اپریل 2022 جب سے عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی، تب سے ملک ایک عجیب سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار ہے۔ ایک طرف عمران خان کا سائفر والا بیانیہ مقبول ہوا تو دوسری طرف شہباز شریف کے معاشی پلان نے غریب عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔
نئی حکومت کے آتے ہی مہنگائی، بے روزگاری، روپے کی بے قدری، معاشی عدم استحکام میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور،مردان، سرگودھا، الغرض جہاں جہاں عمران خان نے دورے کیے عوام کے ایک سمندر نے عمران خان کا استقبال کیا۔ مگر جب عمران خان نے 25 مئی 2022 کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی کال دی تو ہم نے دیکھا کہ ماسواے خیبر پختونخواہ کسی جگہ سے تحریک انصاف اس حد تک عوام نکالنے میں کامیاب نا ہوئی۔ پنجاب میں گرفتاریاں و روک ٹوک کا سلسلہ نظر آیا اور عمران خان ڈی۔چوک سے دوبارہ واپسی کا وعدہ کر کہ پشاور واپس چلے گئے۔ 17 جولائی کے ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد پنجاب میں پرویز الہی وزیراعلیٰ منتخب ہوے۔
آج ایک مرتبہ پھر عمران خان اسلام آباد پر چڑھائی کے لیے چڑھ دوڑے ہیں۔ عمران خان نے 28 اکتوبر 2022 کو لاہور سے "حقیقی آزادی لانگ مارچ" کا آغاز کیا تو دوسری طرف وفاقی حکومت نے پریس کانفرنسز کا آغاز کر دیا۔ سینئر صحافی ارشد شریف کی شہادت نے ملک کو ایک الگ بحران کی طرف لا کھڑا کر دیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے اپنے مرکزی رہنما فیصل واوڈا نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف پریس کانفرنس کردی اور لانگ مارچ کو خونی مارچ کا نام دیا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ ڈی۔جی آئی۔ایس۔پی۔آر کی پریس کانفرنس کے دوران ڈی۔جی آئی۔ایس۔آئی نے بھی میڈیا کو بریفنگ دی اور ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ ڈی۔جی آئی۔ایس۔آئی نے ملکی اندرونی صورت حال پر پریس کانفرنس کی۔
الغرض لاہور لبرٹی چوک سے لانگ مارچ کے آغاز کے وقت عمران خان نے ایک مرتبہ پھر ملکی اہم ادارے کے سربراہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ لانگ مارچ اب سست مارچ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ المیہ کہ صحافی صدف نعیم میڈیا کوریج کے دوران عمران خان کے کنٹینر کے نیچے آکر شہید ہو گئیں اور عمران خان شہیدہ کے گھر تعزیت کے لیے بھی گئے۔ اگست 2017 میں نواز شریف جب نا اہل ہوے تو لاہور واپسی پر گجرات کے مقام پر ایک12 سالہ بچہ انکی گاڑی کے نیچے آ کر کچل گیا مگر افسوس نا نواز شریف رکے اور نا ہی اس کے اہل خانہ سے ملنے گئے.
وزیراعظم شہباز شریف نے تو صحافی صدف نعیم کو 50 لاکھ تو وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہی نے 20 لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ہے۔ ڈی۔جی پی۔آر پنجاب نے 10 لاکھ روپے امداد کا اعلان کر رکھا۔ 3 نومبر 2022 کو چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا لانگ مارچ جب وزیر آباد پہنچا تو ان پر قاتلانہ حملہ ہوا، جس میں وہ بال بال بچے ہیں۔ افسوس ناک واقعے میں ایک شخص جاں بحق جبکہ 13 افراد زخمی ہوئے، جن میں سینیٹر فیصل جاوید، احمد چٹھہ، چوہدری یوسف سمیت تحریک انصاف کے پانچ دیگر رہنما بھی شامل ہیں۔
عمران خان جہاں شوکت خانم ہسپتال میں منتقل ہوے وہیں وہ مسلسل پارٹی رہنماؤں سے مشاورت لے رہے ہیں۔ ملک بھر میں جاری احتجاج و آگ ایک نیا طوفان کھڑا کر رہی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ 2014 میں ماڈل ٹاؤن میں طاہر القادری کے گھر کے باہر پولیس کی فائرنگ سے 14 افراد شہید ہوے مگر آج تک ان شہدا کا انصاف نا ہوسکا۔ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کا آج تک سراخ نا لگایا جا سکا۔ سانحہ ساہیوال کے شہدا کو بھی آج تک انصاف نہ مل سکا۔ اب سوال ہے کہ کیا ان سب اور ارشد شریف کے قاتلوں کو سزا دی جاۓ گی؟ کیا عمران خان پر حملہ کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاۓ گا؟ عمران خان لانگ مارچ و تحریک کو لیڈ کرنے کو بضد ہیں۔
اگر عمران خان کے مطالبے کا بغور تجزیہ کیا جاۓ تو عمران خان کا انقلاب فقط انتخاب اور اقتدار کے ارد گرد گھومتا نظر آتا۔ اداروں سے محاذ آرائی ملک کو ایک عجیب سیاسی و اندرونی بے چینی کی کیفیت کی جانب گامزن کر رہی ہے۔ میرے تجزیہ کے مطابق 20 سے 27 نومبر ایک ہفتہ بہت اہم اور فیصلہ کن ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں نے ملکر جامع حل تلاش نہ کیا تو ملک ایک عجیب سیاسی اکھاڑے کا منظر پیش کرے گا۔ لندن میں نواز شریف، شہباز شریف کی باہمی ملاقاتوں سمیت پی۔ڈی۔ایم کے اہم رہنماؤں سے بھی روابط جاری ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بیک ڈور روابط کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عمران خان جمعہ تک انتظار کریں گے جس کے بعد وہ راولپنڈی میں لانگ مارچ کی قیادت کریں گے۔
قصہ مختصر عمران خان کا انقلاب فقط انتخابات اور اپنی پارٹی کو برسر اقتدار لانا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان و دیگر پی۔ڈی۔ایم کی جماعتیں کیوں اپنے معاشی، سیاسی، سفارتی، سیکیورٹی اور دیگر شارٹ و لانگ ٹرم پلانز کے متعلق آگاہ نہیں کرتیں؟ کیا سب کا مقصد صرف الیکشن جیتنا ہے یا مکمل اسٹریٹجی سے ملکی نظام میں موجود مسائل کو حل کرنا ہے؟
بہر حال موجودہ سیاسی منظر نامہ شارٹ یا لانگ ٹرم معاشی، سیاسی، انتخابی، سفارتی، سیکورٹی و دیگر پلانگ سے کافی دور ہے اور ہر جماعت کا انقلاب خود انکا ذاتی مفاد ہے۔
تبصرہ لکھیے