ہوم << پاک رکھ اپنی زباں، تلمیذِ ربّانی ہے تُو -عبد الرحمٰن السدیس

پاک رکھ اپنی زباں، تلمیذِ ربّانی ہے تُو -عبد الرحمٰن السدیس

" بد بخت ہو تم! تمہارے انگ انگ سے نحوست ٹپکتی ہے! اور تمہارے ہماری زندگیوں میں آنے سے خوشیاں ہمارے گھر کا رستہ بھول گئی ہیں۔" یہ سننا تھا کہ انعم کی آنکھوں سے آنسو کی لڑیاں چہرے سے ہوتی زمین پر گرنے لگیں۔ وہ یہ پہلی مرتبہ نہیں سن رہی تھی، ایسی دیگر کئی طعن و تشنیع بھری باتیں روزانہ ہی سننے کو ملتی تھیں۔ احمد کبھی اسے سخت ست کہتا تو کبھی اس کے گھر والوں کو برا بھلا کہتا اور اپنی ہیجان انگیزی کا شکار بنا دیتا۔ وہ احمد کو ہر طرح سے خوش رکھنے کی کوشش کرتی تھی، اسکا خیال رکھنے کے خیالوں میں گم رہتی یا اسکے کام کرنے میں مصروف رہتی۔ لیکن احمد کی غصیلی آواز اس پر ہتھوڑے کی طرح برستی تھی اور ماسوائے غصے کے وہ اسکا اور کوئی دوسرا روپ نہیں دیکھ پاتی تھی۔ کبھی کبھار تو روتے روتے اس کی آواز رندھ جاتی کیونکہ احمد اسکی ایک بھی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا۔ بہت سی ایسی اور انعم اسی طرح ہی جیئے جا رہی ہیں۔ چاہے مرد ہوں، عور تیں ہوں یا تیسری جنس والے۔ سب ہی کسی نہ کسی سطح پر یہ ظلم برداشت کررہے ہیں اور وہ سب اسی فہرست میں شامل ہیں، یہ ظلم ڈھانے والے زیادہ تر عزیز و اقارب ہوتے ہیں۔ الفاظ کی صورت میں ہونے والا ظلم ایک انسان کے لیے بھیانک خواب جیسا ہوتا ہے۔ انسانوں کی اکثریت اس ظلم کے مقابلے کی بجائے فرار کا راستہ اختیار کرتی ہے ۔ یوں کچھ لوگ ڈپریشن، پاگل پن، چڑچڑاہٹ، ہیجان کا شکار ہو کر ، کسی نشہ کا شکار ہو جاتے ہیں یا ان صدمات سے لڑتے ہوئے اپنی جان ہی ہار جاتے ہیں۔

نشہ کرنے والے کچھ لوگ مایوسی کی وجہ سے سگریٹ یا شراب کو اپنا واحد سہارا سمجھ بیٹھتے ہیں۔ پروفیسر اپرنا ویدک نے کچھ ایسے ہی سگریٹ پینے والے انسانوں کی اندرونی کیفیت کو ایسے بیان کیا تھا کہ

"چند ایک کے چہرے سگریٹوں کے دھوئیں میں چھپے ہوئے تھے۔ غم غلط کرنے کا اس سے سنتا طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے، دھواں پیٹ اور سانس کی نالی میں بھرنے والا ہر انسان سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے اندر کے کرب سے دنیا کو آگاہ کر دیا ہے، اس کی آواز دوسروں تک پہنچ گئی ہے کہ اسے کوئی دکھ ہے۔ اسے سمجھو۔"

لیکن یہ الفاظ کون ہیں جو ایک انسان کے لیے اس قدر خطرناک ہو سکتے ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ حروف کے ملاپ سے جو جنم پائے ، اسے لفظ کہا جاتا ہے اور جو لفظی ہیرا پھیری کے نتیجے میں تشکیل پائے ، جملہ کہلاتا ہے۔ لفظ کبھی کبھار دوسرے کے لیے سمندر سے گہرے ہوتے ہیں اور کبھی خود ہی کو کھوکھلے محسوس ہوتے ہیں۔ جملوں کو جنم دینے والے یہ اجزا اپنے اندر مکمل معنی رکھتے ہیں تبھی ان کے ادا ہونے سے کسی غمزدہ کے چہرے پر خوشی اور کبھی غم میں مزید اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔ الفاظ کا تعلق ادائیگی سے بھی جوڑا جاتا ہے کہ اس رشتہ داری کے بغیر یہ کارگر ثابت نہیں ہوتے۔ گویا اگر ادا کرنے والا فہم و ادراک رکھتا ہو تو جہاں الفاظ کی کاٹ سے کسی کے دل کو زخمی کیا جا سکتا ہے وہیں الفاظ کے مرہم سے دل کے لیے سکون کا باعث بھی بنا جا سکتا ہے۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ الفاظ اخلاقیات اور ایسی بندشوں اور پابندیوں سے آزاد ہوتے ہیں کیوں کہ یہ تو جان نہیں رکھتے۔ تاہم اس دلیل کو اس لیے ذرا اور طرف رکھنا پڑتا ہے، کیوں کہ جو ان کو ادا کرتے ہیں وہ تو جاں بخش بھی ہیں اور جان لیوا بھی ، یعنی زندگی لے بھی لیتے اور بخش بھی سکتے ہیں۔ انسان کا شرف دیگر جانداروں پر یہی تو ہے کہ یہ الفاظ کا ماہر ہے۔ دیگر اپنی بے ہنگم آواز سے اظہار کرتے ہیں تو انسان الفاظ کو اپنے مطابق استعمال میں لانے کا ہنر جانتا ہے۔ اظہار کی یہ نعمت جو انسان کو قادر مطلق نے عطا کی ہے وہ اور کسی کے نصیب میں نہیں ہے۔ پہلے انسان اور فرشتوں کی ابتدائی ملاقات کا واقعہ قرآن نے کچھ ایسے ہی بیان کیا ہے کہ جب آدم نے چیزوں کے نام بتائے تو فرشتے حیران رہ گئے کہ مٹی سے بنا ہوا انسان جو خطا کا بھی پتلا ہے ان سے تو شرف میں بالا مقام کا حامل ہے۔

لفظوں کے بنے ہوئے جال میں پھنسا ہوا انسان بہت بے بس ہوتا ہے۔ اسے اپنے بچاؤ کے لیے بہت تگ و دو کرنا ہوتی ہے اور لفظ ہی اگر مرہم کا کردار ادا کریں تو کریں وگرنہ انہی لفظوں کے لگائے ہوئے زخم بھرتے نہیں ہیں۔ جیل اور جال میں پھنسنا دو مختلف معانی کی حامل چیزیں ہیں، اول الذکر تو کسی طور مدت پوری کر کے جیل سے باہر آجاتا ہے لیکن جال تو اتنا مزید مضبوط ہوتا جاتا ہے جتنا اس میں پھنسا انسان باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ جال کی بنت ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ قیدی کو بے بس کر دیتی ہیں اور اس قدر بے بس کہ وہ امید کھو دینے کے بعد اس قید کو اپنی قسمت سمجھ لیتا ہے یا باقی زندگی بھی اسی کوشش میں ہار جاتا ہے۔

لفظ انسان کے لیے محور کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیوں کہ یہی انسان کا آج اور کل طے کرتے ہیں اور انہی سے کسی کا ماضی وابستہ ہوتا ہے۔ گویا یہ انسان کے اردگرد گھومتے ہیں۔ بظاہر تو وہ گویائی کی طاقت رکھتے ہیں لیکن اس طاقت کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ معانی کو بدل دینے کی بھی طاقت رکھتے ہوں۔ الا یہ کہ وہ خود طاقتور ہوں کہ طاقتور کی تو ہر ایک شے باندی ہوتی ہے۔
ن م راشد نے اس حقیقت کو ایسے بیان کیا ہے۔ ۔
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے
آدمی ہے وابستہ
ادمی کے دامن سے
زندگی ہے وابستہ

گو کہ چولی دامن کا یہ ساتھ جو پیدائش کے وقت کان میں دی گئی اذان سے شروع ہوتا ہے، لحد میں اتارتے ہوئے انا للہ وانا الیہ راجعون اور مغفرت کی دعاؤں کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔
انسان سے انسیت رکھنے والوں کے ذہنوں سے بھی اس کی شکل و ہیئت آہستہ آہستہ دھندلا جاتی ہے لیکن اس کی باتیں اور یادیں ساتھ رہ جاتی ہیں۔ اسی طرح جب ہم کسی انسان کا غائبانہ تذکرہ کرتے ہیں تو اسے اس کے الفاظ کی مناسبت سے یاد رکھا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ کیسے اخلاق سے پیش آتا ہے۔ اخلاق ہی دراصل بعد از مرگ تذلیل یا تحسین کا سبب بتنا ہے۔

اور اخلاق کیا ہے؟ اخلاق دراصل انسان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں جو ریفلیکٹ کرتے ہیں کہ انسان خود کیسا ہے۔

مثال کے طور پر یہ کہ نبی اکرم ﷺ کے وصال کو تقریبا ساڑھے چودہ سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن بلا تفریق تمام خاص و عام جب کبھی رسول اکرم ﷺ کے بارے میں سوچتے ہیں تو ایک خیر بکھیرتے اور اعلیٰ ترین اخلاق کے حامل شخص کا تصور ذہن میں بنتا ہے کہ کیا ہی خوب ہوگی وہ ذات، جن کے اخلاق کے بارے میں جب ان کی زوجہِ مطہرہ ام المومنین حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے جوابا سوال کر دیا کہ " کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟"

دراصل یہ اللہ ہی کا فرمان ہے کہ "بے شک نبی کریمﷺ کی زندگی تمہارے لیے بہترین رول ماڈل ہے"۔

الفاظ یا تو زبان سے ادا ہوتے ہیں یا قلم سے قرطاس پر تحریر ہوتے ہیں۔ خالق و مالک کائنات نے قرآن مجید کی ایک سورہ، سورۃ القلم کا آغاز ہی قلم کی قسم کھاتے ہوئے کیا ہے جو اس کی اہمیت و حیثیت کو دوچند کر دیتا ہے۔ ایک دوسری جگہ پر ایسی بات کی ادائیگی سے بھی روکا گیا ہے کہ وہ کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو۔ یہ دونوں باتیں لفظ کی حرمت کی نشاندہی کرتی ہیں۔
حرمت کا معنی عزت اور آبرو ہے اور جیسے ایک فرد کی عزت و آبرو اہم ہے وہیں لفظ کی حرمت کی بھی اہمیت مقدم رکھنا لازم ہے۔ ایک شاعر نے اس اہمیت کو ایسے بیان کیا ہے ۔

کم ذرا نہ ہونے دی ایک لفظ کی حرمت
ایک عہد کی ساری عمر پاس داری کی

علامہ اقبال الفاظ کی حرمت کو دل کی پاکی و حسن سے مشروط کرتے ہیں۔

سینہ روشن ہو تو ہے سوز و سخن عینِ حیات
ہو نہ روشن تو سخن مرگِ دوام اے ساقی

نبی اکرم ﷺ ، حج کے موقع پر مسلمانوں سے مخاطب تھے اور خطبے کا اختتام انہوں نے ایسے فرمایا کہ
"پہنچا دو، چاہے ایک ہی آیت کیوں نہ ہو۔"

صداقت بھرے لفظوں کی یہ اہمیت ہی تو ہے کہ انکو پہنچانے اور بانٹنے کا حکم دیا گیا۔

خود اللّٰہ کے رسول ﷺ کو بھی صادق یعنی سچا آدمی کہہ کر پکارا جاتا تھا اور یہ گواہی تو ان کے دشمنوں نے بھی دی تھی۔اس لیے دعوت دین کا اہم پہلو جہاں یہ ہے کہ یہ سچائی کی دعوت ہے وہیں اس کے داعیان کا سچا ہونا بھی ضروری ہے۔ اس لیے جب کبھی اعلائے کلمۃ اللہ کی پاداش میں کوئی حق گو سولی پر چڑھایا جاتا ہے کئی دوسرے اسی حق کے پرچم کو تھام کر میدان میں اتر آتے ہیں ۔

دنیا کے تمام انقلاب ان لفظوں ہی کے سبب آئے ہیں کہ ایک جانب ان کے معنوں کو نہ سمجھنے والے خواص ہوتے تھے اور دوسری جانب ان کی اہمیت سے آشنا نظریاتی مگر عام عوام۔ فرانسیسی انقلاب سے پہلے جب ایک شہزادی نے روٹی کو ترستے بھوکے لوگوں کو کیک کھانے کی تجویز دی تھی تو یہ محض اس کی سفاکیت کا اظہار نہیں تھا بلکہ یہ اس کا الفاظ و معانی سے نابلد ہونے کا اظہار بھی تھا کہ قابض طبقہ کس قدر بے خبری کی زندگی میں مصروف ہوتا ہے اور طاقت اس کے لیے الفاظ اور معانی کو اس کا غلام بنا کر دکھاتی ہے لیکن محکوموں کے لیے یہی تو اٹھ کھڑے ہونے کا وقت ہوتا ہے کہ وہ تو بس الفاظ ہی سے شناسا ہوتے ہیں اور انہی کی وجہ سے تو وہ اظہار کی قدرت رکھتے ہیں۔
وگرنہ اگر طاقت رکھتے تو شاید ان کا انجام بھی انہی جیسا ہوتا جن کو انہوں نے انقلاب فرانس کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

کسی انسان کی رعونت کا پتہ اس کے الفاظ سے بھی لگایا جاتا ہے، اس کے لہجہ کی بے مروتی اس کی نخوت کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ رعونت بھلے طاقت، شہرت، دولت، حسب اور نسب، چاہے کسی بھی وجہ سے ہو نیل جیسے گہرے دریا میں ڈبو کر ہی چھوڑتی ہے۔ وقت کا ہر فرعون دوسروں پر رعب ڈال کر یہ سمجھتا ہے کہ اس کا دبدبہ قائم رہنے والا ہے۔
حالانکہ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا۔
علی صہیب قرنی نے اپنے اشعار سے کچھ ایسی ہی صورت گری کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ

گر لفظ بدل جائیں
اور ان میں کدورت ہو، نخوت ہو، رعونت ہو
لہجے میں ملامت ہو، اندازِ عداوت ہو
پھر لفظ کچلتے ہیں انسان کے جذبوں کو
پھر لفظ دکھاتے ہیں پر ہول نظاروں کو
پھر لفظ سناتے ہیں، دوزخ کی کراہوں کو
مظلوم سی آنکھوں کے، خوابوں کو اڑاتے ہیں
راتوں کو جگاتے ہیں، تادیر رلاتے ہیں

لیکن فراعنہ پر کب اثر ہوا ہے کسی کی سسکیوں کا، ان کی تو روایت ہے کہ نوزائیدہ بچوں کو مار دیا جائیے۔ ان کے لہجے سے کسی کو کیا اثر پڑتا ہے اور کسی کے آنسو اگر تھامے نہیں تھمتے تو ان کو کیا فرق پڑے۔ تاہم جو الفاظ کے نشتر سہتے ہیں وہ راتوں کو صرف اسی وجہ سے جاگتے جاگتے گزار دیتے ہیں کہ کسی نخوت بھرے انسان کی ہتک آمیز کوئی بات ان کے دل کا کانٹا بن جاتی ہے۔ وہ اس قدر روتے ہیں کہ سسکیاں ختم ہونے کو آتی ہیں تو ہچکیاں ان کی جگہ لیتی ہیں اور روتے روتے چپ لگ جاتی ہے جو ان کے سہمے ہوئے دل کا حال سناتی ہے۔ انفرادی و اجتماعی دونوں مقامات پر جب انسان اور اقوام بے بس ہو جاتے ہیں اور چپ کا شکار ہو جاتے ہیں تو یا وہ موت کے گھاٹ اپنے اسی غم کے ہاتھوں اتر جاتے ہیں یا ان کے اندر ایک انقلاب کروٹ لیتا ہے۔ اس انقلاب کا محرک وہ ظلم اور جبر بنتا ہے جس کے یہ ستائے ہوتے ہیں۔ روسی انقلاب اسی سلسلے کی تو کڑی ہے کہ جب زار روس اور اس کے خاندان کا ظلم انتہا کو پہنچا تو ہر سو ہر مزدور انقلاب کی بازگشت سنائی دینے لگی، انقلاب کے نعرے بھی تو الفاظ ہی تھے تاہم یہ الفاظ کے تحرک کا سبب بنے۔
انقلاب زندہ باد کا نعرہ جس سے اشرافیہ کو زچ پہنچتی تھی وہ گلی گلی اور کوچے کوچے ہر خاص و عام تک پہنچا ۔ یوں اس انقلاب کی راہ ہموار ہوئی جسے مزدور کا انقلاب کہا جاتا ہے۔
یوں ان الفاظ نے ایک اور انقلاب کو جنم دیا۔ اگرچہ یہ بہت خونی انقلاب تھا تاہم اس خون کی ذمہ دار بھی وہی فرعونوں کی برادری تھی جس کے لیے لفظ کی حرمت نہ ہونے کے برابر تھی ۔
لفظ کسی بھی بیانیہ کے لیے بہت اہم ہیں لیکن اس کا معنی بھی اہم ہوتا ہے جب اشرافیہ یا طاقتور طبقہ اسے ادا کرے۔ الا یہ کہ عام آدمیوں پر مشتمل اکثریت کو اس کی اہمیت کا ادراک ہو جائے اور جب سمجھ آجائے تبھی انقلاب وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ بیانیہ ہی سمت اور پھر منزل کا تعین کرتا ہے۔

اس پوری بحث کو اگر سمجھا جائے تو ابتدائے آفرینش سے لمحہِ موجود تک بنیادی جزو، لفظ ہے۔ فرد سے فرد کا تعلق یا ریاستوں کے مابین تعلق بھی انہی کی وجہ سے پروان چڑھتے ہیں اور خراب بھی اس تیزی سے ہوتے ہیں جیسے کوئی پتھر ڈھلوان سے اترے۔

اثر پذیری اور مقبولیت کا باعث بننے والے الفاظ جہاں زندگیاں سنوارتے ہیں وہیں بگاڑتے بھی ہیں۔ ملبہ تاہم ان الفاظ پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ بلکہ کون کہہ رہا ہے ، اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے۔ جو کچھ کہا جائے ، ان لفظوں کی حرمت و عزت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہا جائے اور یہی انسان اور خدا دوستی کا تقاضا ہے ۔ جس لفظ کو ادا کرتے یا لکھتے ہوئے اسکی حرمت پر حرف آئے تو اسے ظلم اور نا انصافی کہا جاتا ہے، اور ظلم زیادہ دیر نہیں روا رکھا جا سکتا کہ اسکی میعاد کے دن تو تھوڑے ہوتے ہیں، فیض احمد فیض نے یہی بات جامعیت سے کہی ہے۔

شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار
سر نگوں ، مِحو ہیں بنانے میں
دامنِ آسماں پہ نقش و نگار
دل سے پیہم خیال کہتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا؟
چاند کو گُل کریں تو ہم جانیں

Comments

Click here to post a comment