ایک معاصر کی خبر ہے کہ خان صاحب اب لانگ مارچ کے اعلان سے بچنا چاہتے ہیں۔ بچنا چاہتے کا ترجمہ راہ فرار اختیار کرنا بھی کیا جاتا ہے لیکن خان صاحب تو ٹھہرے بہادر آدمی، اکیلے ہی جنگ حقیقی آزادی کی قیادت کر رہے ہیں.
اس لئے راہ فرار کی پھبتی ان پر کسی ہی نہیں جا سکتی، بچنا چاہتے ہیں ہی ٹھیک ہے۔ رپورٹ میں ہے کہ حکومت سے درپردہ رابطوں میں وہ ”فیس سیونگ“ چاہتے ہیں۔ فیس سیونگ بیل کی دم کو کہا جاتا ہے جسے پکڑ کر گھر سے روٹھی لڑکی شام کو گھر آ گئی تھی، یہ کہتے کہتے کہ ارے بیل، مجھے زبردستی گھر نہ لے کر جاﺅ، میں نے گھر نہیں جانا.تو خبر کے مطابق خان صاحب حکومت سے بیل کی دم مانگ رہے ہیں لیکن حکومت کی کنجوسی دیکھئے، بیل کی دم پکڑا کر ہی نہیں دے رہی۔
بیل کی دم کیا ہے؟۔ یہ کہ حکومت اعلان کر دے کہ اپریل مئی یا چلیئے جون میں ہی الیکشن کرا دے ، میں کال نہیں دوں گا۔ حکومت کہتی ہے نہیں میاں، اب کال دے ہی ڈالو، ہم بھی دیکھیں کس میں کتنا ہے دم! ادھر شیخ رشید نے اطلاع دی ہے کہ خان کے لانگ مارچ میں لوگ پہاڑوں سے آئیں گے۔ کون سے جن اُتریں گے بھئی؟۔ جن پہاڑوں لتھے، نہ منہ نہ متھے والے؟۔ چلئے، اس سوال کو چھوڑئیے، یہ بتائیے پہاڑ کون سے ہیں۔ مارگلہ والے پہاڑ تو نہیں ہو سکتے کہ وہاں کے حساب سے تو حکومت کا پورا بندوبست ہے۔ کیا کوہ قاف کی طرف اشارہ ہے؟۔ ایسا تو ہونا مشکل ہے۔ کوہ قاف بہت دور ہے۔ ایران کے پار، ترکی کی سرحد پر، جہاں آذربائیجان ، آرمینیا، جارجیا اور داغستان ہیں۔ یہی ممالک کوہ قاف کہلاتے ہیں۔
ارے اب سمجھے۔ مراد وہ پہاڑ ہے جس پر بنی گالہ کا قلعہ ہے۔ شیخ صاحب یہاں تک تو ہم پہنچ گئے اب بھی فرما دیجئے کہ اس قلعے سے انسان اتریں گے یا جنات اور موکلات؟ شیخ صاحب نے سب کچھ صاف ہو جانے والے اعلان کی ڈیڈ لائن ایک بار پھر بڑھا دی ہے۔پہلے یہ ڈیڈ لائن 15 جون تھی، پھر جولائی کے پہلے دس دن، اس کے بعد اگست کی باری آئی، پھر کہا ستمبر ستمگر ہونے والا ہے، پھر دس اکتوبر کو قیامت برپا ہونے کی خبر آئی، اب اچانک بڑی زقند بھر کر فرمایا ہے کہ جنوری میں کچھ ہو گا۔ جنوری میں کچھ تو ہو گا۔ اور نہیں تو مری اور گلیات میں برف ضرور پڑے گی۔ کچھ تو ضرور ہو گا۔
یعنی کہ شیخ صاحب کی بعض پیش گوئیاں وقت سے پہلے بھی پوری ہو جاتی ہیں۔ ریکارڈ دیکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مارچ کے وسط میں ایک پریس کانفرنس کی تھی۔ فرمایا تھا، لکھ کر دیتا ہوں، اپوزیشن کی گیم صرف پچاس دن کی رہ گئی ہے۔ اور پیش گوئی محض 40 دن میں ہی پوری ہو گئی۔ یعنی اس کی تحریک عدم اعتماد اپریل ختم ہونے سے پہلے ہی کامیاب ہو گئی جبکہ شیخ صاحب کی دی گئی ڈیڈ لائن میں ابھی دس دن باقی تھے۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ صدر علوی نے عمران خان کے سازش والے بیانیے کو زمین بوس کر دیا۔
زمین بوس تو خود عمران خان کی لیک ہونے والی آڈیو نے کر دیا تھا، درست بیان یوں ہونا چاہیے کہ صدر علوی کے بیان نے عمران خان کے سازشی بیانیے کو زمین دوز کر دیا۔ بہرحال بڑا دلدوز سانحہ ہے، کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا والا ماجرا ہوا۔ خیر، صدر علوی نے وضاحت کی ہے کہ ان کا بیان سیاق و سباق کے بغیر اخبارات نے چھاپا۔ انہوں نے اپنی وضاحت میں اصل بیان بھی مذکور کیا جو ہوبہو وہی ہے جو اخبارات میں چھپا۔ لگتا ہے صدر علوی اپنی وضاحت میں سیاق و سباق ڈالنا بھول گئے یا شاید اِدھر اُدھر ہو گیا ہو، ڈھونڈنے میں مشکل ہو رہی ہو چنانچہ سیاق وسباق ڈالے بغیر ہی وضاحت جاری کر دی۔ غنیمت ہے، انہوں نے ٹی وی پر چلنے والی گفتگو کی تردید نہیں کی، ورنہ کہہ سکتے تھے کہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے میرا جعلی انٹرویو چلا دیا گیا ہے۔
کچھ لوگ معترض ہیں کہ صدر نے آرمی چیف کی تقرری پر مشاورت کا بیان دے کر آئین کی خلاف ورزی کی۔ تو کرتے رہیں، انہیں اسی آئین کا تحفظ حاصل ہے جس کی وہ مسلسل خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ بہرحال، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس لئے کہ جو تقرری ہونی ہے، فیصلہ اس کا ہو چکا ہے اعلان ہونے تک صدر صاحب دو چار خلاف ورزیاں کر ڈالیں، فرق ان سے بھی کوئی نہیں پڑے گا۔ میری چھٹی حس بہت تیز ہے۔ کل اس نے انگڑائی لی، نہیں کل نہیں ، پچھلے ہفتے کی بات ہے یا شاید دو دن پہلے کی؟۔ بہرحال، میری چھٹی حس نے انگڑائی لی، میں نے فوراً اپنے موکلات کو بلایا اور کہا، جلدی سے جا کر دیکھو چور اور ڈاکو کیا کر رہے ہیں۔ موکلات کچھ دیر بعد واپس آ گئے اور بتایا کہ وہ آپ کی وڈیوز بنا رہے ہیں۔ میں نے کہا کیسی وڈیوز، بولے بہت گندی گندی۔
میں چونک اٹھا اور پوچھا اصلی کہ ڈیپ فیک۔ موکلات خاموش رہے اور ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ آپ جانتے ہیں، خاموشی کا مطلب نیم رضا مندی ہوتا ہے۔ بلکہ یہ ”نیم“ تو فالتو ہے، اصل میں پوری رضامندی ہوتا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ میرے ڈیپ فیک ہونے کی تائید کر رہے ہیں۔ چنانچہ اے پاکستانیو، خبردار ہو جاﺅ، یہ چور اور ڈاکو میری گندی گندی ڈیپ فیک وڈیوز بنا رہے ہیں، ان کے جھانسے میں مت آ جانا۔ ورنہ مشرک ہو جاﺅ گے، باقی باتیں پھر، ابھی مجھے ضمانت کرانے جانا ہے جس کے بعد جیل بھرو تحریک چلانی ہے۔ سوات میں طالبان کی واپسی کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ طالبان سے مراد ٹی ٹی پی ہے، وہی، اے پی ایس پشاور کے سانحے والی۔ چند روز پہلے سکول کے بچوں پر ٹی ٹی پی کی فائرنگ کے بعد ان مظاہروں میں شدّت آ گئی ہے، سوات میں تو تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ ہوا جس سے اے این پی، پشتون موومنٹ اور جماعت اسلامی کے رہنماﺅں نے خطاب کیا۔
پی ٹی آئی کے لیڈر نے بھی خطاب کی خواہش کی لیکن مظاہرین نے موصوف کو بھگا دیا۔ ٹی ٹی پی اور پی ٹی آئی میں اعلانیہ تو نہیں، لیکن ”اعترافیہ“ اتحاد خاصے عرصے سے چل رہا ہے ،2013ءکے الیکشن کے زمانے سے۔ اب یہ اتحاد پی ٹی آئی کے لئے بلائے جان بن چکا ہے لیکن کمبل اب چھوڑنے والا نہیں۔ عوام ٹی ٹی پی کی صفائی میں کچھ سننے کے لئے تیار نہیں۔ پی ٹی آئی کے لئے ایک اور لمحہ¿ پریشانیہ۔
تبصرہ لکھیے