ہوم << ٹرانسجینڈر ایکٹ اور درپیش مسائل- ارسہ افتخار

ٹرانسجینڈر ایکٹ اور درپیش مسائل- ارسہ افتخار

ٹرانسجینڈرز وہ لوگ ہیں جو پیدائشی طور پر دی گئی جنس کے مخالف سمت چلتے ہیں یا اپنی پیدائشی دی گئی جنس سے ناخوش ہیں ایک مرد خود کو عورت کے روپ میں پسند کرتا ہے اور ایک عورت خود کو مرد کے روپ میں پسند کرتی ہے۔

مرد بچپن سے ہی ماں کی طرح دوپٹہ اوڑھنا لپسٹک لگانا شروع کر دیتا ہے جس پر اسے کافی مار پیٹ،ذہنی دباؤ کا سامنا بھی ہوتا ہے اور لڑکی خود کو بچپن سے ہی مرد محسوس کرنے لگتی ہے اور ان جیسا لباس ان جیسے احساسات اور ان جیسے جذبات رکھتی ہے۔ایسی تمام خصوصیات پائی جانے والوں کو ٹرانسجینڈرز کہا جاتا ہے۔
اب ہم آئیں گے ٹرانسجینڈرز ایکٹ کی طرف جس کی وجہ سے ملک میں بے حد تنازعہ پیدا ہو چکا ہے۔ جس میں ٹرانسجینڈرز کو بہت سے حقوق دیئے گئے ہیں جیسا سکولوں میں داخلے ،علاج معالجے کی سہولیات اپنی شناخت اپنی مرضی سے درج کرنا، ووکیشنل ٹریننگ پروگرام مہیا کرنا، انکو ہراساں کرنے کی صورت میں سزا،وغیرہ وغیرہ۔

ایک طرف مذہبی شدت پسند لوگ ہیں جنہوں نے حال ہی میں تین ہجڑوں کو قتل کر دیا دوسری طرف لبرل لوگ ہیں جو ٹرانسجینڈرز کے ساتھ ہیں۔ چلیں تھوڑی سی گفتگو ٹرانسجینڈرز کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر کر لیتے ہیں جی تو بچپن سے ہی ایک مرد لالی لپسٹک لگانا شروع کر دیتا ہے جس کی وجہ سے اسے گھر والے لوگوں سے چھپاتے ہیں،مار پیٹ کرتے ہیں اور کئی قسم کے طریقے استعمال کرتے ہیں کہ ان کا بیٹا عورتوں والی وضع نہ اختیار نہ کرے مگر ایک ٹرانسجینڈرز کے لیے ذہنی طور پر اس بات کو قبول کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔

اور سب سے بڑی بات ہمارے معاشرے میں زیادہ مشکلات کا سامنا ٹرانسجینڈرز میل کو ہی کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ میل ڈومینینٹ سوسائٹی ہے ماں باپ یا معاشرہ یہ کیوں برداشت کرے گا کہ ایک مرد خود کو عورت محسوس کرتا ہے، دوسری طرف بیٹیوں کو بیٹا سمجھنا ہم اخلاقی طور پر بہت اہم اور فخریہ بات سمجھتے ہیں،اکثر والدین کہتے ہیں یہ میری بیٹی نہیں بیٹا ہے سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر آپ اپنی بیٹی کو بیٹی کے طور پر قبول کیوں نہیں کر پا رہے کیا اس کو لیے مضبوط دِکھانے کے لیے اسکا مرد ہونا ضروری ہے۔

یہی وجہ ہے کہ معاشرہ اور والدین ایک مرد کو عورت کے احساسات اور جذبات کے ساتھ قبول کر ہی نہیں سکتے۔ ٹرانسجینڈرز ایک نہایت مظلوم طبقہ ہے خیبر پختونخوا میں 2015 سے لے کر اب تک چھپن خواجہ سراؤں کو قتل کر دیا گیا کے، اور دیگر علاقوں میں بھی یہی کچھ ہوتا آرہا ہے جو کہ اب بھی جاری ہے،بچپن سے ہی انہیں گھروں سے نکال دیا جاتا ہے بہت سے واقعات ایسے ہیں جس میں کسی خواجہ سرا نے ناچنے گانے کی بجائے پڑھنا لکھنا اور نوکری کرنا مناسب سمجھا مگر ہمارے معاشرے نے اسے مجبور کر دیا کہ نہیں بھئی آپ تو پیدا ہی ناچنے کے لیے ہوئے ہیں ناچیں،رقص کریں اور ہمیں بہلائیں، ملازمت اور کاروبار آپکے لیے نہیں بنے۔

ابھی چند دنوں پہلے کی ہی بات ہے ایک خواجہ سرا پولیس میں بھرتی ہوگیا جس پر خواتین نے شور مچا دیا کہ بھئی ہم ان کے ساتھ نہیں رہ سکتے، انہیں بے دخل کیا جائے۔ کبھی یہ سننے کو ملتا ہے کہ ان سے بدبو آتی ہے، کبھی چھیڑ چھاڑ اور زیادتی کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے، کبھی جائیداد سے بے دخل کر دیا جاتا ہے یہ مامتا اور بپتا دونوں رشتوں سے محروم رہتے ہیں۔ اگر کوئی والدین ساتھ رکھنا چاہیں بھی تو معاشرہ قبول نہیں کرتا، کبھی کبھار ان کے اپنے والد انہیں قبول نہیں کرتے، سکولوں میں داخلہ ممنوع ہے، طعنہ زنی، ہراساں کرنا یہ سب ان کے ساتھ روزمرہ کے پیش آنے والے معاملات ہیں۔

39 فیصد ٹرانسجینڈرز ذہنی دباؤ اور دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ ان پر تشدد کیا جاتا ہے اور انہیں قبول ہی نہیں کیا جاتا۔انہیں مارا پیٹا جاتا ہے، ہراساں کیا جاتا ہے،قتل کیا جاتا ہے، نوکریاں نہیں دی جاتیں، سکولوں میں داخلے پر طعنہ زنی کا شکار ہوتے ہیں۔ کئی ٹرانسجینڈرز خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کئی ذہنی دباؤ اینگزائیٹی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں کئی جینڈر ڈِسفوریا کا شکار ہوتے ہیں۔ان کو حقوق دینے پر عوام کا رد عمل اتنا خطرناک کیوں ہے آخر؟ اگر کسی مظلوم طبقے کو جینے کے حقوق مل رہے ہیں تو بحیثیت انسان آپکو اس بات سے کیا مسئلہ درپیش ہے کیا آپ اپنی بنیادی ضروریات پوری ہونے کی خواہش نہیں رکھتے، کیا آپ نے کبھی چاہا ہے کہ آپکو ہراساں کیا جائے بے جا تشدد کیا جائے؟

اگر نہیں تو پھر اس طبقے کے لیے آپکی سوچ اتنی گر کیسے چکی ہے؟احتجاج کرنا، حواجہ سراؤں کو مذہب کے نام پر قتل کرنے سے ملک میں محض بگاڑ پیدا ہوگا اس سے بہتر ہے کہ آپ بیٹھیں اور بیٹھ کر اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھیں۔ بحیثیت انسان کسی بھی انسان کے بنیادی حقوق کتنے اہم ہیں یہ جان لیں۔ اگر آپ کو ہم جنس پرستی کا خطرہ ہے تو ایسا خطرہ بھی کیوں،مذہبی شدت پسند خود مساجد میں بچوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں کیا آپکو نہیں لگتا کہ مدرسوں میں ہم جنس پرستی بے حد ہے؟کیا آپکو نہیں لگتا کہ آپکو تب بھی اتنا ہی احتجاج کرنا چاہیے جتنا آج کسی کو حقوق ملنے پر کر رہے ہیں؟ کیا آپکو نہیں لگتا کہ مساجد، خدا کی پناہ گاہیں ہیں وہاں یہ سب ہونا کس قدر بڑا جرم ہے تب کیوں آواز نہیں اٹھائی جاتی تب کیوں بہانے بنائے جاتے ہیں کہ جی یہ تو ہر جگہ ہوتا ہے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی ہوتا ہے تو پھر صرف مدرسوں کا نام کیوں لیا جاتا ہے؟کیا آپکو نہیں لگتا کے خدا کے گھر میں دین کے دعویدار یہ حرکات کرتے ہوئے زہر لگتے ہیں، منافق لگتے ہیں؟ انہیں معصوم بچوں کو اس لت کا شکار کرنے اور ان سے زیادتی کرنے پر سخت سے سخت سزائیں دینی چاہئیں۔

رہی ٹرانسجینڈرز ایکٹ کی بات تو اگر آپکو ہم جنس پرستی کا اتنا ہی خوف ہے تو آپ اس بات پر آواز اٹھا لیں کہ ہم جنس پرستی کو ملک سے مکمل طور ختم کیا جائے کیا خیال ہے اس طرح مدرسے میں موجود معصوم بچے بھی بچ جائیں گے اور آپکی شدت پسندی کی آگ بھی تھوڑی سی بُجھ جائے گی۔دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں اور بندہ ناچیز کی کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت کیونکہ
بات تو سچ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر بات ہے رسوائی کی