قائداعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:"انصاف اور مساوات میرے رہنما اصول ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے باہمی تعاون سے ہم ان اصولوں پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو دنیا کی عظیم ترین قوم بنا سکتے ہیں۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی عدل و مساوات اور حسنِ اخلاق سے بھری پڑی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ مظلوم کی مدد کی، ظالم کے خلاف تلوار اٹھائی اور انصاف کی خاطر ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ جب ظلم اور انصاف کی بات آئی تو آپ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں دیکھا کہ ظالم و مظلوم مسلمان ہے یا کافر، بلکہ عدل و مساوات کی شمع روشن کی۔ اسی طرح اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں بار بار عدل قائم کرنے کی تاکید فرمائی ہے کہ ’’اللہ عدل (انصاف) اور احسان کا حکم دیتا ہے‘‘۔ (النحل 90)
جب تک کسی معاشرے میں انصاف قائم نہیں ہوتا، اس معاشرے کے لیے ترقی ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں بنتی، جس کی تعبیر بار بار دہرائی جاتی ہے، لیکن اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے افرادی قوت کی کمی ہوتی ہے۔ اسے غائب ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ یہ فطرت کا صدیوں پرانا اصول ہے کہ جب کسی معاشرے میں ظلم بڑھتا ہے، امیر کی سنی جاتی ہے، غریبوں پر ظلم ہوتا ہے، ادارے نا اہل لوگ چلاتے ہیں، یہاں تک کہ بادشاہوں اور حکمرانوں کو بھی تنخواہیں اور مراعات ملنا شروع ہوجاتا ہے، غریب کو ایک مشین سے زیادہ اورکچھ نہیں سمجھا جاتا۔، پھر معاشرہ چاہے کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو، کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، خود بخود ٹوٹنا شروع ہو جاتا ہے۔
آج ہمارا معاشرہ تقریباً یہی تصویر پیش کر رہا ہے۔ ہر طرف ناانصافی اور نااہلی ہے۔ بہت کم لوگ ہوں گے جو قائد کے ان الفاظ کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہوں گے۔ اس لیے نہ حکومتیں اور نہ حکمران، بلکہ ہم اپنی ناکامی کے ذمہ دار خود ہی ہیں۔ اگر ہم نے کل اپنی زندگی کا آغاز قائد کے ان الفاظ پر غور کر کے کیا ہوتا تو آج ہم دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں صف اول میں ہوتے۔
ہم ہر سال یومِ آزادی تو مناتے ہیں مگر محض ایک روایت اور رسم و رواج سمجھ کر۔ کبھی ہم نے بیٹھ کر سوچا ہے کہ باوجود ہر سال اس دن کو "منانے" کے، ہم آج تک اپنے ہم عصر ممالک کے صف میں کیوں شامل نہ ہوسکے یا پھر ہم آج کیو ں اُن ممالک کے محتاج ہیں؟ ہم کیوں وطنِ عزیز سے ظلم، نا انصافی، دو نمبری، نااہلی اور ایسے دیگر ناسور کو ختم نہ کرسکے؟ ہم کیوں آج تک ایک ایسا حکمران پیدا کرنے کے لائق نہ بن سکے جو اس ملک کو بزرگوں کے خوابوں کے لائق بنا سکے؟ یہ اور ایسے بہت سارے سوالات ہیں جو ہمیں حقیقی آزادی سے کوسوں دور کردیتے ہیں۔ اسی لئے آزادی کے دن کو بجائے ایک میلہ سمجھ کر رنگین کپڑے پہننے، جھنڈیاں لگانے اور دیگر فضول اخراجات کرنے کے، ہم پورے چوبیس گھنٹوں میں کچھ دیر بیٹھ کر کم از کم اتنا سوچیں کہ آج میرا ملک کیوں نہ ختم ہونے والے مسائل کا شکار ہے ۔ کب اور کیسے اس ملک کو انصاف اور مساوات کی اصولوں پر کھڑا کرکے دیگر ممالک پر سبقت لے جانے کا قابل بنا سکیں گے؟ تو شاید ہم حقیقی آزادی کی تشریح تک پہنچ سکیں۔
پاکستان عصر حاضر کے مسلمانوں کے لیے اللہ کا ایک عظیم تحفہ ہے جس کے لیے دنیا بھر کے مظلوم مسلمان صدیوں سے منتظر "تھے"۔ 27رمضان المبارک کو اس ملک کا معرض وجود میں آنا محض اتفاق نہیں بلکہ ہم سب پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کرم ہے۔ بدقسمتی سے ہم اپنی کمزوری کی وجہ سے اللہ کے اس عطیہ کی قدر نہیں کر سکے جیسا کہ ہمیں کرنا چاہیے تھا۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری ناکامی کی اصل وجہ انصاف اور مساوات کی اصولوں سے تجاوز کے سوا کچھ نہیں ہے، خواہ وہ فرد کی حیثیت سے، ایک خاندان کے طور پر، ایک معاشرے کی حیثیت سے، یا ایک ادارے یا سربراہ کی حیثیت سے ہو۔ روزِ اول سے ہم فطرت کی اس اہم ضرورت کو نبھانے میں ناکام رہے ہیں۔ بحیثیت فرد، بحیثیت قوم اور بحیثیت پاکستانی ہمیں پہلے خوف کو انصاف کے کٹھرے میں ڈالنا ہوگا اور پھر انصاف کی بالادستی کے لیے جدوجہد جاری رکھنی ہوگی تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اس ملک کا نام فخر سے بلند کر سکیں۔ اور یہ جھنڈا دنیا کے مظلوموں کے لیے زخموں کا مرہم بن سکے!
حرفِ آخر
جب مظلوموں کی آہیں سنی جائیں گی۔ جب غریبوں کی عزتیں برقرار رہیں گی۔ جب دوسرے کے حق کو اپنا حق سمجھ کر اس کی حفاظت کی جائے گی۔ جب میں بحیثیت فرد اپنے حقوق اور فرائض خلوص نیت سے ادا کروں گا اور جب ایک غریب مزدور اپنی ذمہ داری بخوبی ادا کرے گا تو قائد کے بقول تب یہ پاکستان حقیقی پاکستان بنے گا۔ اور پھر اس ملک کو حقیقی آزادی مل جائے گی۔
اور اگر یہاں پر ایسے ہی ظلم کے بازار جاری رہے، غریبوں کے حقوق پامال ہوتے رہے، امیروں کیلئے آسائشیں جاری رہیں تو جس طرح آج ہم (اقتصادی اور ثقافتی) غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، بالکل اسی طرح ہماری آنے والی نسلیں بھی اس قیدِ ناتمام میں زندگی گزارتے رہیں گے۔ نہ کوئی پُرسانِ حال ہوگا۔۔۔ نہ ہی کوئی طبیب!! ہمیں اٹھنا ہے اور شروع کرنا ہے۔۔۔ تب ہی اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو گا!
تبصرہ لکھیے