غزنوی، غوری اور پھر خوارزم شاہی خاندان نے وسطِ ایشیا میں جس طرزِ حکومت کی بنیاد رکھی اور پھر اسے پروان چڑھایا، وہ عباسی اور اُن کے بعد آنے والے طاہری اور سامانی خاندان سے بالکل مختلف نظام تھا۔ یہ سراسر فوجی حکومتیں تھیں، جن کی سوچ کا محور صرف جنگ و جدل تھا۔ تقریباً ڈھائی صدی کے اس دَور نے خطے کا مزاج ہی جنگجویانہ بنا دیا۔ یہاں تک کہ علا الدین محمد خوارزم شاہ کے دور میں وہ لمحہ آ گیا، جس نے وسطِ ایشیا کی قسمت کا فیصلہ کر دیا۔
منگولوں کی آمد کے بعد اب چنگیز خان جیسا جابر حکمران وسطِ ایشیا پر مسلّط تھا، جس نے خطے کو ایسا تباہ کیا کہ علمی لحاظ سے تو یہ دوبارہ کبھی سر نہ اٹھا سکا۔ تیمور لنگ کے دور میں دنیا بھر سے لُوٹے ہوئے خزانوں سے کچھ لیپا پوتی کی گئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس خطے میں دوبارہ کوئی امام بخاری پیدا ہوا، نہ ہی بو علی سینا، جلال الدین رومی، امام ترمذی، نور الدین جامی، ابو نصر فارابی، ابو ریحان بیرونی، عمر خیال، نظام الملک طوسی، جابر بن حیان اور محمد ابن موسیٰ الخوارزمی۔
وسطِ ایشیا کے زوال کا آغاز
وسطِ ایشیا کے اس عظیم زوال کا آغاز ہوتا ہے منگول فتوحات سے، جنہوں نے 1219ء سے 1221ء کے دوران پورے وسطِ ایشیا، افغانستان اور ایران پر قبضہ کر لیا تھا۔ یعنی وہ علاقہ جس پر کبھی خوارزم شاہ کا پرچم لہراتا تھا، اب منگولوں کی آہنی گرفت میں تھا۔ انہوں نے نہ صرف قتلِ عام کیا بلکہ یہاں کی معیشت کو بھی برباد کر ڈالا۔ خطے کا عظیم نہری نظام اس طرح تباہی کیا گیا کہ کئی شہر تو ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے۔ پھر کتب خانوں، مشاہدہ گاہوں، مدارس اور دیگر اداروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کوئی صدیوں پرانی دشمنی نکالنے آئے تھے۔
اس قیامت کے گزرنے کے 50 سال بعد بھی عالم یہ تھا کہ معروف اطالوی تاجر مارکو پولو نے چین جانے کا فیصلہ کیا تو شاہراہِ ریشم کے قدیم راستوں کا رخ نہیں کیا بلکہ بلخ کے راستے کاشغر گیا اور وہاں سے منگول دارالحکومت قراقرم کی راہ لی۔ یعنی وہ خطہ جو چند دہائیاں پہلے دنیا کی اہم ترین تجارتی گزرگاہ تھا، جہاں تاریخ کی بہترین کاروان سرائے موجود تھیں، وہاں سے اب گزرنا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا۔
عظیم سیاح ابنِ بطوطہ تو ایک صدی بعد بخارا آیا تھا۔ اس نے شہر کے کئی کاروباری مراکز، عبادت گاہوں، مساجد و مدارس کو کھنڈر کی صورت میں دیکھا۔ منگولوں کی آمد کے بعد جو کسر رہ گئی تھی وہ 14 ویں صدی کے وسط میں آنے والی طاعون کی عالمی وبا نے پوری کر دی، جو تاریخ میں Black Death کے نام سے معروف ہے۔
خطے کی وحدت کا خاتمہ
منگولوں نے وسطِ ایشیا کی اُس وحدت کا بھی خاتمہ کر دیا، جو گزشتہ کئی صدیوں سے یہاں موجود تھی۔ ماورا النہر سے لے کر تیان شان کے پہاڑوں تک کا علاقہ چنگیز خان کے بیٹے چغتائی خان کو ملا، خراسان و ایران ہلاکو خان اور اُس کے جانشینوں کے پاس آئے جبکہ تیان شان کے پار سنکیانگ اور مشرقی ترکستان کا پورا خطہ براہِ راست بیجنگ کے ماتحت آ گیا، بالکل آج کی طرح۔
چنگیز خان خود اپنی نظر میں
چنگیز خان نے اپنی آخری جنگ 1221ء میں دریائے سندھ کے کنارے اٹک میں لڑی، وہی جنگ جس میں جلال الدین خوارزم شاہ اس کی نظروں کے سامنے دریا پار کر گیا تھا اور پھر کبھی منگولوں کے ہاتھ نہ لگا۔ حیران کن طور پر چنگیز نے یہاں سے آگے قدم نہیں بڑھائے، جس پر آج بھی مؤرخین حیران ہوتے ہیں کہ آخر چنگیز ہندوستان کیوں نہیں آیا؟ بہرحال، وہ دریائے سندھ سے واپس لوٹا، سمرقند اور تاشقند میں طویل قیام کرتا ہوا تقریباً چار سال بعد یعنی 1225ء میں اپنے دارالحکومت قراقرم پہنچا اور 1227ء میں اس کا انتقال ہو گیا۔
چنگیز خان ظلم و بربریت کا دوسرا نام سمجھا جاتا ہے، لیکن وہ خود اپنے بارے میں کیا سوچتا تھا؟ اس پر کچھ خطوط اور واقعات روشنی ڈالتے ہیں۔ اس نے اپنے عروج کے زمانے میں ایک راہب چنگ چون کو خط لکھا تھا، جس کے مندرجات کچھ یہ تھے:
چین زیب و زینت اور غرور کی وجہ سے خدا کے عذاب کا نشانہ بنا۔ میں شمالی چراگاہوں میں زندگی بسر کرتا ہوں، مجھے فساد اور بُری عادتوں کا کوئی شوق نہیں بلکہ میں دل کی صفائی اور اخلاق کا شیدائی ہوں، زینت اور شان و شوکت کو ٹھکراتا ہوں۔ میں جس راستے پر گامزن ہوں، وہ اعتدال کا راستہ ہے۔ میرا لباس وہی ہے جو چرواہے پہنتے ہیں، جو وہ کھاتے ہیں، میرا کھانا بھی وہی ہے۔
آبِ حیات، سکندر اور چنگیز
مشرق وسطیٰ اور ہندوستان میں سکندرِ اعظم اور آبِ حیات کی تلاش کے قصے بڑے مشہور ہیں۔ اقبال تک کہہ گئے کہ
گرچہ اسکندر رہا محرومِ آبِ زندگی
فطرتِ اسکندری اب تک ہے گرمِ ناؤ نوش
ایسا لگتا ہے چنگیز خان بھی آبِ حیات کی تلاش میں تھا۔ اسی راہب چنگ چون سے ملاقات میں چنگیز نے اس سے پوچھا تھا کہ کیا ہمیشہ کی زندگی حاصل کی جا سکتی ہے؟ اُس نے جواب دیا ایسا ممکن نہیں لیکن کچھ طریقے ایسے ہیں، جن سے عمر کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اندازہ لگائیں کہ ہمیشہ کی زندگی پانا انسان کی کتنی بڑی خواہش ہے۔
خیر، چنگیز خان کی زندگی کا ایک اور دلچسپ واقعہ قاضی وحید الدین فشنگی کے حوالے سے بھی ملتا ہے، جو چنگیز کے مصاحب میں شمار ہوتے تھے۔ بتاتے ہیں کہ ایک روز چنگیز نے مجھ سے پوچھا کہ ایسا کیا کروں کہ دنیا میں میرا ذکرِ خیر باقی رہے۔ جس پر میں نے کہا کہ جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں۔ چنگیز نے امان دی۔ جس پر میں نے کہا ذکرِ خیر باقی رہنے کے لیے ضروری ہے کہ مخلوقِ خدا زندہ ہو، تمام مخلوق کو ہلاک کر دیا جائے گا تو نام لیوا کون رہے گا؟ اس جواب پر چنگیز خان کا چہرہ سرخ ہو گیا، ہاتھ میں موجود تیر کمان پھینک دیا اور منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ کچھ دیر بعد کہا کہ میں تجھے عقل مند سمجھتا تھا، اب پتہ چلا تُو بہت کم عقل ہے۔ مجھے علا الدین خوارزم شاہ کے سپاہیوں کے نقشِ قدم جہاں ملے، میں نے ان جگہوں کو برباد کرنے کی کوشش کی۔ دنیا میں اور بھی ملک ہیں، اور بادشاہ بھی ہیں، وہ میرا ذکر کریں گے۔
منگول، چنگیز کے بعد
چنگیز خان کے بعد جانشینی کے معاملے پر ایک فسادِ عظیم برپا ہو جاتا، لیکن وہ اپنی زندگی ہی میں اپنے تیسرے بیٹے اوگدائی خان کو اپنا جانشین بنا کر گیا تھا۔ لیکن پھر بھی اس معاملے نے 10 سال تک منگولوں کے قدم روکے رکھے اور انہوں نے کوئی خاص فتوحات حاصل نہیں کی۔ لیکن پھر آگے بڑھے اور سلطنت کو 2.4 کروڑ مربع میل تک پہنچا دیا۔ انسانی تاریخ نے پہلے کبھی اتنی بڑی سلطنت نہیں دیکھی تھی۔
بہرحال، اسے قبائلی معاشروں کا خاصا کہیں یا بادشاہت کے نظام کی "خوبی" کہ جانشینی کے معاملات پر بالآخر کھینچا تانی شروع ہو جاتی ہے۔ منگولوں کے ساتھ بھی بالآخر ایسا ہوا، یہاں تک کہ منگول سلطنت چار حصوں میں تقسیم ہو گئی: مشرقی یورپ میں آلتن اوردہ جسے انگریزی میں Golden Horde کہتے ہیں، وسطِ ایشیا میں چغتائی خان کی ریاست، جنوب مغربی ایشیا میں ایل خانی سلطنت اور چین و منگولیا میں یوآن خاندان کی حکومت۔
چغتائی خانیت چنگیز خان کے دوسرے بیٹے چغتائی خان کی ریاست تھی، جو عروج کے زمانے میں آمو دریا سے چین کے پہاڑی سلسلے آلتائی تک پھیلی، یعنی ایک طرف منگولیا کی سرحد تو دوسری جانب خراسان۔ یہاں دریائے آمو کے پار ایل خانی حکومت تھی۔ یہ چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بنائی تھی۔ یہ اپنے عروج کے زمانے میں بلوچستان سے لے کر اناطولیہ اور شام سے لے کر افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہی ہلاکو تھا جس نے 1258ء میں بغداد پر حملہ کیا اور عباسی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ وہ شہر کہ جہاں سے کبھی منگولوں کو خوارزم شاہی ریاست پر حملے کی دعوت دی گئی تھی، انہی منگولوں کے ہاتھوں ایسا اجڑا کہ آج تک پرانی شان و شوکت حاصل نہیں کر پایا۔
بغداد پر عباسی خاندان کی حکومت تقریباً 500 سال رہی۔ جس نے حیران کن عروج بھی دیکھا اور زوال کی انتہا بھی۔ یہاں تک کہ سقوطِ بغداد کے دوران ہلاکو کی افواج نے لاکھوں شہریوں کے ساتھ عباسی خلیفہ معتصم باللہ کو بھی قتل کر دیا۔ پھر اس کے قدم شام اور فلسطین کی جانب بڑھے، جہاں 1260ء میں مملوک افواج نے عین جالوت کے مقام پر منگولوں کو ایک تاریخی شکست دی اور اس کے ساتھ ہی اسلامی دنیا میں ان کے بڑھتے قدم بالآخر رک گئے۔
حیرانگی کی بات دیکھیں کہ کچھ ہی عرصے میں یہ منگول، جنہوں نے اسلامی دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی، خود مسلمان ہو گئے۔ ایل خانیوں کا ساتویں حکمران محمود غازان خان نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اقبال کے الفاظ میں:
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
تبصرہ لکھیے