ہوم << ترجیحات اور اہداف کا فرق، کاش ہم سوچیں- محمد اکرام چودھری

ترجیحات اور اہداف کا فرق، کاش ہم سوچیں- محمد اکرام چودھری

نیا آرمی چیف کون ہو گا اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن بہت سی طاقتور شخصیات اس حوالے سے اپنی اپنی پسند ضرور رکھتی ہیں۔ اب لوگوں کو بھی سمجھ آ رہی ہو گی کہ یہ تقرری اتنی اہم کیوں ہوتی ہے اور اس تقرری کے ساتھ ملک کا مستقبل کس حد تک جڑا ہوتا ہے۔

موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ماضی میں میاں نواز شریف اور ان کے قریبی ساتھی تنقید کا نشانہ بناتے رہے جب کہ ان دنوں پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ سابق وزیراعظم عمران خان تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں لیکن یہ اصحاب اپنے اپنے وقت میں انہیں بہترین سپہ سالار قرار دے چکے ہیں۔ ان دونوں سابق وزرائے اعظم نے جنرل قمر جاوید باجوہ پر تنقید اس وقت کی جب وہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر نہ رہے عہدے پر تو وہ ان کی صلاحیتوں کے معترف تھے اس لیے میاں نواز شریف اور عمران خان کی تنقید کو خالصتاً سیاسی تنقید قرار دیا جا سکتا ہے۔ گوکہ اپنے ہی لوگوں نے ان پر اعتراض اٹھایا لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ ایک نہایت باصلاحیت پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔

پاکستان کی فوج کا سربراہ ایسے ہی شخص کو ہونا چاہیے تھا۔ ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں پر کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر بھی ہوتا رہا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بہترین انداز میں پاکستانی فوج کی قیادت کرتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ انہیں سیاسی تنقید کا سامنا رہا لیکن وہ ملک و قوم کی خدمت میں لگے رہے۔ وہ اپنے وقت کے ایک بہترین آرمی چیف اور افواج پاکستان کا اثاثہ ہیں۔ دفاع وطن کے حوالے سے ان کی خدمات کو یاد رکھا جائے گا۔جہاں تک تعلق نئے آرمی چیف کا ہے اس حوالے سے لوگوں کے اپنے اپنے خیالات ہیں لوگوں کی اپنی اپنی پسند بھی ہے.

لیکن سب کو یہ خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ پاکستان جس جگہ موجود ہے جیسے پاکستان کے بارڈرز ہیں ایک مضبوط فوج پاکستان کی ضرورت ہے اگر کوئی بھی شخص سیاسی یا ذاتی مفادات کی خاطر فوج میں تقسیم یا اس کے کردار اور قوت میں کمی کا خواہشمند ہے وہ اس ملک کی خدمت ہرگز نہیں کر رہا اس لیے نئے آرمی چیف کے حوالے سے یہ یاد رکھیں کہ افواجِ پاکستان کا نیا سربراہ وہی ہو گا جو اس عہدے کے لیے سب سے بہترین ہو گا، نیا آرمی چیف وہی ہو گا جو ناصرف ملکی سرحدوں کو محفوظ بنانے، ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے اور پاکستانی فوج اور عوام کو متحد، یکجا رکھنے اور ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہو۔ اس حوالے سے کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کا آرمی چیف فوج کا سربراہ ہوتا ہے وہ کسی کا پسندیدہ ہو یا نہ ہو اس کے لیے اس ملک کے مفادات، پاکستان کا دفاع اور پاکستان کا بہتر مستقبل سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

پاکستان کے لوگ اپنی فوج سے ناصرف محبت کرتے ہیں بلکہ وہ فوج کی قربانیوں سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ دشمن کے لیے پاکستان کی فوج ہی سب سے بڑا خطرہ ہے، پاکستان کے تمام دشمنوں کو ہماری فوج کی صلاحیت، قابلیت ، اہلیت اور وطن سے محبت پر کوئی شک نہیں، پاکستان کا ہر فوجی دفاع وطن کے لیے ہر وقت اپنی قیمتی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے تیار رہتا ہے اور یہی وہ جذبہ ہے جو دشمنوں کو سب سے زیادہ پریشان کرتا ہے۔ ملک کے چپے چپے کا دفاع ہر افسر اور فوجی جوان کا بنیادی مقصد ہے اور اس معاملے میں پاکستان کے لوگوں نے ہمیشہ اپنی فوج کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کیا ہے۔ نیا آرمی چیف جو بھی ہو گا وہ اس لگاو¿ ، محبت اور جذبے میں یقینی طور پر اضافے کا باعث بنے گا۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ الوداعی ملاقاتوں پر ہیں اس سلسلے میں انہوں نے لاہور گیریژن کا دورہ کیا یادگار شہداءپر پھول رکھے اور فاتحہ خوانی کی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق لاہور آمد پر کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سلمان فیاض غنی نے آرمی چیف کا استقبال کیا۔ آرمی چیف نے لاہور گیریژن انسٹی ٹیوٹ فار سپیشل ایجوکیشن کا افتتاح اور بچوں کے لیے فراہم کردہ سہولیات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ جدید ترین ہاکی ایرینا کا بھی افتتاح اور ہاکی لیجنڈز سے ملاقات بھی کی۔ آرمی چیف نے لاہور کور اور پاکستان رینجرز پنجاب کے افسران اور جوانوں سے بات چیت کی، الوداعی خطاب میں انہوں نے قوم کی خدمت کے لیے فوجی دستوں کی جانب سے فرض کی ادائیگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے نوجوان ہمارا اثاثہ ہیں۔

ان الوداعی ملاقاتوں میں بھی ہمارے اداروں بالخصوص سیاست دانوں کے سیکھنے کے لیے بھی بہت کچھ ہے۔ ایک طرف آپ سیاست کے میدان میں ہونے والی بدتمیزی اور بد اخلاقی کو دیکھ رہے ہیں جہاں ہر جانے والا آنے والوں کو برا بھلا کہتا ہے، اداروں کی کارکردگی اور ان کی ملک و قوم سے وفاداری پر سوالات اٹھاتا ہے، اپنے ہی لوگوں کو اپنے اداروں کے خلاف بھڑکاتا ہے، سڑکوں کے ذریعے اقتدار میں آتے ہیں اور اقتدار سے نکل کر پھر سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔ یہاں آرمی چیف الوداعی ملاقاتوں میں جاتے جاتے بھی قوم کو انسٹی ٹیوٹ برائے سپیشل ایجوکیشن اور ہاکی ایرینا دے کر جا رہے ہیں، فوجی جوانوں کا حوصلہ بڑھا کر اور انہیں ملک و قوم کی خدمت کا درس دے کر جا رہے ہیں.

دوسری طرف جلاو¿ گھیراو¿ کا پیغام ہے، نعرے ہیں، راستے روکو، آگ لگاو¿ ، تنگ کرو، نعرے لگاو¿ ، پریشانیاں کھڑی کرو، مسائل پیدا کرو، دنیا کو پاکستان کے خلاف کرو، بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کو بھڑکاو، ملک میں رہنے والوں کو نفرت اور تقسیم کا پیغام دو۔ جانے والے آرمی چیف بھی پاکستانی ہیں اور جو سڑکوں پر مظاہروں کی قیادت کر رہے ہیں وہ بھی پاکستانی ہیں لیکن دونوں کی ترجیحات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک تعمیر کا پیغام دے رہا ہے، اتحاد و اتفاق کا درس دے رہا ہے تو دوسری طرف ہنگامہ آرائی ہے۔ بہرحال اس سے زیادہ کچھ کہوں تو لوگ برا منائیں گے لیکن حقیقت تو یہی ہے۔ کاش ہم اسے سمجھیں اور اس سے سبق حاصل کریں۔

Comments

Click here to post a comment