ہوم << پاکستان کے خلاف امریکی صدر کا سنگین الزام - تنویر قیصر شاہد

پاکستان کے خلاف امریکی صدر کا سنگین الزام - تنویر قیصر شاہد

ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین ملک بھر میں 11ضمنی انتخابات( 8قومی، 3صوبائی)کے نتائج میں اُلجھے ہُوئے ہیں اور اُدھر امریکی صدر ، جو بائیڈن، نے جھوٹ اور غلط معلومات کی بنیاد پر پاکستان اور اس کے جوہری پروگرام بارے مخالفت کی مسموم پچکاری مار ڈالی ہے۔

امریکی صدر کی بڑھتی ہُوئی عمر اور حافظے کی کمزوری آئے روز کوئی نہ کوئی تماشہ دکھا کر امریکا ،امریکی انتظامیہ اور امریکی عوام کو پریشان کرتی رہتی ہے ۔ مثال کے طور پر ابھی چند دن قبل امریکی اساتذہ کی مرکزی تنظیم ( نیشنل ایجوکیشن ایسو سی ایشن) کی سالانہ تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے جو بائیڈن نے عین تقریر کے دوران بے ربط ہو کر کہنا شروع کر دیا:’’اور ہاں ، یہ اُس وقت کی بات ہے جب وہ 12سال کی تھی اور مَیں30سال کا تھا… ‘‘

ممتاز امریکی اسکولوں کے ممتاز ترین اساتذہ کرام80سالہ امریکی صدر، جو بائیڈن، کی یہ بے ربط اور بیہودہ گفتگو سُن کر پہلے پریشان ہُوئے اور پھر سب نے ہنسنا شروع کر دیا۔ یہ مناظر تمام امریکی ٹیلی وژنوں پر براہِ راست نشر ہو رہے تھے ۔ اور پھر اچانک امریکی صدر، جو بائیڈن، کی یادداشت لَوٹ آئی اور انھوں نے نادم و شرمندہ ہو کر اپنی تقریر کا سلسلہ پھر شروع کر دیا۔ تب تک پورے امریکا کے سوشل میڈیا پر امریکی صدر کا مذاق اور مضحکہ اُڑانے کا زور دار سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ اب یہی امریکی صدر ، جو بائیڈن صاحب، نجانے کس لہر میں آ کر بے گناہ اور بے خطا پاکستان پر، بِلا وجہ، حملہ آور ہو گئے ہیں۔

گزشتہ روز موصوف واشنگٹن میں ’’ڈیمو کریٹک کانگریس‘‘ کی ’’ مہم کمیٹی‘‘ سے خطاب کررہے تھے۔ چنگے بھلے لہجے میں وہ رُوس اور چین کے بارے میں اپنی پالیسیوں اور اقدامات کا جواز پیش کررہے تھے کہ اچانک پینترا بدلتے ہُوئے کہنا شروع کر دیا:’’میرے خیال میں پاکستان شاید دُنیا کی خطرناک ترین اقوام میں سے ایک ہے ۔‘‘ یہ خطرناک اور تہمتی فتویٰ امریکی صدر نے کیوں جاری کیا؟ اس کی وجہ بیان کرتے ہُوئے جو بائیڈن کہتے ہیں ::’’کیونکہ پاکستان کے جوہری ہتھیار غیر منظم ہیں۔‘‘

آنِ واحد میں پاکستان کے خلاف امریکی صدر کا یہ الزامی اور دشنامی بیان پوری دُنیا میں پھیل گیا کہ آخر جو بائیڈن دُنیا کی اکلوتی سُپر پاور کا چیف ایگزیکٹو ہے۔بھارت نے ، توقعات کے عین مطابق، امریکی صدر کے اِن بیہودہ اور بے بنیاد الفاظ کی اساس پر فوری طور پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کر دیا ۔ حالانکہ بھارت کی اپنی کرتوت یہ ہے کہ دُنیا بھر کے جوہری اثاثوں پر گہری نظر رکھنے والا عالمی ایٹمی ادارہIAEA (انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی)کئی بار بھارتی جوہری اثاثوں بارے اپنی گہری تشویشات کا اظہار کر چکا ہے ۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور ایٹمی پروگرام بارے تو IAEAنے ایک بار بھی ، آج تک، اپنی کسی بھی باقاعدہ تشویش کا اظہار نہیں کیا ہے۔

اب امریکی صدر نے انگریزی محاورےOut of the Blueکے مطابق ، پاکستان کے جوہری ہتھیاروں بارے بِلاوجہ بیان کا گولہ داغ کر پاکستان سمیت ساری عالمی برادری کو بجا طور پر حیران بھی کیا ہے اور پریشان بھی ۔ مسرت کی بات یہ ہے کہ امریکی صدر کے اِس الزامی اور دشنامی فتوے پرہماری حکومت اور پاکستان کے 22کروڑ عوام خاموش نہیں رہے ہیں ۔ سب نے ایک زبان ہو کر فوری طور پر امریکی صدر کی اِس تازہ ترین ہرزہ سرائی پر احتجاج بھی کیا ہے اور اس کی مذمت بھی کی ہے ۔ عمران خان اور اُن کے ہمنوا مگر امریکی صدر کے بیان کو بھی اتحادی حکومت کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔

ایک بار پھر ثابت ہو گیا ہے کہ امریکا ایک بے وفا اور بے وقار دوست ہے ۔امریکا سے دوستی رکھنا مگر غریب اور محتاج پاکستان کی مجبوری بھی ہے ۔ حیرانی تو اِس بات کی ہے کہ ابھی تو چند دن پہلے ہمارے وزیر خارجہ ، بلاول بھٹو زرداری، نے دو ہفتوں پر مشتمل امریکا کا طویل اور تفصیلی دَورہ کیا ہے ۔ وہ امریکی وزیر خارجہ، انٹونی بلنکن، سے بھی دو بار ملے اور کئی امریکی تھنک ٹینکس اور امریکی میڈیا سے خطاب بھی کیا ۔ سب خوش اور مطمئن تھے ۔ فرزندِ بینظیر بھٹو نے عمران خان کے پیدا کردہ امریکا مخالف بیانات کا ازالہ کرنے کی بھی دانستہ کوشش کی ۔ بلاول بھٹو واپس وطن آئے تو ہمارے آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ، امریکی دَورے پر روانہ ہو گئے۔

خبریں آئیں کہ جنرل صاحب کا دَورہ بھی اپنے متعینہ مقاصد کے اعتبار سے کامیاب رہا کہ جنرل باجوہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سینئر ارکان سے بھی ملے اور امریکی وزیر دفاع ، لائیڈ آسٹن، سے بھی خوشگوار ماحول میں ملاقات کی ۔اِس دوران امریکا نے پاکستان کے جنگی طیاروں (ایف سولہ) کے پرزہ جات بھی فراہم کرنے کا مستحسن اعلان کیا (جس پر بھارت کے پیٹ میں مروڑ بھی اُٹھے) ۔اور اب ہمارے وزیر خزانہ، اسحق ڈار، آئی ایم ایف حکام سے مذاکرات کرنے واشنگٹن ہی میں موجود تھے کہ اچانک امریکی صدر نے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا بم پھوڑ دیا ہے۔ وزیر اعظم، شہباز شریف، نے امریکی صدر کے بیان کو بجا طور پر جھوٹا اور گمراہ کن قرار دیا ہے۔

سوال کیا جارہا ہے کہ امریکی صدر نے اچانک پاکستان کے خلاف یہ بیان دیا ہی کیوں ہے جس کی خالصتاً نہ کوئی وجہ ہے اور نہ ہی اساس ۔ نون لیگ کے ایک وزیر مملکت، ڈاکٹر مصدق ملک ، کا تو یہ کہنا ہے کہ عمران خان نے امریکا مخالف جو بیانیہ شروع کررکھا ہے، یہ اِسی کا شاخسانہ ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان نے جس امریکی لابی فرم کو امریکا میں اپنا امیج بہتر بنانے کے لیے ہائر کررکھا ہے، وہ چونکہ بنیادی طور پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت کرتی رہی ہے، اس لیے ہو نہ ہو امریکی صدر کا یہ بیان ایسے ہی لوگوں کی شرارت اور شیطانی کا سبب ہے ۔ ہمارا نہیں خیال کہ خان صاحب کی ہائر کی گئی امریکی لابی فرم اسقدر طاقتور ہو سکتی ہے کہ امریکی صدر اُس کے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کے غچے میں آ جائے ۔ تو پھر اور کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

رُوس اور یوکرائن جنگ! جی ہاں رُوس یوکرائن جنگ کے دباؤ نے امریکی صدر کو، شاید، پاکستان کے خلاف کذب گوئی کی جانب مائل کیا ہے۔ امریکی اصرار اور دباؤ کے باوصف پاکستان کسی بھی طرح رُوس، یوکرائن جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے اور امریکی موقف کا ہمنوا بننے پر تیار نہیں ہے۔ اِس معاملے میں پاکستاں سختی سے غیر جانبداری کا مظاہرہ کررہا ہے ۔ پاکستان کا یہی کردار امریکا کو گراں گزررہا ہے۔

یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اِسی احساس نے امریکی صدر کو یہ کہنے پر مجبور کیا ہے کہ ’’ پاکستان کا جوہری پروگرام غیر منظم ہے۔‘‘ اِسے ہم انتہائی لغو اور بیہودہ بیان کہہ سکتے ہیں ۔ ویسے تو پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہمیشہ سے امریکا کی آنکھ میں خارِ مغیلاں کی طرح کھٹکتا آ رہا ہے ۔ لیکن بھارت کا نہیں ۔ اِسی پس منظر میں وزیر خارجہ، بلاول بھٹو زرداری، نے بجا کہا ہے کہ بھارتی ایٹمی اثاثوں بارے امریکی صدر کسی شبہے اور شک کی بات کرتے تو کوئی بات بھی تھی ، جس کے میزائل ’’غلطی‘‘ سے فائر ہو کر پاکستان پر آ گرتے ہیں اور پاکستان پھر بھی صبر کا مظاہرہ کرتا ہے۔

ایک بات اور: اگر ہم امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر، حسین حقانی، کا تازہ ترین آرٹیکلBiden is ignoring Pakistan(جو ممتاز امریکی ویب اخبارThe Hillمیں 13اکتوبر 2022 کو شایع ہُوا ہے) پڑھیں تو بھی اِس سوال کا کسی قدر جواب مل جاتا ہے کہ جو بائیڈن نے پاکستان کے خلاف بیان کا یہ ’’گولہ‘‘ کیوں داغا ہے ؟

Comments

Click here to post a comment