ہوم << جینا ہوا دشوار - سیّدعارف سعیدبخاری

جینا ہوا دشوار - سیّدعارف سعیدبخاری

وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ مخالف پراپیگنڈا کرتے ر ہیں،ہم عوام کی خدمت کے مشن کو جاری رکھیں گے اورعوام کوریلیف دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔ہماری حکومت نے مختصر مدت میں عوام کو ریلیف دینے کیلئے انقلابی اقدامات کیے ہیں۔

ان کا کہناہے کہ 100ارب روپے سے ’’پنجاب احساس راشن رعایت پروگرام ‘‘شروع کیا گیاہے جس کے تحت80لاکھ مستحق خاندانوں کو آٹا،دالیں، کوکنگ آئل اورگھی40فیصدتک سستا دیا جا رہا ہے۔سیلاب متاثرہ 3 اضلاع کے رجسٹرڈ شدہ لوگ اس سے مستفید ہورہے ہیں۔اس کے علاوہ قومی صحت کارڈ سے اب تک تقریباً50ارب روپے کی خطیر رقم سے 22لاکھ مریضوں کا مفت علاج ہوچکا ہے۔ہماری حکومت نے قومی صحت کارڈ کے ذریعے اب کینسرکے مریضوں کو جدید ترین ٹیکنالوجی سائبر نائف کے ذریعے علاج کی سہولت فراہم کی ہے۔

سائبر نائف ٹیکنالوجی کے ذریعے علاج سے کینسر کے مریضوں کوبہت سہولت ملے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ قومی صحت کارڈکے ذریعے کینسر کے54ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا جاچکاہے جبکہ گردے کے 4لاکھ83ہزار سے زائد مریض مفت علاج کی سہولت حاصل کرچکے ہیں۔قومی صحت کارڈ کے ذریعے پنجاب کے ہر شہری مفت علاج کی سہولت فراہم کی گئی جبکہ دیگر امراض کے علاج کو بھی قومی صحت کارڈ میں شامل کیاجارہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ’’ احساس پروگرام ‘‘ہمارے لیڈر عمران خان کا وژن ہے۔ سماجی اورمعاشرتی تحفظ سے محروم افراد فلاحی ریاست کی ذمہ داری ہے۔احساس راشن رعایت پروگرام غربت کے خاتمے اورفلاحی ریاست کی جانب ایک بہت بڑا قدم ہے۔

رعایا کو بنیادی ضروریات کی فراہمی اسلامی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے ۔روز محشراس معاملے میں ہونے والی کوتاہی کا جواب بھی حاکم وقت نے خود دینا ہے ۔لیکن حکمران ان باتوں سے بے نیاز ہو چکے ۔مسلمان کہلانے کے باوجود ہمارے اعمال کچھ زیادہ اچھے نہیں ۔خوراک اور صحت کے علاوہ تعلیم،پانی ،بجلی ،گیس ،پیٹرول ،تیل اور دیگراشیاء بھی زندہ رہنے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔انسان کو رہنے کیلئے ایک چھت کی ضرورت بھی ہوتی ہے ،اپنے ذاتی گھروں میں رہنے والے پریشان ہیں تو کرائے کے مکانوں میں رہنے والے سفید پوش گھرانوں کا کیا ہوگا ۔کھلے آسمان تلے رہنے والوں کیلئے بھی نظام زندگی کو رواں دواں رکھنا محال ہو چکا ۔مہنگائی کی آڑمیں دکاندار اپنی جگہ لوگوں کے تن سے کپڑے اتارنے میں لگے ہیں ۔

بجلی کا ایک یونٹ تقریباً 50روپے تک پہنچ چکا ہے ، بھاری یوٹیلیٹزبلز نے مشترکہ خاندانی نظام کے ساتھ ساتھ لوگوں کا سکون غارت کرکے رکھ دیا ہے ۔آمدن سے کئی گنازیادہ بل بھجوائے جا رہے ہیں ۔یوٹیلٹی سٹورز اور فیئرپرائس شاپس کے ذریعے رعایتی نرخوں پر بعض غیر معیاری اشیاء کی فراہمی کا برس ہا برس سے جاری ڈرامہ عوام کے ساتھ مذاق ہے ۔ادھر بڑے بڑے ڈیپارٹمینٹل سٹورز پر سستی اشیاء کی فراہمی کے دعوے محض اعلانات تک محدود ہیں ۔سٹورمالکان اگر چار چیزیں سستی دیتے ہیںتو اس کا سارا خسارہ دیگر اشیاء مہنگے داموں فروخت کرکے پورا کر لیتے ہیں ۔عوام ضرورت کی ہر چیز پر ’’سیلز ٹیکس‘‘ کے ساتھ اور بہت سے نت نئے ٹیکس دے رہے ہیںجس کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔

جبکہ حکومت خوراک اور صحت پروگرام پیش کرکے یہ سمجھتی ہے کہ اس نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے ۔’’پنجاب احساس راشن رعایت پروگرام ‘‘۔’’صحت ہیلتھ کارڈ اسکیم ہویا کوئی اور منصوبہ ، نام کچھ بھی ہو۔ان میں بیشتر پروگرام ’’زکوۃٰ ‘‘کی مد میں ملنے والی سود ی رقوم سے ہی چلائے جاتے ہیں ۔خدمت عامہ کے نام پریہ سب قوم کو بے وقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں ۔دنیا بھر کی حکومتیں مسائل کو کم کرنے کی سعی کرتی ہیں جبکہ پاکستان کی ہر حکومت میں شامل ہر دوسرا فرد اپنی تجوریاں بھرنے میں لگا ہے ۔بیشتر لیڈروں کی فیملیز امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ، کینڈا ،یو اے ای جیسے ممالک میں آباد ہیں ، بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں اور وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ان لیڈروں کی ملک وملت سے کوئی دلچسپی نہیں ۔

ان کا پاکستان آنے کا مقصد محض’’ لوٹ مار ‘‘ہے ۔اربوں کھربوں روپے کے اثاثے رکھنے والے یہ لیڈر پاکستان کو خوشحال بنانے اور عوام کی حالت زار بہتر بنانے کی بجائے اپنے بچوں کے روشن مستقبل پر اپنی توجہ مرکوزکئے ہوئے ہیں ۔ہر حکومت قوم کی عزت و خود داری کا سودا کرتی ہے ،آئی ایم ایف و دیگر مالیاتی اداروں سے بھاری سود پر قرضے لیتی ہیں ۔ان قرضوں کی’’ ڈیل‘‘ میں انہیں کروڑوں روپے کمیشن (رشوت) کی صورت ملتا ہے ۔ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے لیڈر ملکی وسائل کو بروئے کا رلا کر قوم کو خوشحال بنانے کی پالیسی اپنانے کی بجائے نسل در نسل مقروض بنانے میں لگے ہیں ۔آج ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ کم ازکم 2لاکھ روپے کا مقروض ہے ۔

لیکن کوئی ایک بھی لیڈر ایسا نہیں جو آئندہ نسلوں کو قرض سے نجات دلانے کیلئے سوچے ۔مالیاتی اداروں سے بھاری قرضوں کے ساتھ ساتھ دیگر کئی ممالک سے ’’بھیک ‘‘ کی صورت میں امداد مانگنا بھی ہمارے حکمرانوں کا ایک محبوب مشغلہ ہے ۔اقتدار اور وزاراتیں حاصل کرنے کیلئے یہ لوگ جہاں خود اربوں روپیہ سیاست پر لگاتے ہیں وہاںبعض مفاد پرست لیڈر اپنی ذات کیلئے اربوں روپے اپنے ان قائدین پر خرچ کر دیتے ہیں ۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے لوگوں کو زندہ درگور کردیا ہے ۔وزیر خرانہ لوگوں کو ڈالر میں کمی کی نوید سناتے ہیں لیکن بازاروں میں آٹا ،چینی، دودھ،گھی سمیت ضرورت کی ہر چیز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔ہر چیز کا ریٹ 3گنا ہو چکا ۔عمران خان کی حکومت میں جو دودھ 120روپے کلو مل رہا تھا ،اب230روپے کلو ہوچکااور وہ بھی بازار سے غائب کردیا گیا ہے ۔گھی اور تیل 180روپے سے200روپے تھا جو اب تقریباً 600روپے تک پہنچ چکا ۔

یہ نرخ بھی شہروں کی حد تک ہیں ورنہ پسماندہ علاقوں اور دیہات میں اس سے بھی زیادہ نرخ میں سبھی اشیاء فروخت کی جاتی ہیں ۔آٹا سابقہ دور میں 800روپے فی تھیلہ (20کلو) مل رہا تھاجس کا وزن عمران خان کے دور میں 15کلوکردیا گیا تھا اور اس کا ریٹ بھی920روپے تک پہنچا دیا گیا تھا ۔آٹے کے تھیلے میں 5کلو کی کمی کرکے حکومت اور انتظامیہ نے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی ،یعنی آٹے کا ریٹ بھی بڑھا دیا اور اس کا وزن کم کردیا گیا ۔جو قوم کے ساتھ ایک مذاق تھا ۔ اب بھی کھلی مارکیٹ میں آٹے کا نرخ 1600روپے فی 15کلو چل رہا ہے ۔چکی والا آٹا 120سے 130روپے کلو ہوچکا ۔حکومت پنجاب کی طرف سے 10کلو آٹے کا تھیلہ 650روپے میں دینے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن یہ آٹا بھی عوام تک پہنچ نہیں پا رہا ۔

انتظامیہ کی طر ف سے مقررہ فیئر پرائس شاپس پر بڑے بڑے بینر لگائے گئے ہیں لیکن سٹاک ختم ہونے کا بہانہ کرکے ڈیلر حضرات اپنے پاس موجود آٹا مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں ۔یہ سب نوسربازیاں حکومت اور انتظامی افسران کے علم میں ہیں اس کے باوجود یہ ڈھکوسلے بڑی ہی ڈھٹائی کے ساتھ چلائے جا رہے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں ، ملکی پیداوار بڑھانے کیلئے کوئی حکمت عملی اپنائی جائے ۔گذشتہ چند سالوں میں ملک کا زرعی شعبہ تباہ ہو کر رہ گیا ہے ۔ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کا کاروبار پورے ملک میں وسعت پا رہا ہے ۔زرعی رقبہ جات کو ختم کرکے کالونیاں بنانے اور بڑے بڑے پلازے اورشاپنگ مال بنانے کا دھندہ زور پکڑ چکا ہے ۔

جب کھیت کھلیان ہی نہ رہیں گے تو ہماری پیداوار کہاں سے آئے گی ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مستقبل قریب میں قوم ان کمرشل اور نان کمرشل بڑے بڑے دیو ہیکل پلازوں کو چاٹ کر اپنے پیٹ کا دوزخ بھرے گی ۔اور کیا ہم اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے دیگر ممالک کے دست نگر بن کر زندگی گذاریں گے ۔دیہات میں کھیتی باڑی کا رجحان دم توڑ تا جا رہا ہے ۔ہماری نوجوان نسل محنت مشقت سے دور ہوتی جا رہی ہے ۔لوگ اپنی آبائی زمینیں ہاؤسنگ مافیا کے ہاتھوں بیچ کر بیرون ملک جانے یا شہروں میں آباد ہونے کوشش کررہے ہیں ۔زمینداری ناپید ہوتی جا رہی ہے ۔ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں ۔ان کو چاہئے کہ وہ احساس راشن پروگرام اور صحت منصوبوں کے نام پر قوم کو بھکاری بنانے کی پالیسی پر نظر ثانی کریں ۔

’’زکوۃٰ فنڈ‘‘سے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کی بجائے ایسے منصوبوں پر کام کریں کہ جن کی بدولت قوم کا ہر فرد عزت کے ساتھ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے ۔افسوسناک امر یہ ہے کہ ’’زکوۃٰ‘‘کی رقم سے دی جانے والی اشیاء دیگر مستحقین کے ساتھ ساتھ آل رسول ؐ کے استعمال میں بھی آتی ہیں جبکہ آل رسول ؐ کیلئے زکوۃٰ لینا ممنوع ہے ۔اور اس کا عذاب ان حکمرانوں کے سر جاتا ہے جو یہ کام کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول ؐ کے احکامات سے روگرانی کرتے ہیں ۔اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے ۔حکمرانوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ وہ ایسا کوئی کام نہ کریں جو ان کیلئے عذاب الہیٰ کا سبب بنے ۔قوم کو اس قدر خوشحال بنا دینے کی ضرورت ہے کہ لوگ زکوۃٰ پر پلنے کی بجائے ایک خوددار قوم کی طرح زندگی بسر کر سکیں ۔

Comments

Click here to post a comment