مانا کہ گھر میں بیمار کا ہونا سب گھر والوں کے لیے پریشانی اور تکلیف کا باعث ہوتا ہے لیکن کیا فرماتے ہیں علماء بیچ اس مسئلے کے کہ گھر میں ایک بہرا موجود ہو جو سنے کچھ اور سمجھے کچھ۔ بھائی کوئی مانے یا نہ مانے مگر ہم گھر میں بہرے کی افادیت کے قائل ہیں کہ مفت میں انٹرٹینمنٹ ہو جاتی ہے جیسے دو بہرے سفر کر رہے تھے کہ ایک نے دوسرے سے پوچھا آپ لاہور جا رہے ہیں؟ دوسرا بولا نہیں میں لاہور جا رہا ہوں پہلا بولا اچھا اچھا میں سمجھا آپ لاہور جا رہے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی بہرا کسی مریض کی عیادت کرنے جائے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کہ مریض پہ کیا گزری ہو گی اور بہرے نے کیا کیا پھلجھڑیاں چھوڑی ہوں گی۔
خیر معاملہ یہ ہے کہ ایک بہرا کسی مریض کی عیادت کو جانے لگا۔ راستے میں سوچتا ہوا جا رہا تھا کہ میں تو ہوں بہرا، سمجھوں گا اور سمجھاؤں گا کیا؟ فیصلہ کیا کہ پہلے مریض سے حال احوال پوچھوں گا، پھر ڈاکٹر کا، پھر دوائی اور آخر میں خوراک پرہیز کا پوچھوں گا۔
ہاں میاں کیسی طبیعت ہے، اب کیا حال احوال ہیں؟
بہرے نے جاتے ساتھ ہی سوال داغ دیا
آگے کچھ مرض کی تلخی، کچھ چڑچڑا پن، مریض بولا مت پوچھو لگتا ہے اس مرض کے ہاتھوں مر ہی جاؤں گا۔
ان شاءاللہ ان شاءاللہ، کیوں ناامید ہوتے ہو؟ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں.
کس ڈاکٹر کو ہاتھ دکھا رہے ہو؟ بہرے نے دوسرا سوال پوچھا۔
مریض جل کر بولا عزرائیل ہے میرا ڈاکٹر، صبح شام دیکھنے آتا ہے. تم بس میرا جنازہ تیار سمجھو۔
واہ واہ بہت خوب! کیا قابل ڈاکٹر ڈھونڈا ہے، تھوڑا مہنگا ہے لیکن ہاتھ میں شفا ہے۔
مریض کا دل چاہا کہ تکیہ بہرے کے منہ پر دے مارے لیکن خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
دوا کون سی استعمال کر رہے ہو؟ بہرے کا اگلا سوال تھا۔
زہر استعمال کر رہا ہوں زہر، مریض نے جل بھن کر کہا۔
جاری رکھو میاں ناغہ نہ ہونے پائے۔ بہت چرچا سنا ہے اس دوا کا۔
اچھا میاں چلتا ہوں۔ اللہ تمہیں شفا دے۔
مریض کے سمجھو سر سے لگی پاؤں پہ بجھی، سمجھ نہ آئے روئے کہ ہنسے۔ ہم اس یکطرفہ عیادت کے چشم دید گواہ ہیں کیونکہ وہ بدقسمت مریض ہم ہی تھے اور بہرا محلے بھر کی فری انٹرٹینمنٹ ماما حقو تھا
تبصرہ لکھیے