ہوم << پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی پیاری باتیں- محمد اکرم چوہدری

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی پیاری باتیں- محمد اکرم چوہدری

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ ایک غزوہ میں شریک تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا اپنے اونٹ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے۔

کیا تم اسے بیچو گے؟ میں نے کہا ہاں، چنانچہ اونٹ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو بیچ دیا۔ اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم مدینہ پہنچے۔ تو صبح اونٹ کو لے کر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اس کی قیمت ادا کردی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو کوئی نہ دینے کے لیے لے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو تباہ کر دے گا۔

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جب دیکھا، آپ کی مراد احد پہاڑ (کو دیکھنے) سے تھی۔ تو فرمایا کہ میں یہ بھی پسند نہیں کروں گا کہ احد پہاڑ سونے کا ہوجائے تو اس میں سے میرے پاس ایک دینار کے برابر بھی تین دن سے زیادہ باقی رہے۔ سوا اس دینار کے جو میں کسی کا قرض ادا کرنے کے لیے رکھ لوں۔ پھر فرمایا، (دنیا میں) دیکھو جو زیادہ (مال) والے ہیں وہی محتاج ہیں۔ سوا ان کے جو اپنے مال و دولت کو یوں اور یوں خرچ کریں۔ ابوشہاب راوی نے اپنے سامنے اور دائیں طرف اور بائیں طرف اشارہ کیا، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا یہیں ٹھہرے رہو اور پھر نبی کریم ؐ تھوڑی دور آگے کی طرف بڑھے۔

میں نے کچھ آواز سنی (جیسے آپ ؐ کسی سے باتیں کر رہے ہوں) میں نے چاہا کہ آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا یہ فرمان یاد آیا کہ یہیں اس وقت تک ٹھہرے رہنا جب تک میں نہ آجاؤں اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تشریف لائے تو میں نے پوچھا یا رسول اللہ! ابھی میں نے کچھ سنا تھا۔ یا میں نے کوئی آواز سنی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا، تم نے بھی سنا! میں نے عرض کیا کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے تھے اور کہہ گئے ہیں کہ تمہاری امت کا جو شخص بھی اس حالت میں مرے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ میں نے پوچھا کہ اگرچہ وہ اس طرح (کے گناہ) کرتا رہا ہو۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے کہا کہ ہاں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے اپنے قرض کا تقاضا کیا اور سخت سست کہا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے اس کو سزا دینی چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ اسے کہنے دو۔ صاحب حق کے لیے کہنے کا حق ہوتا ہے اور اسے ایک اونٹ خرید کر دے دو۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اس کے اونٹ سے (جو اس نے آپ کو قرض دیا تھا) اچھی عمر ہی کا اونٹ مل رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ وہی خرید کے اسے دے دو۔ کیونکہ تم میں اچھا وہی ہے جو قرض ادا کرنے میں سب سے اچھا ہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تب بھی مجھے یہ پسند نہیں کہ تین دن گزر جائیں اور اس کا کوئی حصہ میرے پاس رہ جائے۔

سوا اس کے جو میں کسی قرض کے دینے کے لیے رکھ چھوڑوں۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ ایک شخص کا انتقال ہوا (قبر میں) اس سے سوال ہوا، تمہارے پاس کوئی نیکی ہے؟ اس نے کہا کہ میں لوگوں سے خریدو فروخت کرتا تھا۔ (اور جب کسی پر میرا قرض ہوتا) تو میں مالداروں کو مہلت دیا کرتا تھا اور تنگ دستوں کے قرض کو معاف کردیا کرتا تھا اس پر اس کی بخشش ہوگئی۔ ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے بھی یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے سنا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر ایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے تقاضا کرنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے اونٹ دے دو۔

صحابہ نے تلاش کیا لیکن ایسا ہی اونٹ مل سکا جو قرض خواہ کے اونٹ سے اچھی عمر کا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ وہی دے دو۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ آپ نے مجھے میرا حق پوری طرح دیا اللہ آپ کو بھی اس کا بدلہ پورا پورا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ تم میں بہتر آدمی وہ ہے جو قرض ادا کرنے میں بھی سب سے بہتر ہو۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد (عبداللہؓ) احد کے دن شہید کردیئے گئے تھے۔ ان پر قرض چلا آ رہا تھا۔ قرض خواہوں نے اپنے حق کے مطالبے میں سختی اختیار کی تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ان سے دریافت فرما لیا کہ وہ میرے باغ کی کھجور لے لیں۔

اور میرے والد کو معاف کردیں۔ لیکن قرض خواہوں نے اس سے انکار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے انہیں میرے باغ کا میوہ نہیں دیا۔ اور فرمایا کہ ہم صبح کو تمہارے باغ میں آئیں گے۔ چناچہ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہمارے باغ میں تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم درختوں میں پھرتے رہے۔ اور اس کے میوے میں برکت کی دعا فرماتے رہے۔ پھر میں نے کھجور توڑی اور ان کا تمام قرض ادا کرنے کے بعد بھی کھجور باقی بچ گئی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے اردگرد کے لوگوں کا خیال رکھنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی سنتوں کو زندگی کا حصہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Comments

Click here to post a comment