ہوم << پولیس کے مسائل اور انکا حل- محمد احمد چشتی

پولیس کے مسائل اور انکا حل- محمد احمد چشتی

مسٹر الفنسٹن نے اپنی تاریخ میں شیر شاہ سوری کی عدالت کا ایک حیرت انگیز واقعہ لکھا ہے کہ شیر شاہ کا منجھلا لڑکا عادل خان ایک دن ہاتھی پر سوار ہوکر آگرہ کی کسی گلی سے جارہا تھا، ایک مہاجن کی عورت،جو حسین جمیل اور خوبصورت تھی.

اپنے آنگن میں نہا رہی تھی، اس کے گھر کی چار دیواری نیچی تھی، اسی لیے عادل خان جو ہاتھی پر سوار تھا اس کی نظر اس عورت کے جسم پر پڑ گئی،وہ اسے دیکھنے لگا اور پان کا ایک بیڑہ بھی اس کی طرف پھینکا اور اس کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا، وہ عورت پارسا اور باحیا تھی، ایک نامحرم کے بے پردگی کی حالت میں دیکھ لینے کو برداشت نہ کرسکی اور خود کشی کرنے لگی، اس کے اعزہ واقارب اور شوہر نے بڑی مشکل سے اسے خود کشی سے روکا اور اس کا شوہر پان کا وہ بیڑہ لے کر شیر شاہ سوری کے دربار میں حاضر ہوا، جہاں وہ عوام کی شکایتیں سن رہے تھے، اس نے اپنی عزت وناموس کی درد بھری روداد شیر شاہ سوری کے گوش گزار کی، اس واقعہ کو سن کر شیر شاہ سوری بہت رنجیدہ ہوئے، دیر تک افسوس کرتے رہے، پھر حکم دیا کہ یہ مہاجن اسی ہاتھی پر سوار ہوکر عادل خان کے گھر آئے اور عادل کی بیوی اسی طرح برہنہ کرکے اس کے سامنے لائی جائے اور یہ مہاجن اس کی طرف بھی پان کا بیڑہ پھینکے۔

ایسا انصاف جو اپنے دل پر پتھر رکھ کر اپنے ہی خلاف اور اپنے گھر کی عزت وناموس کی پرواہ کیے بغیر دیا گیا ہو، شاید ہی کہیں ہمیں ملے؛چنانچہ یہ حکم سن کر پورا دربار کانپ اٹھا، امراء اور اراکینِ سلطنت نے عادل خان کے ناموس کی حفاظت کے لیے سفارش کی؛مگر شیر شاہ سوری نے پوری متانت کے ساتھ جواب دیا کہ میں ایسے موقع پر کسی کی سفارش قبول کرنا ہرگز نہیں چاہتا؛میری نگاہ میں میری اولاد اور رعایا دونوں مساوی ہیں،میری اولاد ایسی گھٹیا حرکت کرے اور میں اس کے ساتھ روا داری کروں، یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔اس مہاجن نے جب عدل وانصاف کایہ فیصلہ سنا اور ایسا عدل،جو اس کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا،تو وہ شیر شاہ سوری کے قدموں میں پڑگیا اور اس نے خود عاجزی اور اصرار کے ساتھ درخواست کی کہ یہ حکم نافذ نہ کیا جائے میں اپنے دعوے سے دست بردار ہوتا ہوں۔اسی طرح ہمارے اسلاف کے انصاف کی بے شمار مثالیں موجودہیں۔ مکمل انصاف فراہم کرنے اور کڑے احتساب و سزا کے بغیر جرائم کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اکثر مجرم طاقتورہیں، انہیں اندازہ ہے کہ وہ سزا سے بچ جائیں گے اور کوئی انکا احتساب نہیں کر سکے گا۔

تھانہ شیدانی کی حدود میں آئے روز وارداتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔چور اتنا دلیر ہو گئے ہیں کہ وہ چوری کرنے کے بعد مار دھاڑ بھی کرتے ہیں اور بائیک وغیرہ نہ دینے پر بے عزت بھی کرتے ہیں۔ چور،قیمتی زیورات، موٹر سائیکل، اور قیمتی جانوروں سمیت جو ہاتھ لگتا ہے چوری کر لیتے ہیں۔پہلے زمانے کے چور بھی خاندانی اور معززہوا کرتے تھے جو کسی بندے کے جاگ جانے، خواہ وہ عورت ہو یا بچہ وہ چپ کر کے اپنی راہ لیتے تھے اور غریب کی چوری نہیں کرتے تھے۔ بد قسمتی سے اب چور یہ نہیں دیکھتے کہ یہ بیوہ کا گھر ہے، کسی غریب کا گھر ہے یا کسی یتیم کا۔ چور کی پشت پناہی ہمیشہ مقامی افراد کرتے ہیں۔ چونکہ چور دور دراز کے علاقوں سے آتے ہیں تو یہ مقامی افراد انہیں رہنے کیلئے جگہ اور سہولت کاری مہیا کرتے ہیں۔ تھانہ شیدانی کیساتھ ملحقہ علاقوں میں زیادہ تر کچے کا علاقہ آتا ہے تو یہ چور کچے کی طرف روپوش ہو جاتے ہیں۔ تھانہ شیدانی کی نفری بہت کم ہے جسکا چور بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور پولیس بھی مجبور ہے کہ وہ موقع پر نہیں پہنچ پاتی یا ہر مشکوک جگہ پر ناکے نہیں لگا سکتی۔

ھر کوئی پولیس پر تنقید کرتا ہے اور پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھاتا ہے مگر پولیس کے مسائل کا اندازہ بہت کم لوگوں کو ہے۔ یقیناً پولیس جیسی سخت ڈیوٹی دینا اور اپنی جان جوکھوں پر رکھتے ہوئے عوام کیلئے جاگنا بہت مشکل کام ہے۔ یوں تو آئینی و قانونی لحاظ سے پولیس کے کاغذاتی اختیارات تو بہت ہیں مگر ان اختیارات پر عملدرآمد کے درپے خود باقی محکمے ہیں جو پولیس کے کاموں میں مداخلت کرتے ہیں۔ محکمہ مال،محکمہ صحت، محکمہ جنگلات سمیت غرض کوئی بھی محکمہ ہوہر کوئی پولیس پر اپنا کام ڈالتاہے اور عام عوام بھی پولیس پر ہی غصہ نکالتی ہے۔ اگر کوئی پولیس آفیسر کام کرنے سے انکار کر دے تو یہی مقامی و سیاسی لوگ پولیس کا جینا محال کر دیتے ہیں۔ ایک پولیس والے کی ڈیوٹی کا کوئی ٹائم فریم نہیں، وہ چوبیس گھنٹے بھی ڈیوٹی کرتا ہے جبکہ باقی محکموں میں صرف آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کا ٹائم فریم ہے۔ ایک تھانے سے ملحقہ علاقہ بہت وسیع ہوتا ہے جبکہ نفری بہت کم۔ پولیس کس کس جرم کا خاتمہ کرے۔

اکثر کہا جاتا ہے کہ پولیس با اثر ملزمان کو نہیں پکڑتی،پولیس کا ہاتھ صرف کمزور ملزم پر پڑتا ہے۔ مگر جب پولیس منشیات فروشوں، عقوبت خانوں اور جرائم زدہ لوگوں کے گرد گھیرا تنگ کرتی ہے تو بڑے بڑے سیاستدانوں سمیت بااثر افراد انکو چھڑا کر لے جاتے ہیں۔ایک پولیس اسٹیشن پر پولیس وین اتنی کم ہوتی ہیں کہ وہ 15 کی کال کے بعد فوراً جائے وقوعہ پر نہیں پہنچ سکتیں اور حکومت کی طرف سے فی وین فیول بھی بہت کم فراہم کیا جاتا ہے۔ پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے پولیس کی نئی اور میرٹ پر بھرتیاں کرنی ہوں گی۔ پولیس میں سیاسی مداخلت ختم کرنی ہو گی۔ پولیس کی نفری زیادہ ہو گی توہر پولیس اہلکار صرف آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کرنے کا پابند ہو گا جس سے پولیس اہلکار تازہ دم اور صحت مند رہیں گے۔ پولیس میں چھٹیوں کی بھی پالیسی بنانی ہو گی۔ہر سال ہر پولیس اہلکار کی تین ماہ ٹریننگ کا نظام مرتب کرنا ہو گا جس سے پولیس اہلکاروں کی فزیکل فٹنس برقرار رہے گی۔ پولیس کو جدید اسلحہ اور جدید ٹریننگ بھی فراہم کرنا بے حد ضروری ہے۔

دوسری طرف سے پولیس کو بھی اپنے نقائص دور کرنے ہونگے۔ ایک پولیس آفیسر ایماندارہو گا تو کرپٹ افراد اسکے قریب بھی نہیں آئیں گے۔ اکثر پولیس کا رویہ بد اخلاقی پر مبنی ہوتا ہے۔ پولیس کا سلوگن تو یہ ہے''پولیس آپ کی دوست ہے''۔ اس سلوگن کو حقیقی بنا کر اس پر عملدرآمد کرنا ہو گا۔ یقینا پولیس کو دور سے دیکھ کر خوف آتا ہے کیونکہ پولیس اکثر طور پر ہراساں کرتی ہے۔ پولیس تو ہماری عزت کی محافظ ہے مگر یہی پولیس اکثر چادر و چار دیواری کے تقدس کا خیال نہیں کرتی۔ جو بھی ہو ملزم کو گرفتار کرنے کا قانونی طریقہ یہ ہے کہ وارنٹ گرفتاری دکھائے جائیں یا اگر ملزم بدتمیزی کرنے پر آ جاتا ہے تو اسے اسکی زبان میں سمجھانا کوئی غلط نہیں ہے۔

بہرحال پولیس ہماری دوست ہے، یہ وہ واحد محکمہ ہے جسکا عوام سے ڈائریکٹ رابطہ ہوتا ہے۔ عوام کو بھی پولیس کی عزت کرنی ہو گی۔ پولیس کو خود کو بااخلاق بنا کر عوام دوست بننا ہو گا تا کہ عوام بھی پولیس کو ہمدرد سمجھ کر اپنے دکھ درد بانٹ سکے۔