پہلے معاصر روزنامہ نوائے وقت کی ایک خبر ملاحظہ فرمائیے:
’’بچوں کے اغوا کی وارداتوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہوگیا۔ لاہور کی ماتحت عدالتوں میں 6 ماہ کے دوران بچوں کے اغوا کے 219 مقدمات پیش کیے گئے۔ 6 ماہ میں اغوا اور لاپتہ بچوں کی تعداد 200 سے تجاوز کر گئی جو گذشتہ شرح سے تین گنا زیادہ ہے۔ تھانوں میں بچوں کے اغوا کی 181 ایف آئی آرز درج کی گئیں، جو کیس عدالتوں میں بھیجے گئے جبکہ باقی کیس شہریوں نے پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج نہ کرنے پر اندراج مقدمہ کے لیے عدالتوں میں درج کرائے‘‘۔
صورتحال خاصی سنگین ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے والدین، اساتذہ اور رشتے داروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، تمام ذمہ داری پولیس اور اداروں پر ڈالنا اور اپنے حصے کی ذمے داری ادا نہ کرنا کسی طرح بھی مستحسن نہیں۔ آج ہم ماہرین کی بتائی ہوئی چند احتیاطی تدابیرآپ سے شیئر کرتے ہیں، جن پر عمل کر کے اس صورت حال پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
بچوں کو دن کے اوقات میں مندرجہ ذیل مقامات پر کئی وجوہ کی بنا پر آنا جانا پڑتا ہے۔ اسکول، مسجد یا مدرسہ، اکیڈمی، بازار، دوست یا رشتے داروں کی طرف، پارک یا گرائونڈ میں کھیلنے کے لیے! بچہ ان جگہوں میں سے کسی بھی جگہ جائے، اگر احتیاطی تدابیر کی جائیں تو کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ جب بچے خود اسکول جاتے آتے ہوں تودرج ذیل احتیاطی تدابیر پر عمل کریں:
بچے کے کسی ایسے ہم جماعت کو ساتھی بنا دیں جو آپ کے پڑوس میں رہتا ہو، بچے کے کلاس انچارج کے ساتھ خصوصی رابطہ رکھیں۔ اگر بچے کو اسکول سے چھٹی کرنی ہے تو اس کی باقاعدہ فون پر یا بذریعہ درخواست کلاس انچارج کو ضرور اطلاع کریں۔ یہ بات بھی خصوصی طور پر اور باقاعدہ ایک انتہائی سنجیدہ معاہدہ کے تحت طے کر لیں کہ اگر بچہ اسکول گیٹ بند ہونے تک اسکول نہ پہنچے تو کلاس انچارج آپ کو گھر پر بغیر کسی تاخیر کے اطلاع دے، تاکہ کسی غیرمتوقع واقعے کی صورت میں آپ فورا کچھ کر سکیں۔ گھر اور اسکول آنے جانے کے کئی راستے ہوتے ہیں۔ آپ بچوں کو پابند کر دیں کہ وہ اپنا روٹ طے کر لیں جس کا سب کو علم ہو۔ کسی ایمرجنسی میں سب سے پہلے وہی روٹ چیک کریں، اسکول سے واپسی کے وقت سے بچہ اگر 1منٹ بھی لیٹ ہوتا ہے تو سب کام چھوڑ کر فورا مقررہ روٹ سے ہوتے ہوئے اس کی تلاش میں لگ جائیں. بچے کے خاص دوستوں کے بارے میں مختصر لیکن ضروری معلومات آپ کے پاس ہر صورت موجود بلکہ کسی ڈائری میں درج ہوں: مثلا دوست کا نام، گھر کا مکمل ایڈریس، فون، والد کا نام، دفتر یا کاروبار کا پتہ، عہدہ، فون، موبائل وغیرہ، کسی ناگہانی صورت میں آپ کے متوقع مددگار اور قریبی رشتے داروں کی لسٹ بھی آپ کے پاس تحریری صورت میں گھر میں کسی عام جگہ پر دستیاب ہونی چاہیے۔ بچے کو صرف اسی دوست کے گھر جانے کی اجازت ہو جس گھر کے ہر فردکے بارے میں آپ مطمئن ہوں۔ بچے سے واپسی کا وقت طے کر کے اسے بھیجیں۔ وہاں پہنچنے پر بچہ یا دوست کے گھر والے آپ کو اطلاع کریں اور واپسی کا جو وقت طے ہے اس پر سختی سے عمل کروائیں۔ دیر کی صورت میں بچے کے دوست کے گھر فورا رابطہ کریں۔ بچے کی اپنی عمر سے بڑے کسی بھی شخص سے یا کسی لڑکے سے دوستی ہرگز نہ ہونے دیں۔ یہی ہدایات مسجد، اکیڈمی جانے والے بچوں کے سلسلے میں بھی اختیار کی جائیں۔
عموما دیکھا گیا ہے کہ گھر والے ضرورت کی چیزیں قسطوں میں منگوانے کے عادی ہوتے ہیں. یاد رکھیں، جتنی مرتبہ آپ چھوٹے کو باہر بھیجیں گے غیر متوقع صورتحال کا خطرہ بھی اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔ اس لیے بچے کو بار بار بازار بھیجنے سے گریز کریں۔ اگر بازار گھر سے دور ہے یا راستے میں کوئی بڑی سڑک پڑتی ہے یا چوک آتا ہے تو ایسی صورت میں کوشش کریں کہ بچہ بازار نہ جائے۔ لازم نہیں کہ بچے کے اغوا کا ہی خطرہ ہوتا ہے، مصروف یا چلتے بازار میں بچے کا خدانخواستہ ایکسیڈنٹ وغیرہ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر بچے کو بامر مجبوری بازار بھیج ہی دیا ہے تو قرآنی آیات اور دعائیں پڑھتے رہیں اور بچے کی واپسی کے وقت کا اندازہ لگا کر رکھیں۔ دوسری صورت میں فورا بچے کے پیچھے جائیں۔ بچے کو بھی ہدایت کریں کہ وہ خود بھی دعائیں وغیرہ پڑھتا رہے اور ادھر ادھر مصروف نہ ہو۔ یہ بات بچے کے ذہن نشین کرا دیں کہ دکاندار خواہ کتنا ہی جاننے والا یا تعلق والا ہو، اگر یہ کہے کہ آپ کو گودام، گھر یا فلاں جگہ سے اچھا سودا دے دوں یا فلاں چیز ختم ہے، آئو وہاں سے دے دوں، تو ہرگز ہرگز اس کی بات نہیں ماننی، نہ اس کے ساتھ کہیں جانا ہے۔ بلکہ ایسی صورت میں باقی چیزیں بھی چھوڑ کر فورا گھر آجانا ہے۔ مشکوک صورت حال میں اگر نقصان ہو رہا ہے تو ہونے دیں لیکن ایسی صورتحال سے فورا نکلنے کی کوشش کریں۔
پارک میں چونکہ ہر طرح کے لوگ آتے ہیں اس لیے کوشش کریں کہ وہاں آپ کا بچہ آپ کی یا کسی دوسرے بڑے کی ہمراہی میں جائے، اور مغرب ہونے سے پہلے پہلے ہر صورت واپس آ جائے۔ بچے کو پارک میں خواہ مخواہ دوستیاں نہ بنانے دیں۔
اگر آپ کا بچہ بار بار ضد کر کے اپنے ایک ہی دوست کی طرف جانے کا زیادہ رجحان رکھتا ہے تو یہ الارمنگ صورت حال ہے۔ دیکھیں کہ:۔ اس دوست کے گھر میں آپ کے گھر کی نسبت کون سی چیز ،سہولت یا کھلونے زیادہ ہیں جو آپ کے بچے کے لیے باعث کشش ہیں. وہاں کھیلنے کو میدان یا کھلی جگہ ہے؟ دوست کے پاس کھلونے زیادہ ہیں؟ وہاں DVD یا کیبل سے لطف اندوز ہونے کی آزادی ہے؟ وہاں کھانا پینا کھلا ہے؟ دوست کے والدین آپ کی نسبت آپ کے بچے سے زیادہ پیار کرتے ہیں؟ اگر ان میں سے کوئی ایک چیز زیادہ وہاں موجود ہے یا نہیں ہے تو بچے کا باربار وہاں جانے کی ضد کرنا خالی ازعلت نہیں ہے! اس صورت میں یا تو بچہ گھر سے باغی ہو گا اور اپنے گھر کو نفرت کی نگاہ سے دیکھے گا کہ وہاں تو اتنا کچھ ہے اور یہاں کچھ بھی نہیں۔ یااس کا پڑھنے کا قیمتی وقت کھیل میں ضائع ہوگا۔ وہ احساس کمتری میں مبتلا اور کسی اخلاقی برائی کا شکار بھی ہو سکتا ہے، لیکن منع کرنے کے لیے بچے کے ذہن میں یہ بات ہرگز نہ بٹھائیں کہ وہ امیر لوگ ہیں یا خراب اس لیے ادھر نہ جائیں بلکہ گھر میں ہی اس کو کوئی معقول مصروفیت دیں کہ وہ گھر ہی میں رہنے کو ترجیح دے۔ اپنا وقت دیں، وقت نکال کر اس کے ساتھ کھیلیں۔ یہ چیز برائیوں سے بچنے کے ساتھ ساتھ بچے کے اعتماد میں بھی اضافہ کرے گی۔
ہماری ایک خامی یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو بتایا ہی نہیں ہوتا کہ لوگ بچوں کو کس طریقے سے اغوا کرتے ہیں اور اغوا ہونے سے کس طرح بچا جا سکتا ہے؟ والدین کی اکثریت اپنے بچوں کی تعلیمی، جسمانی، روحانی اور کھیل کی بنیادی ضرورتیں بھی پورانہیں کر پا رہی۔ اس لیے بچے زیادہ تر گھر سے باہر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اس طرح کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجاتا ہے۔ والدین اپنے بچے کی تعلیمی مصروفیات کے علاوہ بچے کی بیرونی مصروفیات، ان کے دوستوں اور ان کی ہر طرح کی سرگرمیوں سے بہت کم آگاہ ہوتے ہیں۔ اپنے بچوں کو ضروری وقت بھی نہیں دے پا رہے ہوتے اور اگر بچہ اپنی کوئی مشکل یا ضرورت بیان بھی کرنا چاہے تو والدین اس کے کچھ کہنے یا اس کی بات پورا کرنے یا سننے سے پہلے ہی اسے جھڑک دیتے ہیں۔ والدین کا یہ رویہ بچوں کی کئی ذہنی اور جسمانی عوارض کی وجہ بنتا ہے۔ اس لیے اپنے بچوں کو کم از کم یہ اعتماد ضرور دیں کہ وہ اپنی ہر بات آپ سے بغیر کسی ڈر خوف کے کہہ سکیں اور اس کام کے لیے اسے کسی خاص دن یا وقت کا انتظار نہ کرنا پڑے۔
ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ آج کل اپنے گرد و پیش پر نظر رکھنے اور آج کل کے حالات بچوں کے ساتھ ڈسکس کرنے سے بھی بچوں کے اغوا کو بڑی حد تک روکا جا سکتا ہے بلکہ حالات اور اردگرد سے لاعلمی ہی بچوں کے اغوا کی بڑی وجہ بنتی ہے۔ مندرجہ ذیل امور جو کسی خاص عنوان کے تحت تو نہیں آتے لیکن ان پر غور کرنے اور بیان کردہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے بچوں کے اغوا کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ جب بھی بچوں کے ساتھ گھر سے نکلیں تو بچوں کی جیب میں کم از کم اتنے پیسے ضرور ڈالیں کہ وہ رکشہ، ٹیکسی یا بس سے گھر واپس پہنچ سکیں۔ بچوں کو یہ بھی بتا دیں کہ اگر خدانخواستہ پیسے نہ بھی ہوں تو رکشہ ٹیکسی لے کر گھر آ جائیں، پیسے گھر پہنچ کر ادا ہو جائیں گے۔ جب بھی آپ بچوں کے ساتھ واپس گھر آجائیں تو پھر ہر بچے سے پوچھیں کہ ہم کہاں گئے تھے؟ کس طرح گئے تھے؟ راستے میں کون کون سی معروف جگہیں اور سٹاپ آئے ہیں؟جو بچہ یہ باتیں اچھی طرح بتائے اسے انعام دیں۔ لیکن باقیوں سے پھر پوچھ کر تمام روٹ ان کے ذہن میں پختہ کر دیں۔ اس طرح کرنے سے بچے کو اپنے اردگرد کا پتہ بھی چلے گا اور مزید ہوشیار بھی ہو جائے گا۔ وقتا فوقتا بچوں کے سامنے ایک غیر متوقع صورتحال یا کوئی ایمرجنسی رکھیں، مثلا وہ آپ سے بچھڑ گیا ہے! کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے! وہ گھر میں اکیلا ہے! اسے چوٹ لگ گئی ہے! یا اس کا ہاتھ جل گیا ہے! کمرہ لاک ہو گیا ہے! چھوٹے بھائی کو چوٹ لگ گئی ہے یا اسے کسی چیز نے کاٹ لیا ہے! راستے میں اس کے پیسے گم ہو گئے ہیں یا اس کی جیب کٹ گئی ہے وغیرہ وغیرہ! ان تمام صورتوں میں وہ کیا کرے گا؟ جو کچھ بچہ بتائے اس میں خود ہی اضافہ کر کے بچے کو ہر مشکل صورت سے اچھے طریقے سے نکلنے کا گر بتائیں۔ بچے کو پراعتماد اور نڈر بنائیں۔ ساتھ ہی اس کو صورتحال کو سمجھنے اور پھر اس سے نکلنے اور بچنے کے لیے فوری طور پر ردعمل دینے والا بنائیں، اور اس چیز کی بچے کو بار بار تربیت دیں۔ ہمسائے میں بچوں کو بار بار اور بے وقت بھیجنے سے پرہیز کریں۔ اور صرف اسی صورت بھیجیں جب آپ کو پورا یقین ہو کہ گھر میں کم از کم دو خواتین موجود ہیں۔ جب بھی سفر وغیرہ پر نکلیں تو بچوں کے ساتھ اچھی طرح شیئرکر لیں کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ کن کے گھر جا رہے ہیں؟ ان کا پورا ایڈریس کیا ہے اور یہ کہ ان کے گھر تک کس طرح پہنچیں گے؟ بچے کو اچھی طرح سے سمجھا دیں کہ راستے میں اس نے چوکنا ہو کر آنا جانا ہے، کسی کھیل تماشے میں کھب نہیں جانا۔ اس کے ساتھ ساتھ بچے کی قوت مشاہدہ اور قوت فیصلہ کو ردعمل کی صلاحیت کو چیک بھی کرتے رہیں۔
ان ہدایات پر اگر تمام والدین عمل کرنا شروع کر دیں تو ان شاءاللہ بچوں کے اغوا اور تشدد وغیرہ جیسی صورت حال سے بچا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے پھول کلیوں جیسے بچوں کی ہر قسم کے اشرار سے حفاظت فرمائے اور انھیں اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کاچین اورقلب کا سرور بنائے رکھے۔ آمین
تبصرہ لکھیے