ہوم << سیاسی قیادت امن و امان کی صورتحال پر توجہ دے- محمد اکرم چوہدری

سیاسی قیادت امن و امان کی صورتحال پر توجہ دے- محمد اکرم چوہدری

ایک طرف سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے تو دوسری طرف امن و امان کی صورتحال میں بگاڑ ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔ سیلاب سے آنے والی تباہی سے نمٹنا اتنا آسان نہیں تھا کہ اب ملک کے کئی حصوں میں کہیں کہیں شرپسند عناصر دوبارہ متحرک ہو رہے ہیں۔

ممکن ہے کہ سیلابی صورتحال اور ملک کی سیاسی صورتحال کے باعث کہیں حکومت اس اہم ترین معاملے پر وہ توجہ نہ دے رہی ہو جس کی ضرورت ہے۔ امن و امان کی صورتحال پر ہر وقت گہری نگاہ کی ضرورت ہے اور پاکستان کے لوگوں نے بالخصوص لگ بھگ دو دہائیاں جس تکلیف، خوف اور پریشانی میں گذاری ہیں اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دن رات محنت اور جوانوں نے قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر امن کی بحالی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ امن بحال ہونے کے بعد ہی ہم معمول کی زندگی کی طرف واپس آئے ہیں ورنہ تو صبح انجانا خوف لے کر گھر سے نکلتے تھے۔

پھر یہ خوف ختم ہوا اور امن و امان کی بحالی کے بعد شہری آزادانہ ملک کے تمام حصوں میں گھومنے پھرنے لگے لیکن اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ شرپسند عناصر دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں۔ دشمن ہمارے کمزور معاشی حالات ، سیاسی عدم استحکام اور تباہ کن سیلاب سے پیدا ہونے والی مشکل صورتحال سے فائدہ اٹھا کر امن و امان کو تباہ کرنے کی حکمت عملی کے ساتھ سازشوں میں مصروف ہے۔ گذشتہ چند دنوں کے دوران ہونے والے افسوسناک واقعات حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے چیلنج ہیں۔

سوات میں ہونے والے دھماکے میں آٹھ جاں بحق افراد ہوئے۔ سوات کے علاقے برہ بانڈئی میں ہونے والے ریمورٹ کنٹرول بم دھماکے میں دو اہلکاروں سمیت آٹھ افراد جاں بحق ہوئے تھے۔جاں بحق ہونے والوں میں رکن امن کمیٹی ادریس خان بھی شامل تھے۔ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں سرحد پار سے دہشتگردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں پاک فوج کے تین جوان شہید ہو گئے تھے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف جوابی کارروائی کی گئی، پاک فوج کی بھرپور جوابی کارروائی سے دہشتگردوں کا بھاری جانی نقصان ہوا شہید جوانوں میں نائیک محمد رحمان، نائیک معویز خان اور سپاہی عرفان اللہ شامل ہیں۔آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان دہشتگردوں کی جانب سے افغان سر زمین استعمال کرنے کی شدید مذمت کرتا ہے، پاکستان توقع کرتا ہے افغان حکومت مستقبل میں ایسی کارروائیوں کی اجازت نہیں دےگی، پاک فوج دہشت گردی کی لعنت سےملکی سرحدوں کے دفاع کا عزم کیے ہوئے ہے۔ معاملہ رکتا نہیں اس کے ساتھ ساتھ کوہاٹ میں پولیس اسٹیشن پر دستی بم کے حملے میں چار اہلکاروں سمیت سات افراد زخمی ہوئے۔

پولیس کے مطابق دستی بم کا حملہ تھانا بلی ٹنگ پر کیا گیا جس میں چار اہلکاروں سمیت سات افراد زخمی ہوئے۔ تھانے پر حملے میں ملوث دہشتگردوں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ ادھر ضلع خیبر کے علاقے گودر میں بھی ایف سی چیک پوسٹ پر نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔پولیس کے مطابق فائرنگ کے واقعے میں ایک اہلکار جاں بحق اور ایک زخمی ہو گیا۔پولیس کے مطابق ایف سی چیک پوسٹ پر فائرنگ کا واقعہ رات کو پیش آیا حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ سارے واقعات بلاوجہ نہیں بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہیں چونکہ ہم طویل عرصے تک ایسے حالات اور حملوں کا سامنا کرتے رہے ہیں.

اور ہر جگہ بیرونی ہاتھ یا پاکستان کے دشمن ملوث رہے ہیں اس لیے ان واقعات پر فوری ایکشن کی ضرورت ہے۔ سیاست دانوں سے درخواست ہے کہ اپنی سیاست کے لیے ملکی سلامتی کو داو¿ پر نہ لگائیں۔ شدید سیاسی عدم استحکام دشمن کو بدامنی پھیلانے اور ہمارے امن کو تباہ کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ لہذا وسیع تر ملکی مفاد میں سیاسی سرگرمیوں پر نظر ثانی کریں، ملک کے امن کو سیاسی لڑائی جھگڑوں کی نذر نہ کریں۔ امن و امان کی خراب صورتحال معیشت کمزور کرے گی پہلے ہی ہم معاشی طور پر کمزور ہیں اگر یہ دھماکے، حملے اور سیکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو خدانخواستہ ایک مرتبہ پھر ہم تنہائی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری رک جائے گی۔ اندرونی طور پر آمدورفت محدود ہونے کے نقصانات بھی برداشت کرنا پڑیں گے۔

"پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے سرحد پار سے پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر دہشت گردوں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے جوانوں کی شہادت پر گہرے دکھ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پوری قوم وطن کی خاطر جان قربان کرنے والے سپوتوں کی قربانیوں کی قدر کرتی ہے۔ افواجِ پاکستان کا ہر سپاہی ہمارا فخر ہے۔ فوجی جوان پاکستان کی حفاظت کے لیے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دشمن کی سازشوں کو ناکام بناتے ہیں۔ سرحد پار سے اس طرح کے حملے پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی کے علاوہ پاکستان کی سالمیت پر بھی حملہ ہے۔"

پاکستان کے لیے سرحد پار سے حملہ نہایت پریشان کن ہے۔ طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں عمومی تاثر تھا کہ اب افغان سرحد پر سکون ہو جائے گی اور ٹی ٹی پی یا دیگر دہشت گردوں کی مداخلت کا سلسلہ رک جائے گا۔ پاکستان نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات بھی شروع کئے۔ کابل میں بڑا جرگہ بھی ہوا اور پاکستان کے علماءوفود نے کابل جا کر بھی طالبان قیادت اور کالعدم ٹی ٹی پی قائدین سے بھی مذاکرات کئے۔ ان مذاکرات میں تمام امور پر بات چیت ہوئی اور معاملات کو بہتری کی طرف لے جانے پر اتفاق ہوا۔ پاکستان نے کالعدم ٹی ٹی پی کے کئی گرفتار کمانڈروں اور دیگر افراد کو خیرسگالی کے طور پر رہا بھی کیا۔ فریقین میں جنگ بندی بھی رہی جس پر عمل بھی کیا گیا۔

لیکن دو ہفتے قبل کالعدم ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان بعد مختلف مقامات پر سیکیورٹی فورسز پر حملے کئے گئے گوکہ پاکستان نے ان حملوں کا بھرپور جواب دیا ہے اور آئندہ بھی دیتا رہے گا۔ افواجِ پاکستان نے ملک دشمنوں کی کمر پہلے بھی توڑی تھی اور اب بھی وہ کوئی رعایت نہیں کریں گے لیکن سیاسی قیادت کو بالخصوص جنگ کے بجائے امن قائم کرنے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔ سیاست دان ہر وقت کی بیان بازی بند کریں اور ملکی سلامتی کو داو¿ پر لگانے والے ہر عمل سے دور رہیں۔

Comments

Click here to post a comment