ہوم << فیصل عجمی کا سخن آباد - امجد اسلام امجد

فیصل عجمی کا سخن آباد - امجد اسلام امجد

1980 کی دہائی میں اُبھرنے والے بہت سے اچھے شاعروں میں جن لوگوں نے پہلی صف میں جگہ پائی ہے میں اُن میں عباس تابش ، ڈاکٹر وحید، شاہین عباس، نوشی گیلانی اور فیصل عجمیؔ ؔ کوباقی سب سے اوپرشمار کرتا ہوںکہ ان پانچوں کے یہاں کچھ خوبیاں ایسی ہیں جو صرف اِنہیں سے مخصوص ہیں۔

فیصل عجمیؔ سے پہلی ملاقات بھی قاسمی صاحب کے ’’فنون‘‘ کے حوالے سے ہوئی اس وقت وہ غالباً اپنے آبائی علاقے تلمبہ سے انجیئنرنگ یونیورسٹی لاہور میں پڑھنے آیا ہوا تھا اچھی اور تازہ شاعری کے ساتھ ساتھ اس کی دوستدارانہ خوش مزاج طبیعت اور سینئرز کے احترام کی دل سے پابندی نے بھی بہت متاثر کیا۔
اگرچہ بعد کے 40برس میں اس سے ملاقات کا سلسلہ اس کی وطن سے زیادہ تر غیر حاضری کے باعث عدم تسلسل کا شکار رہا مگر اس کی شاعری کے سفر کے ساتھ ہم سفری بہرحال قائم رہی، چند برس قبل پاکستان میں کچھ عرصہ قیام کے دوران وہ یہاں کی ادبی زندگی میں بھر پور شرکت کرتا رہا .

ایک بہت عمدہ ادبی جریدہ ’’آثار‘‘ کے نام سے جاری کیا اور اُسے بہت اچھی طرح سے چلایا بھی مگر پھر اچانک پتہ چلا کہ وہ دوبارہ بوجوہ تھائی لینڈ (بنکاک) شفٹ ہوگیا ہے اور اب تک وہیں ہے۔ گزشتہ دنوں شاہدماکلی کے دعوت نامے سے معلوم ہوا کہ فیصل ہی کی سرپرستی میں آثار کا احیاکیا جارہا ہے اور اس ضمن میں ایک تعارفی تقریب اور مشاعرے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ میں حسبِ وعدہ وقت پر پہنچ گیا مگر احباب کے جمع ہونے میں اتنی دیر لگ گئی کہ مجھے بزم نفاذِ اُردو اور کِپس کالج رائے ونڈ کی طرف سے احباب اپنے مشاعرے میں شرکت کے لیے لینے آگئے اور یوں مجبوراً مجھے شاہد ماکلی اور دیگر احباب سے معذرت کرکے اجازت لینا پڑی۔

اب جہاں تک اس کے کلیات ’’سخن آباد‘‘ اور اس میں جمع شدہ شاعری کا تعلق ہے یہ اس کی اب تک کی پانچ کتابوں’’مراسم‘‘، ’’شام‘‘ ، ’’خواب‘‘، ’’سمندر‘‘ اور ’’درویش‘‘ کا مجموعہ ہے جسے اُلٹی ترتیب یعنی پانچویں سے پہلی کتاب کے اندراج سے مرّتب کیا گیا ہے۔ وہ بنیادی طور پر تو غزل کا شاعر ہے مگر ان کتابوں میں شامل اس کی نظمیں (جو زیادہ تر اس کے ذاتی احوال ، واقعات اور خوابوں کا مجموعہ ہیں جن میں اس کا دیہاتی پس منظر اپنے تمام رشتوں اور رنگوں کے ساتھ جگہ جگہ اپنا اظہار کرتا نظر آتا ہے، میں اس کے دو تین مجموعوں کے حوالے سے پہلے بھی لکھ چکا ہوں لیکن اس بار 672صفحات پر مشتمل اس کی مکمل شاعری سے ملاقات نے اس اعتبار سے بہت مزا دیا ہے کہ بہت کم شاعر آج کل ایسی رواں زمینوں میں لکھتے یا اُنہیں اپنے زورِ قلم سے رواں دواں بنا دیتے ہیں جہاں بہت سے اچھے شاعروں کی بھی سانس اُکھڑنے لگتی ہے۔

’’درویش‘‘ ہے تو اب تک کی اُس کی آخری کتاب مگر ’’درویشی‘‘ کسی نہ کسی رنگ میں ابتدا ہی سے اس کے ساتھ چلی آرہی ہے،میرے ایک بہت کڑے انتخاب کے بعد بھی اُس کے نمایندہ اشعار کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ میں شائد اس کی ایک ہی نظم کا ذکر کرپاؤں گا جو کتاب کے اندرونی سرورق پر بھی درج ہے اور جو اُس کی نظموں کے عمومی مزاج کی آئنہ دار بھی ہے وہ کہتاہے

میں اپنا آخری حصہ ہوا سے لے چکا ہوں

مگر آنکھیں ابھی تک نیم وا ہیں

وہ سب چہرے کہ جن کے نقش

آپس میں ذرا ملتے ہیں اندر آچکے ہیں

ہجوم وارثاں ہے اور میں ہوں

اثاثے کاغذوں میں بند رکھے ہیں

انھیں کھولو مگر تقسیم سے پہلے

|مری آنکھیں ذرا آہستگی سے بند کردو

جدید اُردو غزل میں فیصل عجمیؔ نے موضوعات اور اندازِ بیان کی جادوگری سے جس موسیقانہ آہنگ کے ساتھ لفظوں اور استعاروں کو ترتیب دیا ہے میں اُن پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا کہ’ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے‘ اس نے واقعی اس ’’سخن آباد‘‘ کو اس کے تمام رنگوں اورخوشبوؤں کے ساتھ آباد رکھا ہے جس کی وجہ سے یقیناً اُسے صرف اپنی نسل کا نمایندہ ہی نہیں بلکہ غزل کی روائت کے باکمال وارثوں میں بھی شامل سمجھا جائے گا۔

ہوگئی شام تو کشکول اُلٹ کر دیکھا

اتنے سّکے تھے کہ لوگوں نے پلٹ کر دیکھا

سوچتا ہی رہتا ہوں وہ جہان کیسا ہے

دوسری طرف سے یہ آسمان کیسا ہے

اب کے سال بھی آخر دریا آکر کھیتی چاٹ گئے

پچھلے سال بھی دہقانوں نے قحط کی فصلیں کاٹی تھیں

جی چاہتا ہے آگ لگا دوں میں اب تجھے

اور اس کے بعد بڑھ کے لپٹ جاؤں تیرے ساتھ

زمیں کی نوحہ گری سن کے ڈر گیا پانی

ڈبو کے شہر کو یک دم اُتر گیا پانی

معجزہ ہے کہ میں اب تک ہوں

اور معلوم نہیں کب تک ہوں

ضرورت کے علاقے بڑھ گئے ہیں

جسے جو کچھ ملے گا کم پڑے گا

کہاں گئے جو لوگ میرے ساتھ تھے

یہ کون لوگ ساتھ رکھ دیے گئے

رفاقتوں کو کسی کی نظر نہ لگ جائے

جدا ہمارے تمہارے چراغ رکھے جائیں

آوارگی میں اپنا ٹھکانہ کہیں نہ تھا

چلتے ہی جارہے تھے کہ جانا کہیں نہ تھا

تو محبت نہیں عقیدہ ہے

میں تجھے اختیار کرلُوں کیا

کہو ستارۂ شب سے کہ حوصلہ رکھے

میں روشنی کا کوئی انتظام کرتا ہوں

بچپن بھی مفت اور بڑھاپا بھی بیش و کم

مہنگی اگر پڑی تو جوانی پڑی مجھے

کروں گا سیر ترے بے شمار باغوں کی

اور ایک پھول اِدھر سے اُدھر نہیں کروں گا

سب پیڑ کنارے کے بدلنے لگے ملبوس

اب جھیل کا پانی بھی ہرا ہونے لگا ہے

طور اطوار بھی ملتے ہیں سراپا ہی نہیں

آپ کو دیکھ لیا، دیکھ لیا دنیا کو

یہ جو سب کچھ ہے کہیں کچھ بھی حقیقت میں نہ ہو

ایک صُورت میں تو ہو ، دوسری صورت میں نہ ہو

گونجتی ہے ترے کمرے میں ہنسی کی آواز

کس پہ ہنستا ہے زمانے کے ستائے ہوئے شخص

اشک کے لرزنے سے آسماں لرزتا ہے

دو جہاں کی حیرت ہے ایک بوند پانی میں

تجھ کو خبر نہیں کہ تجھے بھولنے کے بعد

کتنا اضافہ ہوگیا میرے فراغ میں

اپنی آنکھیں کسی دیوار پہ چسپاں کردے

تُو اگر ان کی نگہداری نہیں کرسکتا

Comments

Click here to post a comment