یہ ایک جامع اور واضح اصول اور قانون ہے کہ جب انسان کی جان خطرہ میں ہو تو اس وقت اولین ترجیح حلال اور حرام کی تمیز کیے بغیرانسانی زندگی کوبچانا ہوتا ہے،حکم الٰہی بھی ہے اور فرمان مصطفیؐ بھی کہ جس شخص نے کسی ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا .
تاریخ ایسے ہزاروں ،لاکھوں واقعات اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے کہ کس طرح رحمت دوعالم ؐ نے اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک فرمایا،انکی تکالیف دوکیں،بیماروں کی عیادت کی ،درد مندوں کے کام آئے دین اسلام ایسے تو نہیں پھیلا بلکہ یہ سرورکونین ؐ کا حسن اخلاق تھا کہ لوگ دشمن بن کر آتے اور نبی ؐ کے حُب دار بن کر جاتے خاتم المرسلین ؐ کے بعد صحابہ کرام ؓ کا بھی کا یہی طریقہ رہا صحابہ کرام ؓ کے بعد تابع تابعین اور پھر سلاطین اسلام کا بھی یہی شیوہ رہا کہ حالت جنگ میں بھی بیمار دشمن کی خبر گیری کرتے اسلام دنیا کا وہ پہلا مذہب ہے کہ جس نے جنگ کے بھی اصول بتائے کہ دوران جنگ بھی دشمن کی عورتوں،بوڑھوں،بچوں ،مذہبی عبادت گاہوں،جانوروںحتیٰ کہ کھیتوں تک کو نقصان نہ پہنچائواور جو ہتھیار ڈال دے اسے پناہ دو ۔
اسلام اس بات کا قطعاًقائل نہیں کہ لوگوں کو جبراً مسلمان کرے اور نہ ہی جہاد فی سبیل اللہ کی غرض دنیاوی مال ومتاع پر قبضہ کرنا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ حضور کریم ﷺکے ساتھ بیت اللہ کا طواف فرمارہے تھے ۔آنحضور ﷺنے کعبہ کی طرف نگاہ کی اور فرمایا ’’اے کعبہ ۔۔تو کتنا مقدس ،مکرم اور معظم ہے ۔۔پھر عبداللہ بن مسعود ؓ سے فرمایا کہ اے عبداللہ ۔۔کیا تمہیں معلوم ہے کہ ایک مسلمان کی جان ومال اور آبروکا تقدس کعبہ سے بھی زیادہ ہے۔ ا س وقت ملک، سیلاب کی وجہ سے قیامت صغریٰ کا منظر پیش کررہا ہے ہر طرف پانی ہی پانی ہے ۔
کبھی کروناء کبھی ڈینگی،کبھی زلزلے تو کبھی سیلاب در حقیقت یہ سبھی اللہ تعالیٰ کے عذاب کی صورتیں ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے نافرمان بندوںکو خبردار کررہا ہے مگر یہ عقل والوں کے لیے عبرت کی نشانیاں ہیں ۔بے شک یہ سیلاب قدرتی آفت ہے مگر اللہ تعالیٰ نے انسان کے سامنے حق وباطل کے دو راستے رکھ کر عقل سیلم بھی عطا کی اب یہاں انسان کی اپنی مرضی ہے کہ وہ اپنے لیے حق کا راستہ اختیار کرتا ہے یا کہ باطل کا ،اگر وطن عزیز میں چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنائے ہوتے تو آج صورتحال یکسر مختلف ہونی تھی اب کچھ ناعاقبت اندیش،ملک دشمن وڈیروں،جاگیرداروں اور سیاست دانوں نے اس ملک کو ترقی نہ کرنے دی بلکہ اسے اپنا غلام سمجھا تبھی تو ان عوام دشمن سیاسی ڈرامے بازوں نے کہا تھا کہ ڈیمز ہمارے لاشوں پر بنیں گے ،ایسے لوگ کسی صورت ملک کے خیر وخواہ نہیں ہوسکتے،سیلاب زندگان کی مدد میں حکومت وہ کردار ادانہ کرسکی جو کرنا چاہیے تھا .
ہمیشہ کی طرح پاک فوج،فضائیہ ،اور نیوی کا کردار قابل ستائش ہے کیونکہ حاکمین وقت تو اپنے اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں ہر سیاست دان کو اپنی اپنی کرسی کی فکر پڑی ہوئی ہے کسی کو ملک کی پرواہ نہیں مجھے امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق کی تقریر نے رولا دیا انکے الفاظ میں ایک کرب تھا ایک بے بسی تھی جن کا انہوں نے ذکر بھی کیا اور کہا کہ آج میں نے محسوس کیا کہ میں خود بھی بے بس انسان ہوں اور میں نہیں پوری قوم بے بس، لاوارث ہے ،مجھے معلوم ہوا کہ کوہستان میں ہمارے پانچ بھائی پانچ گھنٹوں سے ایک پتھر پر کھڑے ہیں اور چاروں طرف سیلاب،پانی ہی پانی ہے اور وہ مدد کو پکاررہے ہیںہزاروں لوگوں نے انہیں اپنے طور بچانے کی بہت کوشش کی مگر ہیلی کاپٹر کے علاوہ مدد ممکن نہ تھی.
میں نے پہلے مرحلے میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواسے رابطہ کی کوشش کی ،چیف سیکرٹری سے رابطہ کی کوشش کی ،وزیر اعظم کے سیکرٹری کو پیغام دیا کہ پانچ لوگ ایک جگہ پر پھنس گئے ہیں مجھے اس وقت ایک ہیلی کاپٹر کی ضرورت ہے ،میں کرایہ دینے کے لیے تیار ہوں ،میں چیختا رہا پکارتا رہا ،رابطے کرتا رہا لیکن دیواروں کی طرح سارے اندھے ،بہرے اور گونگے حکمران ،وہ پانچوں بھائی مدد کی آس میںموت کی آغوش میں چلے گئے ،مولاناسراج الحق کے ان الفاظ نے روح تک کو چھلنی کردیا ۔خیبر پختونخوا میں تو تحریک انصاف کی حکومت تھی جس کا لیڈر اس ملک کو ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کرتا تھا (نعوذباللہ) ریاست مدینہ ایسی تھی ؟وہ ریاست مدینہ تھی جہاں بائیس لاکھ مربہ میل پر حکومت کرنے والے خلیفہ دوئم حضرت سیدنا عمر فاروق ؓ نے فرمایا تھا کہ اگر میری دور حکومت میںدریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مرگیا تو قیامت کے دن عمرؓ کو اس کا بھی حساب دینا ہوگا.
کہاں تھے وزیر اعظم میاں شہاز شریف جو خود کو خادم اعلیٰ کہلواتے ہیں ۔ سیلاب زندگان کی مدد کے لیے نجی فلاحی تنظیموں نے مثالی کردار ادا کیا ہے جن میں’’ الخدمت فائونڈیشن ‘‘نے خدمات کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں اور کررہے ہیں ’’الخدمت فائونڈیشن ‘‘ حقیقی معنوں میںایک منظم فلاحی اور رفاہی تنظیم ہے جس نے ہر قدرتی آفات میں ملک وقوم کی مدد کی ہے ،غریبوں،بیوائوں،یتیموں،مساکینوں کی مدد کی ہے ،ان کے بعد جمعیت اہلحدہث کے امیر پروفیسر ساجد میر اور حافظ عبدالکریم نے بھی متاثرین کی دل کھول کرامداد کی ہے اور کررہے ہیں ،تحریک لبیک یارسولؐ نے بھی اپنا اہم کردار ادا کیا ہے بے شک یہ ساری نجی رفاہی ،فلاحی تنظیمیں مبارکباد کی مستحق ہیں ۔
سیلاب تو آخر چلا جائے گا مگر قیامت کے دن جن جن لوگوں اور تنظیموں نے متاثرین کی مدد کی ہوگی وہ رب تعالیٰ کے عرش کے سائے کے نیچے ہونگے اور بہت سے اپنی رعونیت ،بربریت اور ذاتی مفادات ،ترجیحات کی بدولت جہنم میں ڈال دئیے جائیں گے ۔وہ حضرت عمرفاروقؓ تھے کہ جن کو ایک کتے کی بھوک کی بھی فکر تھی اور یہاں جہاں روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں افراد بھوک کی وجہ سے خود کشیاں کرتے ہوں ،مائوں کو اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے لیے اپنا جسم بیچنا پڑتا ہو اور حاکمین وقت کے سر پر جو تک نہ رینگتی ہو بتائیے بروزمحشر ان صاحب اقتدار کے ساتھ کیا ہوگا ؟؟؟
تبصرہ لکھیے