ہوم << سقوط غرناطہ - ڈاکٹر ساجد خاکوانی

سقوط غرناطہ - ڈاکٹر ساجد خاکوانی

’’غرناطہ‘‘مرحوم اسلامی اندلس کا آخری شہر تھاجسے عیسائی افواج نے تاراج کیا۔’’غرناطہ‘‘ایک شہر نہیں بلکہ عظیم الشان تہذیب وتمدن اور قرطاس ارضی پر انسانی تاریخ کاان مٹ استعارہ ہے۔فرزندان توحیدنے کم و بیش آٹھ سوسال یورپ کے اس خطے’’اسپین‘‘پر حکومت کی۔

مسلمان جب یہاں پہنچے تو اس خطے سمیت پورایورپ بدتمیزی،جہالت،لاعلمی،ظلم و تعدی،خلاف انسانیت اجتماعی رویوں اور بدتہذیبی کامرکزبناہواتھا۔کوسوں دوراز شرق تاغرب اورقرنوں اورنسلوں اورصدیوںتک کوئی پڑھا لکھا شخص نہیں ملتا تھابلکہ اپنی جہالت اور کم علمی پر لوگ ناز کیا کرتے تھے،حکمران طبقے کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھابادشاہ اپنے شاہی خانوادوں سمیت تعلیم سے نابلد ،انسانیت سے عاری اور مرقع جہالت ہوا کرتے تھے ،انسانوں کے خاندان کے خاندان اور قبیلے کے قبیلے سالہاسال گزرجانے کے باوجود نسل ہانسل تک کوئی پڑھا لکھا شخص پیدا نہیں کرپاتے تھے۔صدیوں کے اس طویل دورانیے میں یورپ نے کوئی قبل ذکر فلسفی یا دانشور پیدا نہیں کیا اور نہ ہی کسی ایک دو کتابوں کاہی پتہ ملتا ہے جو تاریخ کے اس دور میں یورپ میں تدوین کی گئی ہوں۔

اہل مذہب اس پر مستزاد تھے،کلیسا نے تعلیم و تعلم پر پابندی لگا رکھی تھی،قدیم روم اور قدیم یونان کے عظیم الشان کتب خانے اور فلاسفہ کی تحریریںاور انکا علمی وتہذیبی و ثقافتی سرمایاتہہ خانوں میں بند ہوکر دفن ہوچکاتھااور ہر تخت نشین ہونے والا بادشاہ اہل کلیساکو خوش کرنے کے لیے ان تہہ خانوں کے دروازے پر اپنے نام کا سب سے بڑا تالا لگادیتا تھا۔کلیسا نے غسل کرنے کو گناہ قرار دے رکھاتھااورپڑھنالکھناتھا چنانچہ اس آسمان نے وہ وقت بھی دیکھا جب میل ،کچیل ،کیچڑ،گندگی اور بدبو کی سڑاندسے بھرے ہوئے لوگ یسوع مسیح کے لاڈلے اورمقربین خداوندسمجھے جانے لگے اور ناپاکی و غلاظت اورآلودگی وگندگی اور عریانیت اہل مذہب کی پہچان بن گئی۔

انسانیت کی نجات دہندہ مسلمان افواج بحری جہازوں پر سوار ہوکر اسپین کے ساحلوں پر اتریں اور انہوں نے سپہ سالارطارق بن زیاد کی قیادت میں یہاں پرسنہری دورکاآغازکیا۔اس ساحل کو اسی مسلمان کماندار کے نام سے تاریخ نے اپنی کتابوں میں محفوظ کیاہے اور اسے ’’جبل الطارق‘‘سے موسوم کیا۔سیکولرانگریزوں کے تعصب نے اسکو بگاڑ کربدل دیا اوراب اسے ’’جبرالٹر‘‘کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔عقلمند لوگوں نے طارق بن زیاد کو مشورہ دیاکہ جہازوں کا رخ الٹا کر انہیں تیار کھڑاکیاجائے تاکہ دیاردشمن سے بھاگناپڑے تو تاخیر نہ ہو۔

طارق بن زیاد نے اس وقت جو حکم دیاوہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھاگیاہے،اس نے جہازوںپر تیل چھڑک کران کو نذرآتش کروادیا اور افواج کوخطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب واپسی کے راستے مسدود ہوچکے ہیں لڑو اور فتح یاشہادت میں کسی ایک کاانتخاب کرو۔مسلمان سپاہ نے اسپین کوفتح کیا اوراس خطہ ارضی کو’’اندلس‘‘کی پہچان عطاکی،اور اس ملک میں شاندار حکومت قائم کی ،بہت مضبوط بنیادوں پر وہاں کا تعلیمی نظام قائم کیا۔اس تعلیمی نظام کی بدولت اندلس میں ایک زمانے میں شرح خواندگی سوفیصد تک پہنچ رہی تھی۔اندلس میں مسلمانوں نے ایسے ایسے تعلیمی ادارے بنائے جن کاشہرہ پوری دنیامیں پہنچا اور ا ن مادران علمی سے فارغ التحصیل ہونے والوں کی گونج عصری ترقی یافتہ بین الاقوامی اداروں میں بآسانی سنی جاسکتی ہے۔

جامعہ قرطبہ اس وقت دنیا کی سب سے اعلی علمی آماجگاہ تھی،دنیائے عیسائیت کے دو پوپ ،جو اس مذہب کاسب سے بڑا پروہت ہوتا ہے ،انہوں نے جامعہ قرطبہ سے تعلیم حاصل کی تھی۔اس جامعہ میں داخلے کے لیے کسی قوم ،علاقے یا مذہب کی قید نہ تھی دنیا بھر سے آنے والے تشنگان علم و فن یہاں فیض علم سے بہرہ ور ہوتے تھے اورعالمی وتاریخی نابغہ روزگارہستیاں یہاں معلم کے فرائض پرمامورتھیں۔عبدالرحمن ثالث جو اندلس کا تاریخ بادشاہ گزرا ہے اس نے بغداد سے یہودی طبیب ہشدے بن شبروت کو بلوایا جس نے قرطبہ میں یہودیوں کا طبی تعلیمی ادارہ کھولا۔

اعلی تعلیم یافتہ افراد ،شاعر،ادیب،فلسفی،ماہرین طب و طبعیات و کیمیادان ،ماہرین ہندسہ وفلکیات ولسانیات وغیرہ اندلس کے مسلمان بادشاہوں سے بھاری بھاری وظائف پاتے تھے اورکسی خاص کارنامے یا تالیف کتب پرانہیں خاص انعامات سے بھی نوازاجاتاتھا،بادشاہان وقت ہر اہم مسئلے میں اہل علم و دانش کو شریک مشورہ کرتے۔ابن عربی،عبدالرحمن ابن خلدون اور ابن حزم جیسے مشاہیرعالم اسی دیس کے باسی تھے۔اندلسی کتب خانوںکے تذکرے آج تک کی علمی دنیاؤں میں زندہ ہیں،بڑے بڑے رؤسااپنے گھروں کے اندر ایک ہی رنگ کے کتب خانے بناتے تھے جیسے کسی نواب کے گھرسے نیلاآسمان اورنیلاسمندرنظرآتاتواس نے نیلے رنگ کاکتب خانہ بنایا ،کتابوں کی جلدیں ،عمارت کارنگ،فرنیچر کی پالش،قالین،گدے اور تکیے تک سب کچھ نیلے رنگ کاہوتاوغیرہ۔اور ہرہرکتب خانے میں سینکڑوں نہیں ہزارہا کتب ہوتی تھیں جبکہ شاہی کتب خانوں میں کتب کی تعداد لاکھوں تک ہوتی تھی۔

کتب خانوں کے اندر ایک کمرہ موسیقی کے لیے مخصوص ہوتا تاکہ تھکاوٹ دور کی جاسکے۔کتب خانوں میں مطالعہ کرنے والے دوردراز سے آتے اور کئی کئی دن قیام کرتے اس دوران انکے قیام و طعام اور کاغذ،قلم اور چراغ وغیرہ سب کچھ میزبان کی طرف سے دیا جاتا۔نوابین جب ملتے تو کتب کی کثرت اور مہمانوں کی کثرت وآمد پر باہم فخر کرتے تھے۔بادشا اس حد تک علم دوست تھے کہ جس کسی کو بادشاہ سے کوئی کام ہوتا تو وہ سفارش یا مہنگے تحفے پیش کرنے کی بجائے کوئی نادر کتاب پیش کر دیتا اور یہ عمل بادشاہ کو اس قدرخوش کر دیتا کہ اس سائل کاکام آسانی سے ہوجاتا۔

کتابوں کی نقل تیارکرنے والے ’’نساخ‘‘کہلاتے تھے ،ہر ہر نساخ نے سوسو شاگرد بٹھا رکھے ہوتے اگر کوئی طالب علم ہزار صفحوں کی ضخیم کتاب بھی لے کر جاتا اور کہتا کہ مجھے آج شام کے بحری جہاز سے قاہرہ روانہ ہونا ہے اور اس کتاب کی نقل تیار کر دیجئے تو نساخ اسے کہتا نمازپڑھ کر لے جائے گا۔اس دوران وہ نساخ کتاب کی جلد کھول کر اسکے اجزا اپنے شاگردوں میں برابربانٹ دیتا،یہ نوجوان برق رفتاری سے کتاب کی نقل تیارکرتے آج اتنی رفتار سے لوگ پڑھ نہیں سکتے جتنی تیزی سے وہ لکھ لیاکرتے تھے،تآنکہ نماز سے واپسی پردونوں کتابیں اصل اور نقل نئی جلد میں تیار ہوتیں۔ قرطبہ کے جنوبی محلے میں ایک سو ستر کے لگ بھگ خواتین خط کوفی میں قرآن لکھا کرتی تھیں،ان خواتین کا خط نہایت عمدہ ہوتا تھا اور مردوں کی نسبت سستے ہدیے پرقرآن کا نسخہ فراہم کر دیتی تھیں۔

قرطبہ اندلس کا دارالحکومت رہا ہے اس کے علاوہ غرناطہ،اشبیلیہ،ملاغنہ اور دانیہ سمیت کتنے ہی خوبصورت شہر اس دور میں اسلامی تہذیب و تمدن کی آماجگاہ تھے۔اسلامی اندلس میں ہر دوشہروں کے درمیان پکی سڑکیں تھیں اور مسافر دو کوس بھی نہ چلنے پاتا تھا کہ اسے کوئی مسافرخانہ مل جاتاجہاں اسلی مفت خدمت کی جاتی تھی۔سڑک کے دونوں طرف پھل دار درختوں کی لمبی لمبی قطاریں تھیں۔شہروں میں بھی پتھر کی پختہ سڑکیں تھیں ہر گھر والے شام کو رات بھر کے لیے ایک چراغ روشن کردیتے تھے جس سے گلیاں اور پھر پورا شہر روشن روشن رہتا،دن نکلنے پر ایک گدھاگاڑی والا ہر ہر گھر سے کوڑا اکٹھا کر لیتا۔ہر ہر گھر تک پانی کی فراہمی اور نکاسی آب اورصفائی کا بہترین نظام تھا۔اندلس میں مسلمانوں کے زوال کے بعد تین سو سال تک جرمنی،اٹلی اور فرانس کے شاہی درباروں میں مسلمانوں کی تدوین کردہ کتب کے یورپی زبانوں میں ترجمے ہوتے رہے،اس مقصد کے لیے وہاں کے بادشاہوں نے بھاری تنخواہوں پر عربی زبان کے ماہرین تعینات کررکھے تھے جنہوں نے سینکڑوں یا ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کتب کا عربی سے یورپی زبانوں میں ترجمہ کیا۔

ان تراجم کے بعدیورپ اس قابل ہو سکا کہ وہ سائنس کے میدان کوئی کارہائے نمایاں سرانجام سے سکے۔مورخین نے ایسے شواہد بھی پیش کیے ہیں جن سے متعصب سیکولریورپیوں کی بددیانتی ثابت ہوتی ہے کیونکہ مسلمانوں کی کتب کی کتب کو یورپیوں نے ترجمہ کر کے تو انکو اپنے نام سے منسوب کرلیا اوراندلسی مسلمانوں کی کئی ایجادات تک کوانہوں نے اپنی تحقیق کا نتیجہ قرار دے دیا۔اتنے بڑے پیمانے پر تراجم اور سرقہ کے باوجود آج تک مزکورہ ملکوں کے عجائب گھروں کے تہہ خانے مسلمانوں کی لکھی گئی ان کتب سے بھرے پڑے ہیں جن پراب تک کوئی کام نہیں ہوا۔آٹھ سوسالہ دور اقتدار میں مسلمان اقلیت میں رہے اور افسوس کی وہاں مسلمانوں کی مقامی نسل تیار نہ ہو سکی ۔

مسلمانوں کے باہمی قبائلی جھگڑے اور اقتدار کی رسہ کشی نے انہیں اندر سے کھوکھلا کر دیا۔ہر مشکل وقت میں مشرق سے کمک آجانے پر وہاں کے مسلمان اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہوئے اور ان میں مقابلہ کے لیے اعتماد نفسی ہمیشہ قلت کاشکاررہا۔زن زر اور زمین نے وہاں کے مسلمانوں کو تیزی سے روبہ زوال کرنا شروع کر دیا۔بڑی ریاستوں کے امرا کی سپاہ انکی حرم کی عورتوں سے بھی کم ہوتی تھی اور آہستہ آہستہ ان کے اندر کم علمی،احساس برتری اور تکلفات اس حد تک در آئے کہ قانون خداوندی نے وہاں سے مسلمانوں کا بوریہ بستر گول کر دیا۔

مسلم اقتدارکے خاتمے کے بعد عیسائیوں نے اندلس کی مسلمان آبادی پر اسی طرح ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور انکی نسل کشی کی جس طرح انسانیت سے عاری سیکولر افواج نے بوسنیا ہرزگوینیا،افغانستان،عراق،شام،فلسطین اوراریٹیریا میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہائیںاورآج بھی سیکولرسپاہ پوری دنیا میں درندگی ،سفاکی اور بے رحمی اورانسانیت سوزحیوانی رویوں کی خونی تاریخ رقم کر رہی ہیں،بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے۔