ہوم << اور پھنس جانا گل کا رانا کے جال میں- عبداللہ طارق سہیل

اور پھنس جانا گل کا رانا کے جال میں- عبداللہ طارق سہیل

شہباز گل نے اداروں میں ’’بغاوت‘‘ کی تبلیغی سرگرمی کیا کی، خود ان کی پارٹی نے ان سے کنارہ کر لیا۔ اکثر رہنما خاموش رہے، اکثر سے کچھ رہنما بولے تو یہ بولے کہ یہ ہماری پالیسی نہیں۔ یعنی بیچ منجدھار انہیں اکیلا چھوڑ دیا، یعنی چڑھ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے گا۔

شکر الحمد للہ کہ عمران خان نے ان سے دوری اختیار نہیں کی، انہیں ’’ڈس اون‘‘ نہیں کیا۔ صبح سے خبر گرم تھی کہ خان صاحب گل کی ’’تبلیغی سرگرمی‘‘ کی مذمت نہیں تو اس سے لاتعلقی ضرور ظاہر کریں گے اور معذرت بھی۔ مقام شکر ہے کہ رات جب انہوں نے قوم سے خطاب کیا تو ایسا کچھ نہیں کہا۔ انہوں نے تو شہباز گل پر فردجرم کو بھی ’’اگر‘‘ کے لاحقے سے مشروط کر دیا۔ ایک لحاظ سے انہوں نے شہباز گل کی صفائی دینے کی کوشش کی۔

گل صاحب خان صاحب کی آنکھ کا تارا اور ان کے سٹاف کے چیف تھے۔ ان کے نو رتنی ہار کے کوہ نور دوئم تھے (کوہ نور اول شہزاد اکبر تھے جو اچانک انہیں داغ مفارقت دے کر پردیس کو پیارے ہو گئے) ۔ ان کے گل بکائولی تھے بلکہ گل نرگس تھے۔ برسبیل تذکرہ نرگس برصغیر میں ، روایت کے مطابق، ہزاروں سال سے رو رہی ہے تو اس کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ یہ ہے کہ اس کی جنس، اس کی رضامندی لیے بغیر تبدیل کر دی گئی۔ نرگس NARCISSUS یونان کا شہزادہ تھا ، برصغیر میں آتے ہی اسے ’’خاتون‘‘ کا درجہ دے دیا گیا۔ بس اسی وجہ سے وہ رو رہی ہے۔ جہاں دیکھو، کوئی نہ کوئی نرگس خانم، نرگس بی بی نظر آتی ہے حالانکہ نظر تو نرگس خان آنے چاہئیں تھے۔

خیر، یہ جملہ ہائے معترضہ تھے، اصل بات یہ ہے کہ خان صاحب اپنے کوہ نور دوئم، گل بکائولی اور گل نرگس سے محروم ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ رات والی پریس کانفرنس میں وہ قدرے بلکہ قدرے سے زیادہ مرجھائے مرجھائے پژمردہ اور مضمحل دکھائی دئیے۔ گل کو گلچیں لے اڑا، چراغ امید ہی گل ہو گیا

ھئے ھئے میرا پھول لے گیا کون

ھئے ھئے مجھے خار دے گیا کون

سنبل تو میرا تازیانہ لانا

شمشاد انہیں سولی پہ چڑھانا

(دیاشنکر کی ’’ریپ آف دی لاک‘‘ عرف گلزار نسیم سے)

عمران خان نے گل سے دوری تو کیا اختیار کرنا تھی، الٹا وہ اسے ’’رجیم چینج‘‘ کی سازش کو آگے بڑھانے کے عمل سے تعبیر کیا۔ یعنی فوج اور عمران خان میں نفرت بڑھانے کی کوشش۔ انہوں نے ایک بار پھر میر جعفر اور میر صادق کا ذکر کیا۔ گویا سازش انہوں نے کی جنہوں نے گل کو ’’مسوّدہ‘‘ دیا اور انہوں نے جنہوں نے پیش کار ٹی وی چینل کو ہدایت کی کہ گل دس منٹ یہ ’’مسودہ‘‘ بانداز گفتگو کریں گے، اس دوران کوئی میزبان انہیں ٹوکے گا نہ بیچ میں سوال ہی کرے گا۔ مسوّدہ کس نے تیار کیا؟۔ غالباً رانا ثنا اللہ نے چینل کو روک ٹوک اور سوال کرنے سے کس نے روکا، ایک بار پھر غالباً رانا ثناء اللہ نے۔

رانا ثناء ’’رجیم چینج‘‘ کی سازش آگے بڑھا رہے ہیں۔ مسوّدہ میں خاص طور سے ’’بغاوت‘‘ والی تبلیغی سرگرمی بھی ان کے ذہن رسا کا کارنامہ ہے۔ معصوم صورت نیک سیرت گل کو رانا صاحب کے ٹریپ میں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ خان صاحب نے تاریخ سے بھی حوالہ دیا، شیخ مجیب کا نام لیے بغیر کہا کہ 1970ء میں بھی فوج اور ایک بڑی سیاسی پارٹی کے درمیان نفرت پھیلانے کی وجہ سے ملک ٹوٹ گیا تھا، آج وہی کوشش کی جا رہی ہے۔

بات سمجھ میں نہیں آئی۔ شیخ مجیب کے پاس قومی اسمبلی کی آدھی سے بھی زیادہ نشستیں تھیں لیکن انہیں حکومت بنانے کی اجازت ہی نہیںدی گئی۔ الٹا ایک آپریشن شروع کردیا گیا جس میں ان گنت لوگ مارے گئے۔ آج کی بات تو اس کے بالکل الٹ ہے۔ کیسے؟

ایسے کہ خان صاحب کے پاس اکثریت نہیں تھی، جو سیٹیں انہیں دلوائی گئیں (جی، اب تو ہر طرف سے معلوم ہو گیا کہ دلوائی گئیں) وہ حکومت سازی کے لیے کافی نہیں تھیں۔ یہ کمی دوسری جماعتوں کو ساتھ ملا کر، آزاد ارکان اسمبلی کو شامل کروا کے پوری کی گئی۔

یعنی شیخ مجیب کو استحقاق کے باوجود حکومت نہیں دی گئی، آپ کو استحقاق نہ ہونے کے باوجود حکومت بنوا کر دی گئی، پھر ساڑھے تین سال اپوزیشن کو چوں کرنے کی اجازت تھی نہ چراں کرنے کی۔ اس طرح آپ کی حکومت چلوائی گئی۔ اور آپ کے خلاف فوجی تو کیا، شہری آپریشن بھی نہیں کیا گیا۔

پھر 1970ء کی مثال دینے کا مطلب کیا ہے۔ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں حکومت کے خاتمے کو ’’ویسی ہی کوشش‘‘ قرار دینا سمجھ میں آنے والی بات نہیں، خان صاحب، کوئی آسان سی مثال دیجیے۔

خان صاحب نے حسب معمول دائیں بائیں دو جھنڈے لگا کر خطاب فرمایا، اقتدار سے ہٹنے کے بعد ا نہوں نے یہ دو جھنڈے اپنے ہر خطاب کے ساتھ لازم و ملزوم کر لیے ہیں۔

ایک صاحب نے پوچھا، ایسا کیوں؟ کیا خان صاحب اب بھی خود کو وزیر اعظم سمجھتے ہیں۔

جواب ہے کہ بالکل نہیں، وہ خود کو وزیر اعظم نہیں سمجھتے۔

انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ وہ وزیر اعظم نہیں رہے، اگر ، بالفرض ، انہیں یہ بات پتہ نہیں تھی ، تو ان کی باخبر بیگم صاحبہ نے بتا دیا ہو گا اور سب کو معلوم ہے، وہ بیگم صاحبہ کی خبر کو ہمیشہ معتبر سمجھتے ہیں۔ یہ بات بھی بقول خود ان کے، ان کی بیگم ہی نے بتائی تھی کہ خان صاحب، اب آپ وزیر اعظم ہیں۔ جب ان کی حکومت ختم ہوئی تو لازماً یہ خبر بھی بیگم صاحبہ نے انہیں بتا دی تھی۔

چنانچہ پرچم رکھنے کی وجہ یہ نہیں۔ بلکہ یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اس بات کا پتہ عوام کونہ چلے۔ وہ دو دو پرچم عوام کے لیے رکھتے ہیں تاکہ عوام یہی سمجھیں کہ وہ اب بھی وزیراعظم ہیں، اس طرح وہ عوام کو ’’صدمے‘‘ سے بچانا چاہتے ہیں

کسی کو پتہ نہ چلے بات کا

خان صاحب نے اشارۃً دھمکی دی کہ وہ اپنی سٹریٹ پاور سے پورا ملک جام کر سکتے ہیں۔ ان کی سٹریٹ پاور بڑے شہر کے کسی بڑے مقام پر بہ اندازِ میلہ ٹھیلہ ضرور اکٹھا ہو سکتی ہے، اس سے زیادہ کچھ کر سکتی ہے نہ کرنا چاہتی ہے۔ ٹھیک معنوں میں ا ن کی سٹریٹ پاور ’’قناعت پسند‘‘ اور شکر گزار قسم کی فورس ہے۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، کسی دن ملک جام کرنے کی اپیل کر کے دیکھ لیجئے۔ تین چار ماہ میں وہ تین چار بار سے زیادہ انہیں سڑکوں پر آنے کی کال دے چکے ہیں۔ کتنے باہر نکلے، کتنے چوک جام کئے اور کتنی دیر کے لیے کیے۔ ؟

Comments

Click here to post a comment