ہوم << عربی سیکھئے از محمد کاظم- سعد الله شاہ

عربی سیکھئے از محمد کاظم- سعد الله شاہ

کوئی طالب ہو تو مطلوب نظر آتا ہے ورنہ کسی شخص کو محجوب نظر آتا ہے مجھ کو مارا ہے اسی ایک غلط فہمی نے میں سمجھتا تھا مجھے خوب نظر آتا ہے ایک اور بات کروں گا کہ بات کی تفہیم ہو سکے اس موبائل نے تو جیسے میری آنکھیں لے لیں اب نہ چٹھی ہے نہ مکتوب نظر آتا ہے.

میرا خیال ہے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ خط و کتابت تو ایک طرف اب تو کتاب کا رواج بھی ختم ہوتا جا رہا ہے لیکن کتاب کے بغیر بھی بھلا کوئی زندگی ہے ۔اس سے اچھا دوست کوئی نہیں اس تمہید کے پیچھے وہ خیال ہے جو مجھے بیٹھے بٹھائے آیا کہ اپنا تجربہ قارئین سے شیئر کیا جائے اور کچھ باتیں جو برسبیل تذکرہ سامنے آ جائیں۔ ان دنوں میرے زیر مطالعہ ایک شاندار اور مفید کتاب ہے جس کا نام ہے عرب سیکھئے آپ یقین کیجئے کہ اس کتاب نے مجھے ایک وسیع دنیا سے متعارف کروا دیا ہے۔ اس کے مصنف جناب محمد کاظم ہیں وہی محمد کاظم جنہیں ادبی حلقوں میں بہت مقام دیا جاتا ہے۔ تب ہم احمد ندیم قاسمی کے پاس ادارہ ترقیٔ اردو ادب میں بیٹھا کرتے تھے ۔کاظم صاحب خاموش طبع تھے مگر وہ مسکراتے ضرور تھے جب محفل جمتی تو کیا کیا لطیف باتیں ہوتیں۔ خود احمد ندیم قاسمی صاحب گفتگو میں شوخ شوخ باتیں کرتے۔

ایک دن تو کہنے لگے بھئی ہمارا بھی ایک گردہ ڈاکٹر نے نکال دیا ہے۔پھر مسکراتے ہوئے گویا ہوئے کم از کم ایک فائدہ ہوا کہ وہ محاورہ کہ بندہ دل گردے والا ہے۔ ہم پر ٹھیک بیٹھتا ہے تب میرے جیسے انگریزی پڑھے ہوئے شخص کے لئے جو اردو میں سرگرداں تھا کاظم صاحب کی اہمیت کا معلوم نہیں تھا۔عربی میں ڈاکٹر خورشید احمد جیسے نابغہ روزگار بھی موجود ہیں کہ اردو کا عربی میں ترجمہ کر دیں تو اہل عرب ماننے سے انکار کر دیں کہ یہ ترجمہ کسی پاکستانی کا ہو سکتا ہے۔ مجھے تو قرآن فہمی اس کتاب تک لے کر آئی۔اصل میں یہ کتاب ہمارے دوست عبدالغفور ایڈووکیٹ نے خریدی اور اسے بھاری پتھر جان کر ہمارے حوالے کر دیا۔ وہی جو واصف علی واصف صاحب نے کہا تھا کہ موت سے ڈرتے ہو تو اس کے قریب ہو جائو۔ میں نے بھی اسی طرح سوچا کہ اگر کوئی مشکل ہے تو اس کے سامنے آ جائو وہ آسان ہو جائے گی: رکنا کوئی حل تے نہیں جے چلنا بے کار گیا اس کتاب میں محمد کاظم نے کمال یہ کیا ہے کہ باقاعدہ اردو میں فوائد سمجھاتے ہیں اور اس طرح عربی کی تفہیم کو سہل کر دیا ہے۔

میں اپنے قارئین کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ زبان کوئی ہوا نہیں ہے۔یہ دوسری انگریزی یا اردو گرامر کی طرح ہمارے بنیادی باتیں وہی ہیں۔انگریزی میں اگر کامن نائون ہے تو اس میں نکرہ ہے انگریزی میں پراپر نائون ہے تو ادھر معرفہ ہے یہ تو ایک مثال میں نے دی ہے جیسے کسی کو خاص بنانے کے لئے Theدی‘ لگایا جاتا ہے اسی طرح عربی میں خاص کرنے کے لئے ال لگا دیا جاتا ہے الکتاب وہی اسم فعل اور حرف ہاں فرق ہے تو یہ کہ باقی زبانوں میں ماضی حال اور مستقبل ہوتا ہے عربی زبان کا کمال یہ ہے کہ اس میں صرف ماضی اور مضارع ہے۔ یعنی مضارع ہی میں حال اور مستقبل۔ ضرب اس نے مارا اور یضرب سے مراد وہ مارتا ہے یا مارے گا۔

اپنے عہد کے سب سے بڑے پبلشر نیاز احمد کے بیٹے افضال احمد نے اس کتاب کو شائع کیا ہے ان کا ادارہ سنگ میل ہزاروں کتابیں شائع کر چکا ہے انہوں نے ہر بڑے ادیب کو احترام اور عزت سے شائع کیا یہ 210صفحات پر مشتمل ہے مگر لکھائی اتنی باریک ہے کہ بے تحاشہ مواد اس کتاب میں سما گیا ہے ایک اور زبردست بات یہ ہے کہ ان پچیس اسباق میں کلیہ قائد سمجھا کر پھر اس کی مثالیں دے کر آخر میں مشقیں بھی دے دی گئی ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ بے شمار مثالیں قرآن پاک سے پیش کی گئیں ہیں قرآن کے بارے میں کانسیپٹ کلیئر ہوتا جاتا ہے اس سے کاظم صاحب کاعلم سامنے آتا ہے۔ قرآن کو سمجھنا ہے تو ازبس اس کے لئے عربی جاننا ضروری ہے ہر زبان کا ایک مزاج ہوتا ہے یہاں عربی میں ہر حر ف اپنا کام دکھاتا ہے اس کے اعراب معنی طے کرتے ہیں۔

دیکھا جائے تو ہمیں جان بوجھ کر عربی بلکہ فارسی سے بھی دور کر دیا گیا۔کوئی اور نہیں بلکہ میرا پیدا کرنے والا اللہ فرما رہا ہے کہہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے ۔قران سیکھنے کا مطلب قرآن کی تفہیم ہے اس کا مقصد و مطالب ہیں کیونکہ یہ لوگوں کی زندگیاں بدلنے اور معاشرے میں انقلاب برپا کرنے آیا ۔اس کو پڑھ کر ثواب حاصل کرنے سے انکار نہیں مگر اس کا مطمع نظر اور مقصد بہت بلند ہے کہ زندگی کیسے گزارنی ہے۔حرام کیا حلال کیا ہے اچھا کیا ہے برا کیا ہے۔ انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک اللہ اپنی مخلوق سے کیا چاہتا ہے۔ صاحب قرآن سے اللہ نے کب باتیں کی ہیں۔ اپنا تعارف کیا کروایا ہے۔اے مرے محبوب یہ میرے بارے میں سوال کرتے ہیں کہہ دو میں پکارنے والے کی آواز کو سنتا ہوں اور تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔

میرے پیارے قارئین ! ہو سکتا ہے کہ کالم ذرا طویل ہو گیا ہو مگر کبھی سنجیدگی سے اپنے بارے میں سوچ لینا چاہیے کہ میں ایک اللہ کی شاہکار تخلیق ہوں کہ اللہ کہتا ہے بے شک میں نے انسان کو اعلیٰ ترین تقویم میں پیدا کیا تو اس عظیم احسان کو ہمیں سمجھنا ہے ۔کھایا پیا سوئے اور مر گئے اس سے آگے بھی تو کچھ ہے: کس جہاں کی فصل بیچی کس جہاں کا زر لیا ہم نے دنیا کی دکان سے کاسہ‘ سر بھر لیا لوگ فہم و آگہی میں دور تک جاتے مگر اے جمال یار تونے راستے میں دھر لیا

Comments

Click here to post a comment