اس برس انسانوں نے انسانوں کے ساتھ جو کچھ کیا، اس کا حوصلہ تو حیوانوں کو بھی نہیں ہوتا۔ اس زمانے کو یاد کرتے ہوئے امرتا لکھتی ہیں ’’ میں نے لاشیں دیکھیں، لاشوں جیسے لوگ دیکھے۔ لاہور سے دہرہ دون آکر پناہ لی۔ ملازمت کے لیے اور دلی میں رہنے کے لیے میں دلی آئی۔
واپس جارہی تھی تو چلتی گاڑی میں نیند آنکھوں کے نزدیک نہیں پھٹک رہی تھی۔ گاڑی کے باہر کی گہری تاریکی، وقت جیسی اور تاریخ جیسی تھی۔ ہوا یوں شائیں شائیں کررہی تھی جیسے تاریخ کی آغوش میں بیٹھی کراہ رہی ہو۔ باہر اونچے اونچے پیڑ غموں کی طرح اُگے ہوئے تھے۔ کہیں پیڑ نہ ہوتے صرف ویرانی ہوتی اور اس ویرانی میں ٹیلے یوں لگتے جیسے قبریں بنی ہوں، اور وارث شاہ کے بول میرے ذہن میں گھوم رہے تھے ’’بھلا موئے تے وچھڑے کون میلے‘‘ اور مجھے محسوس ہوا کہ وارث شاہ کتنا عظیم شاعر تھا، وہ ہیر کے غم کو گا سکا۔
آج پنجاب کی ایک بیٹی نہیں، لاکھوں بیٹیاں رو رہی ہیں۔ آج ان کے غم کو کون گائے گا؟ اور اس لمحے مجھے وارث شاہ کے سوا اور کوئی ایسا نہ دکھائی دیا جس کو مخاطب کرکے میں یہ بات کہتی۔ اس رات بھاگتی ہوئی ٹرین میں ہلتے اور کانپتے ہوئے قلم کے ساتھ میں نے ایک نظم لکھی:
اج آکھاں وارث شاہ نوں، کتوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقا کھول
پاکستان میں فسادات پر بننے والی فلم ’’کرتار سنگھ‘‘ میں یہ نظم شامل کی گئی تھی۔
اک روئی سی دھی پنجاب دی
توں لکھ لکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں
تینوں وارث شاہ نوں کہن
اس نظم نے امرتا کو امر کر دیا۔ ان کی آواز برصغیر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیل گئی۔ یہ ہر اس بستی کی نظم ہے جہاں نسل ، رنگ یا مذہب کی بنیاد پر انسان ، انسانیت کے نام پر کلنک کا ٹیکہ بن جاتا ہے۔ پنجابی ادب میں اس نظم کی گونج تا دیر قائم رہے گی۔ اس نظم سے امرتا کا جو ادبی سفر شروع ہوا وہ آخری عمر تک جاری رہا۔ ان کی کہانیوں کے 15، شاعری کے 23 مجموعے اور 24 ناول شایع ہوئے۔ ان کی خود نوشت ’’رسیدی ٹکٹ ‘‘ کو بے پناہ پذیرائی ملی اور پنجاب کے بعض ادبی حلقوں نے ان پر شدید تنقید بھی کی۔ سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ان کی مشہور زمانہ نظم ’’ اج آکھاں وارث شاہ ‘‘ پر بھی پنجاب کے بہت سے اخبارات اور جرائد میں شدید اعتراضات ہوئے تھے۔
سکھوں کو اعتراض تھا کہ انھوں نے یہ نظم وارث شاہ کو مخاطب کر کے کیوں لکھی، اس میں انھیں اپنا اور پنجاب کی عورت کا دکھ درد گرو نانک سے کہنا چاہیے تھا۔ کمیونسٹ اس بات پر ناراض تھے کہ یہ نظم لینن یا اسٹالن کو مخاطب کر کے کیوں نہیں لکھی گئی۔ امرتا پریتم پاکستان کے پنجابی ادیبوں کی محبوب ہستی تھیں۔ یہ ممکن نہ تھا کہ کوئی دلی جائے اور حوض خاص میں ان کی چوکھٹ پر حاضر ی نہ دے۔ ان کی رخصت پاکستان کے پنجابی ادیبوں کے لیے ایک سانحہ ہے۔ اردو والے تو انھیں اردو کے بڑے ادیبوں میں شمار کرتے ہیں، سو ان کے لیے یہ اُن کی اپنی لکھنے والی کی ابدی جدائی کا صدمہ ہے۔ امرتا نے پنجابی (گور مکھی) میں ایک ادبی رسالہ ’’ ناگ منی‘‘ شروع کیا جو چند ہی شماروں بعد پنجابی ادب کی ایک توانا آواز بن گیا۔
اس میں چھپنا پاکستان کے پنجابی ادیبوں کے لیے ایک بڑی بات ہوتی تھی۔ یہ اعزاز میرے حصے میں بھی آیا کہ میری کہانی ’’ رنگ تمام خوں شدہ ‘‘ کو امرتا پریتم نے ’’ ناگ منی ‘‘ کے لیے منتخب کیا اور احمد سلیم نے اُسے گورمکھی میں منتقل کیا۔ ’’ ناگ منی‘‘ کا وہ شمارہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ امرتا پریتم نے آگ اور خون کا دریا پار کیا تھا۔ وہ عمر بھر امن کے لیے اور انسانوں کی سلامتی کے لیے لکھتی رہیں۔ یہ بھی انھوں نے ہی لکھا:
چاند سورج دو دواتیں ، قلم نے چونچ ڈبوئی
حکمرانوں! دوستو!
گولیاں، بندوقیں اور ایٹم بم بنانے سے پہلے یہ خط پڑھ لو
سائنس دانوں! دوستو
گولیاں، بندوقیں اور ایٹم بم بنانے سے پہلے یہ خط پڑھ لو
چاند سورج دو دواتیں، قلم نے چونچ ڈبوئی
گجرانوالے کی وہ کونج جو لکھتے ہوئے اپنا قلم چاند اور سورج کی دواتوں میں ڈبوتی تھی اور سنہرے روپہلے لفظ لکھتی تھی۔ لکھتے لکھتے چاند اور سورج سے بھی آگے چلی گئی ہے۔ ہمارے پاس اُس کے سچے لفظ اور تیکھی باتیں رہ گئی ہیں اور یہی ہمارا خزانہ ہے۔ امرتا پریتم نے اس کا اظہار خود ایک اور طریقے سے کیا ہے۔ جب مصور اندر جیت (امروز) ان کی زندگی میں آئے اور کچھ عرصے انھیں ممبئی میں، فلموں کے آرٹ ڈائریکٹر کی پیشکش ہوئی تو وہ بھی بہتر مستقبل کے لیے ممبئی چلے گئے۔ تب امرتا نے کرب سے لکھا ’’ایک پہلے مجھے چھوڑ کر ممبئی چلا گیا تھا، اب دوسرا بھی اچھے کل کے لیے میرا آج ویران کرگیا ہے۔‘‘
امروز واپس آگئے اور دونوں نے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔ اب اس زندگی میں نہ ساحر تھے نہ سجاد حیدر اور نہ دیوندر ستیارتھی۔۔۔۔۔ (یہ یکطرفہ عشق کرنے والوں میں سے تھے) ’’ رسیدی ٹکٹ ‘‘ کے علاوہ امرتا نے ساحر سے عشق کی کتھا ’’اک سی انیتا‘‘ میں بھی لکھی۔ یہاں ساحر، ساگر ہوگیا تھا۔ امرتا پریتم، اب امروز کی چھتری تلے آگئیں۔ یہ عجیب طرح کا سمبندھ اور سنجوگ تھا۔ نہ پھیرے ہوئے نہ بیاہ کی باقاعدہ رسم، لیکن عمر بھر اکھٹے رہے۔ میری ہندوستانی دوست اوماتر لوک نے امرتا، امروز کے عنوان سے انگریزی میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا دلی میں اردو ترجمہ بھی چھپ گیا۔
اس حوالے سے اور کئی دوسرے ذرایع سے پتہ چلا کہ سکھ برادری امرتا پریتم کے اس عمل پر کافی ناراض تھی اور ایک طرح سے ان کا سماجی بائیکاٹ (مقاطع) کر رکھا تھا۔ نوراج ، جسے امرتا پریتم نے ساحر لدھیانوی سے مشابہ لکھا ہے اور کہا ہے ’’ لوگ کہتے ہیں، یہ ساحر کا بیٹا ہے۔ نوراج بھی اس ’’ اطلاع ‘‘ سے رنجیدہ نہیں ہوتا، خوشی کا اظہار کرتا ہے، مگر وہ امرتا اور امروز کے رشتے (غیر سماجی اور غیر مذہبی) کو خوش دلی سے قبول نہیں کرتا۔
ممتاز ادیب حمید اختر نے میری کتاب ’’ ناکام محبت۔ ساحر لدھیانوی‘‘ کے دیباچے میں بھی لکھا اور مجھ سے اختلاف کیا ہے کہ امرتا آخر وقت تک ساحر سے پیار کرتی رہی تھی۔ میں سوال کرتا ہوں کیسے۔۔۔۔۔؟ اِدھر وہ امروز کو زندگی کا حاصل بنا چکی ہیں اور یہ کہتی ہیں ’’ ساحر ایک خواب تھا۔۔۔۔۔ امروز تعبیر ہے۔۔۔۔۔‘‘ تو پھر یہ پیار اور عشق تو نہ ہوا نا۔۔۔۔۔ ساحر لدھیانوی نے ایک سے زیادہ دائمی سنگت کی کوشش کی تھی۔ اپنی ماں کے انتقال کے بعد تو وہ اور بھی تنہا ہوگیا تھا۔
ساحر لدھیانوی کو جب پدم بھوشن ایوارڈ ملا اور وہ اسے وصول کرنے دلی آیا تو امرتا کو فون کیا۔۔۔۔۔ امرتا پریتم گئیں، لیکن یوں کہ۔۔۔۔۔ ساتھ لیے رقیب کو۔۔۔۔۔ امروز ساتھ تھے۔۔۔۔۔ اور پھر بہت کم وقت گزارا اور دونوں ، امرتا اور امروز، اٹھ کر چلے آئے۔ امرتا نے ’’ رسیدی ٹکٹ ‘‘ میں لکھا ہے۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد ساحر کا فون آیا۔ ’’ تم چلی گئیں میں وسکی پیتا رہا اور ایک نظم ہوگئی۔۔۔۔۔ سن لو۔۔۔۔۔‘‘
محفل سے اٹھ جانے والو، تم لوگوں پر کیا الزام
تم آباد گھروں کے باسی ، میں آوارہ اور بدنام
میرے ساتھی خالی جام
مگر۔۔۔۔۔ امروز سے قربت اور اپنی محبت کی نصرت کے باوجود امرتا کے بھیتر کی بے کلی اور اضطراب ختم نہیں ہوا۔ شاید ایسی شخصیات کے لیکھ یہی ہوتے ہیں۔ کشمکش میں رہیں، بے سکون رہیں اور عظیم ادب تخلیق کرتی رہیں۔ امرتا پریتم کی نظمیں دیکھ لیں۔۔۔۔۔ ’’میرا کمرہ‘‘ پڑھ لیں۔۔۔۔۔ تڑکے گھڑے دا پانی یا اور بھی کسی نظم کو پرکھ لیں، ایک بے چارگی، تنہائی اور نارسائی کا احساس نمایاں ملے گا۔ امرتا پریتم عالمی امن اور عالمی بھائی چارے کی داعی امرتا پریتم۔۔۔۔۔ پراگ شہر کے لوگوں کے ساتھ تھی۔ اس نے لکھا:
آج میں نے اپنے گھر کا نمبر مٹا دیا ہے
گلی کا نام اور سڑک کا نشان بھی ختم کر ڈالا ہے
اب اگر تم مجھے ڈھونڈنا چاہو
تو دروازے کھٹکھٹاتے رہو
ہر گلی، ہر شہر، ہر ملک میں جاؤ
جہاں تمہیں کہیں کوئی آزاد روح مل جائے
سمجھنا
وہی میرا گھر ہے
تبصرہ لکھیے