ہوم << استنبول میں تیسری شام -شعیب محمد خان

استنبول میں تیسری شام -شعیب محمد خان

شام کے لمبے ہوتے اور پھیلتے ہوئے سائے سعد بھائی کی واپسی کا پیام ہاتھ میں تھامے بڑھتے جارہے تھے۔ اسکودر جیٹی پہ کھڑے ہوکر یورپی استنبول کو دیکھیے تو ساحل کی دوسری طرف جلتی بجھتی روشنیاں ڈوبتے سورج کی سرمئی روشنی میں کافی پر اثر و دلسوز نظر آتی ہیں۔ ایسے میں باسفور کا ٹھنڈا نیلا پانی ساحل پہ بنی ہوئی دیوار کے ساتھ جل ترنگ بجاتا کسی ساز سے کم نہیں لگتا۔ ایک ایسا ساز جو سکون کے راگ الاپتا ہو۔
سعد بھائی کی فلائٹ چونکہ استنبول ایئرپورٹ سے تھی تو انہیں اتارنے کیلیے ہم واپس یورپی استنبول گئے۔ ہمارے سعد بھائی پریشان بہت ہوتے ہیں، میرے بار بار یقین دلانے کے باوجود انہیں اطمینان نہیں ہو رہا تھا کہ وقت پہ ہوائی اڈہ پہنچ جائیں گے، یہاں تک کہ پہنچ گئے۔ سعد بھائی کو الوداع کہا اور واپسی کے رستے پہ گامزن ہونے ہی لگے تھے کہ اللہ جزا دے، احسن بھائی نے تدبیر دی کہ کیوں نہ فاتح گھوم لیا جائے۔ اب جو خرچہ ہونا تھا وہ تو ہو ہی گیا ہے، واپس گھومتے پھرتے چلتے ہیں۔
قائد تحریک کا حکم تھا چنانچہ گاڑی 'فاتح' کی طرف موڑ دی۔ احسن بھائی نے بتایا کہ فاتح میں زیادہ تعداد میں عربی النسل آباد ہیں اور یہاں اکثر دکانداروں کو ترکی زبان بھی نہیں آتی۔ یہیں پر سلطان محمد فاتح کا مدفن بھی ہے اور ان کے مقبرے سے ملی ہوئی ایک عظیم الشان مسجد بھی جہاں ترکی کی اکثر اہم شخصیات عید، بقر عید اور جمعہ وغیرہ کے مواقع پر نماز ادا کرنے آتی ہیں۔ دیکھ کر ہی اندازہ ہوا کہ کم از کم بھی ہزاروں کی تعداد میں نمازی یہاں ایک وقت میں نماز ادا کرتے ہوں گے۔
مسجد سے باہر نکلے تو کونے میں ایک دکان پہ کافی گہما گہمی اور رش لگا ہوا تھا۔ ہم نے بھی کانی آنکھ سے جھانک کر دیکھا تو دو تھال لگے ہوئے نظر آئے۔ ایک میں عمدہ مکھن ملائی کا حلوہ باریک پسے ہوئے پستے میں ڈھکا ہوا اور دوسرے تھال میں عمدہ گرما گرم تیار اور کنافہ۔۔۔۔ سبحان اللہ!
شکر ہے احسن بھائی نے مجھے بمشکل روک لیا ورنہ میں ابھی بھی وہیں بیٹھا ہوا حلوہ اڑا رہا ہوتا۔
شکم سیر ہوکر بالآخر احسن بھائی کے اصرار پر ہم فاتح سے نکل کر تقسیم کی طرف آگئے۔ تقسیم سکوائر تو جیسے الگ ہی دنیا ہے، ہر وقت ہر جگہ لوگ ہی لوگ، گویا مفت مال تقسیم ہو رہا ہو۔ تاریخی چاکلیٹ، تاریخی قہوہ، تاریخی کوکوریچ۔۔۔۔ ہر چیز ہی یہاں تاریخی ہے۔ تقسیم سکوائر پہ ہی احسن بھائی نے مجھے بتایا کہ کیسے کیسے ظلم و ستم کے پہاڑ عثمانیوں پر توڑے جاتے تھے، اور یہ بھی بتایا کہ ترکی کے صوفیاء میں اور دنیا کے باقی صوفیوں میں بنیادی فرق کیا ہے۔ اسی کے ساتھ 'چناکلے' کی عظیم جنگ کہ بارے میں بھی بتایا کہ کیسے ترک ریاست نے اپنا دفاع کیا اور اتحادی افوج کی پھٹیاں اکھیڑ دیں۔ رات گئے تک ہم تقسیم سکوائر پہ چاند ماری کرتے رہے، بازار پھرولے، دکانیں پھرولیں، احسن بھائی کی مفید معلومات سے استفادہ کیا اور کچھ رات بارہ ایک بجے کے قریب واپسی ہوئی ۔

Comments

Click here to post a comment