ؒ ، سعید بن مسیب ؒ اور ابن شہاب زہری ؒ مشہور ہیں۔پھر دور تابعین (١٨٠ تا ٣٠٠ھ) کے بعد ان کے شاگردوں (تبع تابعین) میں بھی نابغۂ روزگار ائمہ محدیثین پیدا ہوئے جوحُفّاظ حدیث کی ساتھ ساتھ مؤلفين كتب بھی تھیں۔ ان ہی میں امیرالمؤمنين فى ألحديث أبوعبداللّٰه محمد بن إسماعيل البخاري رحمه اللّٰه، امام دارألهجرة امام مالك رحمه اللّٰه، إمام أهل ألسنّة إمام أحمدبن حنبل رحمه اللّٰه، إمام شافعى رحمه اللّٰه، سفيان الثوري ؒ ، عبدالله بن المبارك ؒ ، سفيان بن عيينه ؒ ، أصحاب صحاح ستةرحمهم اللّٰه قابل ذکر اور مشھور ہیں۔
اس سے واضح ہوا کہ خیرالقرون (دور صحابہ،تابعین،تبع تابعین) میں حفظ حدیث، سماع ونقل حدیث اور دروس حدیث کا دور دورہ تھا، اورعرب وعجم کی تمام اطراف میں یہ سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔

٢) حفاظتِ حدیث بذریعہ کتابت وتالیف وتدوین:

کتابت اور تالیف کے ذریعے احادیث نبوی ﷺ کی حفاظت کا طریقہ بھی دورِنبوت سے لیکر قرونِ ثلاثہ تک تسلسل سے جاری تھا۔ ہر کاتب ومؤلف حدیث نے اپنی سند کو سماعِ صحابہ کی سند سے نبی کریم ﷺ تک پہنچایا ہے۔ ابتدائی دورنبوت میں اگر چہ کتابتِ حدیث سے آپﷺ نے منع فرمایا تھا۔ لیکن بعد میں منع کا حکم منسوخ ہوا، اور آحادیث لکھنے کی اجازت دیدی گئی۔ جس کی ثبوت کیلئے محدثین نے کئی آحادیث نقل کئے ہیں۔ امام بخاری نے کتاب العلم کے باب کتابة ألعلم میں چار آحادیث لائے ہیں۔

١) علی رضى اللّٰه تعالیٰ عنه کی روایت کہ ان سے پوچھا گیا، ”کیا آپ کے پاس کوئی(اور بھی)کتاب ہے؟ انہوں نے فرمایا، ”نہیں” صرف اللّٰه کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے۔ یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔
پوچھا گیا،”اس صحیفے میں کیاہے؟ انہوں نے فرمایا، دیت،قیدیوں کی رہائی کابیان اور یہ حکم کہ مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔ (صحيح ألبخارى-١١١)

٢) ابوھریرہ ؓ کا روایت کہ رسول اللّٰهﷺ نے خطبہ فتح مکہ میں بہت سے آداب واحکام فرمائے۔ ایک یمنی آدمی(ابوشاہ) نے عرض کی، یارسول اللّٰه (یہ مسائل) میرے لیے لکھوا دیجیئے۔

آپﷺ نے فرمایا، ”ابوفلاں کیلئے لکھ دو۔ (بخارى-١١٢)

٣)ابوهريرةؓ سے مروی حدیث جسمیں اس نے فرمایا کہ رسول اللّٰهﷺ کے صحابہ میں عبداللّٰه بن عمرو ؓ کے علاوہ مجھ سے زیادہ کوئی حدیث بیان کرنے والا نہیں تھا۔ کیونکہ وہ لکھ لیا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔(بخارى-١١٣)

٤) عبداللّٰهؓ بن عباس ؓ کے روایت کہ جب نبی کریم ﷺ کے مرض میں شدت ہوگئی تو آپﷺ نے فرمایا، ”میرے پاس سامان کتابت لاؤ کہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، (صحيح ألبخارى-١١٤)

٥) نبىﷺ نے عمرو ؓ بن العاص ؓ کو فرمایا،”(میری حدیث) لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس(زبان) سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔(ابوداود.٣٦٤٦)

٦) ابوھریرہ ؓ فرماتے ہیں،”ایک انصاری صحابی نے رسول اللہﷺ سے شکایت کی، كہ میں حدیثیں سنتا ہوں مگر انہیں یاد نہیں رکھ پاتا ہوں۔ رسول اللّٰهﷺ نے فرمایا،”تم اپنے داہنے ہاتھ کا سہارا لو۔(یہ کہتےہوئے) آپﷺ نے ہاتھ سے لکھ لینے کا اشارہ فرمایا” (ترمذی۔٢٦٦٦)۔

درجہ بالا روایات سے ظاہر ہے کہ دورِصحابہ (جوتدوین حدیث کاپہلا دورہے) میں حفظ حدیث کے ساتھ ساتھ کتابتِ حدیث کا کام بھی جاری تھا۔ اور کئی صحابہ کرام ؓ کے ساتھ احادیث نبویﷺ کے تحریری مجموعے موجود تھے۔ مثلا عبداللّٰه بن عمروبن العاص ؓ کا ھزار احادیث پر مشتمل صحیفہ صادقہ، جس کی روایت عمروبن شعیب بن محمدبن عمرو کے توسط سے پوری طرح منقول ہے۔ عمرؓ بن خطاب کا صحیفہ، جسمیں صدقات اور زکاة کے احکام درج تھے۔ عثمان ؓ کیساتھ زکاة کے احکام لکھے ہوئے موجود تھے۔ صحیفہ علیؓ جو احکامات زکاة، صدقات، دیت، قصاص، خطبہ حجة الوداع وغیرہ پرمشتمل تھی۔

ان کے علاوہ مسند ابوھریرہؓ، صحیفہ انسؓ، مرویات ابن عباسؓ، مرویات عائشہ صدیقہ ؓ وغیرہ، یہ تمام صحیفے، رسالے اور کتب، مرفوع احادیث پر مشتمل صحابہ کرام ؓ کے تحریریں تھے۔صحابہ كرام رضوان ألله عليهم أجمعين کے بعد تدوین حدیث کا بڑا کام عمر ؒ بن عبدالعزیز نے اپنے دور(٩٩ تا١٠٣ھ)میں کیا۔ انہوں نے تدوین حدیث کیلئے ابن شھاب زھری ؒ کے سربراہی میں بارہ ماہر محدثین پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی۔ان محدثین نے احادیث نبوی ؒﷺ کے الگ الگ مجموعے تیار کرکے، امیرالمؤمنين عمربن عبد العزیز ؒ کوپیش کئے۔ لیکن جلد ہی ان کا انتقال ہوا۔

اس کے بعد سلسلہ تدوین جاری رہا، اور پہلی صدی ھجری کے اختتام تک (١٠١تا١٩٠ھ) متعدد کتب حدیث تیار ہوئیں، جن میں موطأ امام مالک ؒ، جامع سفیان ثوری ؒ، جامع ابن مبارک ؒ، کتاب الخراج از امام ابویوسف ؒ ؒ، کتاب الاثار از شیبانی ؒ، زیادہ مشھور ہیں۔
دوسری اور تیسری صدی میں ایسے اھل علم اور ائمہ حدیث پیدا ہوئے، جنہیں اللہ تعالی نے نقد و جرح کی پوری استعداد سے نوازا۔ انہوں نے اصول حديث کے قواعد وقوانین مرتب کئے۔ اور حدیث کی راویوں کی پوری جانچ پرکھ کرتے ہوئے صحیح، ضعیف اورموضوع احادیث کو الگ الگ کردیا۔ انہی میں امام احمد بن حنبل ؒ ؒ، امام بخاری ؒ، امام مسلم ؒ، ابوداود ؒ، ترمذی ؒ، نسائی ؒ، دارمی ؒ اور ابن ماجہ ؒ مشہور ہیں۔

اس دور میں ھزاروں چھوٹے بڑے، مختلف اقسام کے کتب حدیث، مثلا مصنفات، مسانید، جوامع، سنن اور معجمات وغیرہ لکھے گئے۔ اور یوں امت کو احادیث رسولﷺ کا مجموعہ محفوظ طریقے سے پہنچ گیا۔

Comments

Click here to post a comment