ہمارا حج :مکتب والوں نے منٰی روانگی کا شیڈول پہلے سے ہوٹل میں لگایا تھا، جسمیں ہماری روانگی کا وقت رات ایک بجہ طے کیا گیاتھا اسلئے ہم نے عصر کے بعد حج کا ضروری سامان دستی بیگز اور تھیلوں میں سٹ کیا، اور باقی سامان سوٹ کیسز اور بڑے بیگز میں بند کرکے تالے لگا کر کمرے کی الماری میں محفوظ رکھ دئے۔ یوں ہم ذہنی طور پر سفر کیلئے تیار ہوئے لیکن حج کی هیبت ہمارے اوپر سوار تھی۔
نمازمغرب اور عشاء محلے کی مسجد ”مسجدمحمد السبیل”میں ادا کی۔ان دنوں یہاں مسجد میں بھی بہت رش ہوتا۔ عشاء کے بعد غسل کرکے احرام کیلئے اپنے آپ کو تیار کیا، اس کے بعد کھانا کھاکر کچھ آرام کرنے کی کوشش کی، لیکن پرسکون نیند نہیں کی۔ ہماری بلڈنگ کے بعض حجاج کو روانگی کیلئے رات 8 بجے، بعض کو دس اور کچھ کو 12 بجے دئے گئےتھے۔ اسلئے عشاء سے حجاج کی منٰی روانگی شروع ہوئی تھی۔ هماری خواہش تھی کہ سنت کے مطابق کل سورج نکلنے کی بعد منٰی روانہ ہوجائیں، لیکن انتظامی طور پر ایسا ممکن نہ تھا۔ اسلئے هم نے غسل کرکے احرام باندھا اور بس کے انتظار میں بیٹھ گئے۔
رات دو بجے کے بعد ہماری بسیں پہنچ گئیں۔ ہمارے گروپ کے ساتھیوں نے حج کی نیت کے ساتھ یہ عهد بھی تازہ کیا کہ ان شااللہ حج کے دوران صبر اور ایثار سے کام لیں گے۔ ہم نے اطمنان کیساتھ اپنا سامان اٹھا کر کمرے لاک کئے اور نیچے گراونڈ فلور پہ آگئے ۔ وہاں معلومات کرنے کی بعد تمام ساتھی تلبیہ پکار پکار کر متعلقہ بس میں سوار ہوئے۔ تقریبا تین بجے ”منٰی ” کی طرف روانہ ہوئے۔ اور نماز فجر سے کچھ دیر قبل 4:15 پر اپنے مکتب، (مکتب نمبر تین) پہنچ گئے۔ یہ جمرات کے قریب سڑک نمبر 62 ”سوق العرب” پر واقع وی آئی پی مکتب تھا ۔ اس کیلئے ہم سے تقریبا ساٹھ ہزار روپے زیادہ لئے گئے تھے، جو باقی حجاج کو حاجی کیمپ میں واپس دیئے گئے لیکن ہم اس سے محروم رہے ۔ ہمارا قیام اسی مکتب کی خیمہ نمبر 22 میں تھا۔ خیمہ کے دروازے پر لگائے گئے لسٹ کے مطابق یہاں 42 حجاج کرام کیلئے بیڈز کے انتظامات کئے گئے تھے۔ ہم اپنے اپنے بیڈ پر سامان رکھ کر باہر نکل گئے اور مکتب کا جائزہ لینا شروع کیا۔ تھوڑی دیر بعد فجر کی آذان ہوئی۔ نماز اول وقت میں ادا کی اور سونے کا ارادہ کرکے لیٹ گئے۔
منٰی کی خیمہ بستی۔خیمہ کا نام سن کر ذہن میں اک لق و دق صحرا کا تصور آتاہے۔ جہاں دھوپ اور گردوغبار سے بچنے کیلئے خیمہ لگایا گیا ہو۔ لیکن یہ اللہ کے مہمانوں، ”ضیوف الرحمن” کیلئے آباد کیاگیا خیمہ بستی ہے۔ جو مکہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع وادی منٰی میں ہے۔ جہاں سے حج کے مناسک شروع ہوتے ہیں۔
یہ بات یاد رکھنے کی قابل ہے کہ حج کے افعال و اعمال پوری دنیا میں صرف پانچ مقامات میں ادا ہوتے ہیں۔ جن میں ایک منٰی ہے۔ یہاں 8 ذی الحج نماز ظہر سے 9 ذی الحجہ یوم عرفه کی نماز فجر تک رہنا ہے۔ اور پھر یوم عرفہ کے بعد ایام تشریق (ذی الحجہ کی 10تا 12 یا 13 تاریخ تک) یہاں گزارنے ہیں۔ حجاج کرام کے قیام کیلئے یہاں مکاتب اور خیموں کا انتظام کیا جاتا ہے، جو ہر قسم کے وسائل سے آراستہ ہوتے ہیں۔
ہماری رہائش مکتب نمبر 3 کی خیمہ نمبر 22 میں تھا۔ یہاں قیام وطعام کااعلی قسم انتظام تھا، جو بلامبالغہ پاکستانی فائیوسٹار ہوٹل سے بہت بہتر تھا۔ گرمی سے بچنے کیلئے ائیرکنڈیشنز اور پنکھے، سونے اور آرام کیلئے فوم بیڈز، خوراک کیلئے چوبیس گھنٹے ہر قسم کی نعمتوں سے بھرے بوفے، وضو اور غسل کیلئے مناسب انتظام۔ یہ سب کچھ دیکھ کر زبان پر بلا اختيار ”فَبِأيّ ألاءِ رَبّكما تُكذّبان”جاری ہوتا۔ ان سہولیات کو دیکھ کر ایک طرف خوشی ہوتی لیکن دوسری طرف اپنی ناشکری اور اپنے آقا محمد الرسول اللہﷺ کی سختیاں اور تکالیف کا سوچ کر ذہن پر اداسی چھا جاتی۔ سہولیات کی زیادتی عبادات کی روحانیت میں کمی کا باعث بنتی ہے ۔ اس کے ساتھ مردوزن کے اختلاط خصوصا اس مکتب میں خدمت کیلئے لڑکیوں کے انتخاب نے حج کو عبادت سے زیادہ ایک میلے اور فنکشن کادرجہ دیا تھا۔ جدیدیت کی طرف عرب حکمرانوں کی تیزرفتاری نے حرمین شریفین کی تقدس کو بھی پامال کیا ہے۔اور حج جیسے اسلامی عبادت سے روحانیت کا مادہ رخصت ہوکر بے اثر رہ گیاہے۔ جمعہ٨ ذی الحج ١٤٤٠ھ بمطابق 9اگست 2019ء۔
حج کا پہلا دن یوم ألترويه۔
آج ہم نے اپنا پورا دن منٰی میں ذکرواذکار کیساتھ گزارنا ہے۔ نمازیں اپنی اپنی اوقات پر قصر باجماعت ادا کرنے ہیں۔ اس کے علاوہ آج کیلئے کوئی خاص کام نہیں۔ آج جمعہ تھا لیکن مسجد خَیف منٰی میں شدید رش و ازدحام اور راستوں کی بندش کی وجہ سے وہاں ہمارے لئے نماز ظہر کی ادائیگی ناممکن تھی۔ اسلئے ہم نے اپنے خیمے میں سنت کے مطابق قصر نماز ادا کی۔ یہ مسلسل ہمارا دوسرا جمعہ تھا جو عذر (سفر)کی بناء چھوٹ گیا۔ گزشتہ جمعہ پشاور سے روانگی میں، اور آج منٰی میں قصر اوررش کی وجہ سے۔ یاد رہے کہ منٰی میں قیام کی دوران تمام حجاج کرام (مسافر ہو یا مقیم) قصر نمازیں ادا کریں گے۔
مسجدخَیف میں بھی قصر نماز کی جماعت ہوتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے اپنے حج کے دوران ایسا کیا تھا اور یہ امت کیلئے سنت ہے۔ لیکن بعض لوگ کم علمی اور کچھ مسلکی تعصب کی وجہ سے خود بھی الجھن کے شکار رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی الجھن میں مبتلا کرتے ہیں۔ نہ خود قصر نماز پڑھتے ہیں اور نہ دوسروں کو کرنے دیتے ہیں۔ ہم نے تو ارادہ کیا تھا کہ حج ، سنت کی مطابق ادا کریں گے۔ اسلئے خود بھی مسنون طریقے پر عمل کرنے کی کوشش کرتے اور دوسروں کی رہنمائی بھی مسنون طریقے کی طرف کرتے۔ نماز ظہر اور طعام سے فارغ ہو کر عصر تک آرام کیا۔ نماز عصر کے بعد جمرات اور مسجد خَیف کی طرف چکر لگایا۔
ماحول کا جائزہ لیکر کل کی ”رمی” کیلئے نقشہ ذہن نشین کیا۔ مغرب کے بعد خیمہ میں مسائل حج کا بحث اور عام گفتگو ہوئی۔ زیادہ تر حجاج خیموں میں اختلافی مسائل چھیڑتے ہیں اور کم علمی کی وجہ سے نوبت بحث مباحثے اور جھگڑے تک پہنچتی ہے، جس کی وجہ سے حج کی یہ عظیم عبادت ضائع ہوجاتی ہے۔ اسلئے حجاج کرام کو گفت و شنید میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ ان پڑھ عوام کیساتھ بحثوں سے گریز کیاجائے اور ہر عمل میں رسول اللہﷺ کے مسنون طریقہ پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، کیونکہ یہ عمل کی قبولیت کیلئے لازمی شرط ہے۔ نماز عشاء اور کھانے کے بعد جلد سونے کا ارادہ کیا۔۔ کیونکہ کل حج کے ”رُکنِ اعظم” وقوف عرفات کیلئے تمام حجاج کرام نے جانا ہے۔
إلٰى عرفاتٍ سَنمضِى غدًا وَشَوقٌ بِقلبِ المُحِب ألْبداء
فَهذ ألمُقامُ ألدُّعاءِ ألذى ... يُجابُ فمُدُّو لِرَبِّ أليداء
“کل ہم عرفات جائیں گے، محبت کرنے والے کی دل میں شوق آشکارہ ہوئی۔ یہ وہی مقام ہے جہاں دعائیں قبول ہوتی ہے، پس اپنی رب کے حضور ہاتھ اٹھا۔”
تبصرہ لکھیے