ہوم << کیا گولن پرامن مذہبی اسکالر ہیں، حقائق کیا ہیں؟ ایزگی بساران

کیا گولن پرامن مذہبی اسکالر ہیں، حقائق کیا ہیں؟ ایزگی بساران

EZGİ BAŞARAN یہ حق ہر ایک کو حاصل ہے کہ وہ ناکام بغاوت کے بعد، ترک حکومت کے اقدامات میں حقوقِ انسانی کی پامالیوں کی نشاندہی کرے مگر یہ حق کسی کو نہیں پہنچتا کہ حقوق انسانی کے اس نعرے کو مسٹر گولن کی خفیہ تنظیم، جو بلامبالغہ ریاست کے اندر ریاست کے طور پر کام کر رہی تھی، کی ڈھال کے طور پر استعمال کرے جس نے رواں ماہ ترک سوسائٹی کو ناقابل تلافی نقصان پنہچایا ہے۔ ترک عوام اور ترک حکومت نے مسٹر گولن کے خفیہ اور غیر قانونی نیٹ ورک سے بہت گہرا زخم کھایا ہے۔ مسٹر گولن کے پچھلے ٹریک ریکارڈ کو میڈیا نے یا تو جان بوجھ کر نظرانداز کیا ہے یا پھر اس نیٹ ورک کی طرف سے گمراہ کن معلومات فراہم کیے جانے کی وجہ سے اصل حقیقت سے ناواقف رہا ہے۔ میں اختصار کے ساتھ ذیل میں چند نکات کی صورت، مسٹر گولن سے متعلق ان حقائق کو بیان کرتی ہوں.

1. مسٹر گولن کی شخصیت اور ان کی تحریک مغرب میں بین المذاہب ڈائیلاگ اور امن پسند تحریک کے طور پر جانی جاتی ہے، جبکہ اس چیز کا حقیقت سے زیادہ تعلق نہیں ہے۔ مسٹر گولن نے 1999ء میں ترکی کو اس وقت خیرباد کہا جب ان پر اس وقت کی سیکیولر حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام لگا۔ بعدازاں، نائن الیون کے حادثہ کے بعد، مغرب میں بڑھتی ہوئی اسلامی شدت پسندی کے مقابلہ میں انھیں اس کے آگے بند باندھنے والے عالم کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ انھی دنوں انھوں نے امریکی شہریت کے حصول کے لیے ’’ماہر تعلیم‘‘ کی حیثیت سے درخواست دی جو اس لیے نامنظور ہوئی کہ وہ خود کسی بڑے تعلیمی ادارے میں استاد ہیں نہ انہیں مروجہ تعلیم کی دنیا کا کوئی خاص تجربہ ہے۔ اس درخواست پر مزید یہ اعتراض بھی ہوا کہ درخواست گزار (مسٹر گولن) ایک بہت بڑی مذہبی جماعت کے رہنما بھی ہیں جو اپنے ساتھ کئی کاروباری سیٹ اپ بھی رکھتی ہے.

2. گولن تحریک کی دو پرتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ان کی تعلیمات کی روشنی میں ان کے چاہنے اور ماننے والے ان کو کسی نہ کسی درجہ میں امام مہدی تصور کرتے ہیں۔ دوسری یہ کہ وہ اپنے ماننے والوں کے نزدیک ایک ایسے منتظم کی حیثیت رکھتے ہیں جس نے عدلیہ، فوج اور پولیس سمیت تمام اداروں میں اپنا ایک ایسا خفیہ جال بچھا رکھا ہے جو میکاولی کے نظریہ مکاری کے مطابق خاص طور پر ترکی میں اپنے اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ان کے ماننے والے، پھر چاہے وہ عدلیہ، پولس یا جیسا کہ دیکھا گیا کہ فوج سمیت ملک کے جس بھی ادارے میں کام کرتے ہوں، ادارے کے نظام سمع و اطاعت کے بجائے اپنے اس روحانی رہنما کی بات ماننے کی طرف زیادہ مائل نظر آتے ہیں اور وہ اپنے ادارے یا ملک کے مقابلے میں اپنے رہنما کے ساتھ زیادہ وفادار رہتے ہیں۔

3. طاقت کے مراکز پر قبضہ جمانے کے حوالے سے فتح اللہ گولن خفیہ اور تدریجی عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ خود فرماتے ہیں: ’’آپ کو سسٹم کی رگوں میں اس خاموشی اور تسلسل کے ساتھ سفر کرتے رہنا ہوگا کہ کسی کو آپ کی موجودگی کا احساس تک نہ ہو اور یوں طاقت کے مراکز تک پہنچنا ہوگا. اس وقت تک جب تک کہ پھل پک کر تیار نہ ہوجائے، آپ کو انتظار کرنا ہوگا تا آنکہ آپ اپنا سفر مکمل نہ کرلیں اور حالات موافق نہ ہوجائیں۔ یہ اسی طرح ہوتا رہےگا جب تک کہ ہم اس مقام تک نہ پنہچ جائیں کہ جب دنیا کا وزن اپنے کندھوں پر اٹھانے کے قابل بن جائیں۔ آپ کو اس وقت تک یہ سب کچھ کرتے رہنا ہوگا جب تک کہ آپ ترکی کے تمام آئینی اداروں کی طاقت اپنے حق میں نہ کرلیں۔ اس سے قبل کوئی بڑا قدم اٹھانا، عجلت ہوگی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہوگا کہ انڈے کو وقت سے پہلے ہی پھوڑ دیا جائے اور چوزے کو اندر ہی مار دیا جائے۔

4. گولن نیٹ ورک نے امریکہ، برطانیہ اور ترکی میں بہترین لابنگ کمپنیوں کی خدمات مستعار لیں اور ان ممالک میں اپنا امیج بہتر بنانے اور کئی ہمدرد پیدا کرنے میں کامیاب رہا۔ امریکی حکومت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس نیٹ ورک کی مالی استعداد پچیس سے پچاس ارب ڈالر تک ہے اور یہ تحریک دنیا کے 125 ملکوں میں کام کر رہی ہے جس میں اسکولز اور ویلفیئر کے کئی ادارے شامل ہیں۔

5. گولن تحریک آج ہی نہیں، 1980ء کی دہائی سے ملکی اداروں کے لیے ایک خطرہ رہی ہے جب اس کے ماننے والوں کو تب کے حکمرانوں نے مختلف حیلوں بہانوں کے ساتھ ایک حد کے اندر رکھا۔ یہاں تک کہ مصطفیٰ کمال کی باقیات اور ترک افواج، جو کہ ایک عرصہ تک خود کو سیکیولرازم کے محافظ باور کراتے رہے تھے، نے بھی گولن تحریک کو اپنے لیے ہمیشہ خطرہ ہی تصور کیا۔ آج وقت نے ثابت کردیا ہے کہ اس تحریک کو ریاست کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے ایک حد کے اندر رکھنا، گزرے حکمرانوں کی دوراندیشی اور درست قدم تھا۔

6. جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (AKP) کا دس سالہ دور گولن تحریک کے لیے سنہرے دور کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب AKP کو ملکی سیاست سے فوج کے عمل دخل کو الگ کرنے کے لیے اتحاد کرنے کی ضرورت تھی۔ مگر اس اتحاد میں بھی گولن تحریک نے رنگ میں بھنگ ڈالے رکھا۔ سنہ 2010 میں AKP حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک سازش کا کیس بنا، جس میں ملٹری افسران، حزب مخالف کے ممبران اور کچھ صحافیوں پر الزام آیا کہ انھوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ گولن سے وابستہ پولیس کے کچھ عہدیداروں نے یہ من گھڑت کہانی تخلیق کی تھی اور افواہ پھیلا کر حکومت کو مس گائیڈ کیا تھا۔ اس ٹرائل کا نام Sledgehammer تھا۔ بعدازاں، 2015ء میں تمام ملزمان کو اس ٹرائل سے باعزت بری اور رہا کردیا گیا۔ اس کے بعد رجب طیب اردگان نے تسلیم کیا کہ انہیں گولن کے لوگوں نے غلط معلومات فراہم کی تھیں

7. روزنامہ حریت کے ایڈیٹر نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رواں ماہ وقوع پذیر ہونے والی ناکام فوجی بغاوت دراصل انہی فوجی افسران نے تیار کی تھی جو مندرجہ بالا Sledgehammer ٹرائل کے نتجہ میں معطل کیے گئے افسران کی کی طرف سے خالی کیے گئے عھدوں پر مقرر کیے گئے تھے۔ یہی دراصل وہ لوگ تھے جو گولن تحریک سے وابسطہ تھے اور انہی کو آگے بڑھانے کی خاطر اس سازش کا ڈرمہ تخلیق کیا گیا تھا۔ اس سے معلوم پڑتا ہے کہ اس بغاوت کی منصوبہ بندی اور تیاری بہت پہلے سے جاری تھی اور سنہ 2010 والی جعلی بغاوت دراصل رواں ماہ والی ناکام بغاوت کی تیاری تھی۔

8. اسی طرح جن صحافیوں کو اس سازش میں پھنسایا گیا تھا وہ بھی دراصل وہ صحافی تھے جو گولن تحریک کے ریاست کے اندر بڑھتے ہوئے اثر رسوخ اور اس کے عزائم سے پردہ اٹھا رہے تھے لہٰذا ان کو سبق سکھانے کے لیے ان کے نام بھی اس سازش میں ڈال دیے گئے۔

9. حالیہ ناکام بغاوت کا الزام گولن نیٹ ورک پر محض گمانی الزام نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ٹھوس شواہد موجود ہیں جن کو بدقسمتی سے ایک لمبے عرصہ سے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ احمد زکی یوکوک، جو کہ ایک ملٹری پراسیکیوٹر ہیں، نے سنہ 2009ء میں، ترک آرمی کے اندر گولن تحریک کے ایک وسیع نیٹ ورک کا پتہ چلایا تھا۔ انھوں نے آرمی کے اندر کئی خفیہ نیٹ ورکس کی نشاندہی کی تھی اور باقاعدہ افراد کے ناموں کے ساتھ تفصیلات بیان کی تھیں۔ مگر بدقسمتی سے وہ اپنا کام یوں مکمل نہ کرسکے کہ ان پر دو الزامات آ گئے۔ ایک تو ملزمان پر تشدد کرنے کا اور دوسرا وہی 2010ء والی جھوٹی بغاوت کیس (Sledgehammer) میں نام آنے کا۔ اس غریب نے پورے پانچ سال جیل میں گزارے اور رہا ہونے کے بعد گزشتہ اپریل میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ آرمی کے اندر ایک ایک گولنسٹ کو اس کے نام سے جانتا ہے۔ حالیہ بغاوت کے بعد اس کا کہنا ہے کہ اس بغاوت میں سوفیصد وہی لوگ ہیں جن کی لسٹ اس نے تیار کی تھی۔ حالیہ بغاوت کےدوران ایئرفورس کے جہازوں نے ترک پارلیمنٹ پر بمباری کی۔ اس ضمن میں وہ ایئرفورس کے ایک ریٹائرڈ کرنل Selçuk Başyiğit کے الفاظ دہراتے ہیں جو گولن تحریک سے وابستہ تھے اور جنھوں نے Sledgehammer والے جھوٹےبغاوت کیس میں عدالت میں بیان دیا تھا کہ اب ہم بہت طاقتور ہیں، ہمارے پاس اب ایف ۔16 اور ایف۔4 جہاز ہیں۔ اب ہم گولن کے حکم پر کہیں بھی بمباری کر سکتے ہیں۔ (یاد رہے کہ یہ بیان اس وقت دیا گیا تھا جب گولن، حکومت کے اتحادی تھے)۔

10. آخر میں یہ حقیقت کہ اس بارے میں ترک عوام، تمام کی تمام اپوزیشن پارٹیاں اور ان کے رہنما اور فوج کے وہ افسران جو بغاوت کا حصہ نہیں تھے، اس بات پر یکسو ہیں کہ یہ کام گولن نیٹ ورک والوں کے علاوہ کسی اور کا نہیں۔ پھر یہ کہ آرمی چیف کو یرغمال بنا کر ان کی گولن سے ٹیلی فون پر بات کروانے کی کوشش، یہ تمام وہ ثبوت ہیں جو اس خفیہ تحریک کو اس بغاوت کا ذمہ دار قرار دینے میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں چھوڑتے۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ آج ہی ترکی کے وزیر انصاف نے یہ بیان دیا ہے کہ بغاوت کی کامیابی کی صورت میں گولن اسی طرح ترکی آنا چاہتے تھے جیسے کسی زمانہ میں خمینی ایران آئے تھے۔(مترجم)

( ایزگی بساران (EZGİ BAŞARAN) کے اس مضمون کا ترجمہ ابومحمد مصعب نے کیا ہے. یاد رہے کہ ایزگی اردگان مخالف سیکولر اخبار نویس ہیں، سوشل لبرل ڈیلی Radikal کی کوارڈنیٹر تھیں جسے حکومت کی طرف سے بندش کا سامنا کرنا پڑا اور اب بھی Doğan Media Group گروپ کو بندش کا سامنا ہے، اس کے باوجود ان کے یہ خیالات کافی اہمیت کے حامل ہیں)