ہوم << شیخ صاحب روبہ صحت ہیں- عبداللہ طارق سہیل

شیخ صاحب روبہ صحت ہیں- عبداللہ طارق سہیل

ماشاء اللہ قبلہ شیخ صاحب پانچ ہفتوں کی علالت کے بعد اب روبصحت ہیں اور ان کا تازہ بیان اس کی گواہی ہے۔ کامل پانچ ہفتوں سے ان کے بیانات گو مسلسل آ رہے ہیں لیکن ا ن سے ’’خونی انقلاب‘‘ والی نوید غائب تھی جس کی وجہ سے ان کے بہی خواہ بجاطور پر اس تشویش میں مبتلا ہو گئے کہ شیخ صاحب کی طبیعت نصیب دشمناں کچھ ناساز ہے۔

ان کے تازہ بیان سے تصدیق ہوتی ہے کہ وہ جزوی طور پر صحت یاب ہو گئے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے تازہ بیان میں ’’خون‘‘ کی نوید تو ہے لیکن خونی انقلاب کی نہیں، بیان میں انہوں نے فرمایا کہ پی ٹی آئی کو تقسیم کرنے کی کوشش ہوئی تو خونی سیاست شروع ہو جائے گی۔ پوری طرح صحت یاب ہونے کے بعد حسب سابق ہمیں ان کے بیانات میں خونی انقلاب کی دھمک ، مارو ، مار دو، مر جائو، جلا دو، ملیامیٹ کر دو کی کڑک بھی سنائی دے گی۔ بہی خواہ بس چند روز انتظار کریں۔ پی ٹی آئی کی تقسیم کے بارے میں انتباہ ان خبروں کے پس منظر میں جاری کیا گیا ہے کہ خاں صاحب کی متوقع نااہلی کو یقینی سمجھتے ہوئے پارٹی کے اندر جانشینی کی جنگ شروع ہو گئی ہے یعنی اس بات کی رسہ کشی کہ خان صاحب کے بعد حقیقی آزادی کی جنگ کس کماندار کی کمان میں لڑی جائے گی۔

اس حوالے سے شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک سمیت کئی نام لیے جا رہے ہیں۔ شاہ صاحب کو اگر ’’ش‘‘ اور خٹک صاحب کو ’’پ‘‘ سمجھ لیا جائے تو گویا شیخ رشید خبردار کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی میں سے ’’ش‘‘ برآمد ہونے والی ہے جس کے بعد دوسری برآمدگی ’’پ‘‘ کی بھی ہو سکتی ہے۔ اس مبینہ خانہ جنگی میں شیخ صاحب امیدوار نہیں ہیں جس کی ٹیکنیکل وجہ یہ ہے کہ ہرچند شیخ صاحب پوری طرح پی ٹی آئی کے ہم سفر ہیں لیکن وہ اپنی یک رکنی جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔ یعنی خود بھی ’’ش‘‘ ہونے کے باوجود ، مذکورہ بالا ’ش‘ اور ’پ‘ کے ساتھ اس ہرڈل لیس ریس میں شریک نہیں ہو سکتے۔ پوری طرح صحت یاب ہونے کے بعد وہ محض خونی انقلاب ہی کا مژدہ جاں فزا سنائیں گے یا ملک کے سری لنکا بننے کی نوید بھی سنائیں گے؟۔ بظاہر اس کا جواب نفی میں ہے کہ سری لنکا بننے کی ڈھلوان پر رکاوٹ آ گئی ہے اور اس کا امکان نہیں رہا۔ لیکن امکان تو خونی انقلاب کا بھی دور دور تک نہیں ہے۔ اگر اس کی کوئی پیش گوئی سنائی جا سکتی ہے تو اس کی بھی کیوں نہیں۔ اُمید ہے شیخ صاحب اپنی مکمل صحت یابی کا ثبوت دونوں پیش گوئیاں کر کے دیں گے اور اس بات کو اہمیت نہیں دیں گے کہ امکان ہے یا نہیں ہے۔

البتہ پی ٹی آئی کے زیر انتظام صوبے میں عرصہ نو سال سے دہشت گردی کے واقعات بنا کسی وقفے کے جاری ہیں بلکہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ پختونخواہ کا یہ تجربہ اگر کامیاب ہے تو کوئی شک نہیں، پی ٹی آئی کی حکمرانی ملک بھر میں طویل ترین کامیابی کی داستانِ مسلسل ہے۔ شیخ صاحب نے یہ انکشاف بھی کیا کہ زمینی قوتیں حکومت کے ساتھ ہیں اور آسمانی قوتیں ہمارے ساتھ۔ زمینی قوتوں کی تفصیل کیا ہے؟۔ عوام؟۔ ادارے؟ میڈیا ؟ موسمی حالات؟۔ جو بھی ہوں، شیخ صاحب کے بقول یہ ساری قوتیں حکومت کے ساتھ ہیں اور آسمانی قوتیں نہیں ہوتیں، صرف ایک قوت ہوتی ہے اور وہ ہے خدا کی ذات۔ وہ کس کے ساتھ ہے، نہ شیخ جی کو علم ہو سکتا ہے نہ کسی اور کو کہ معاملہ علم غیب کا ہے۔

خلاصہ شیخ صاحب کی اس انکشاف نما خبر کا یہ ہوا کہ ’’ساتھیو‘‘ اسیں پھڑے جانا اے‘‘ بہرحال شیخ جی کی بہادری میں کوئی شبہ نہیں۔ انہوں نے ایک وڈیو پیغام جاری کیا ہے اور اس میں اعلان کیا ہے کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتے ، نہ حکومت سے، نہ گرفتاری سے، جسے گرفتار کرنا ہو کر لے۔ گرفتاری دینے کو تیار ہوں۔ یہ پیغام انہوں نے کسی نامعلوم خفیہ پناہ گاہ سے جاری کیا۔ خان صاحب کا ایک ٹویٹ دو روز پہلے ایک بڑی خبر اور زیربحث موضوع بنا رہا۔ انہوں نے اس ٹویٹ میں بتایا کہ 1932ء کی لندن والی گولی میز کانفرنس میں قائد اعظم اور علامہ اقبال کے ساتھ ان کی والدہ کے چاچا جی زمان خان بھی شریک تھے اور ایک اور عزیز جہانگیر خان بھی۔ ساتھ ہی تصویر بھی جاری کر دی جو گول کے بجائے مستطیل یعنی لمبی میز والی تھی۔ ٹویٹ آتے ہی خان صاحب کی 2018ء والی ٹویٹ بھی کسی نے جاری کر دی جس میں خان صاحب نے اسی تصویر کے ساتھ لکھا تھا کہ 1930ء والی لندن گول میز کانفرنس میں قائد اعظم اور علامہ اقبال کے ساتھ میرے دادا کے بھائی زمان خان بھی شریک ہوئے تھے۔

اس پر لوگوں نے مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ حالانکہ معاملہ کچھ بھی نہیں تھا۔ لندن میں دو گول میز کانفرنس ہوئی تھیں۔ ایک کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے، دوسری کا نہیں ملتا تو اس میں خان صاحب کی کیا غلطی۔ رہی رشتہ بدلنے والی بات تو یہ بھی آسان معاملہ ہے۔ 30 والی کانفرنس میں والدہ کے چچا شریک تھے اور دو سال بعد والی میں دادا کے بھائی ۔ حسن اتفاق سے دونوں کا ایک ہی نام تھا۔ اس میں کیا بات عجیب ہے؟۔ کیا ایک نام والے کئی کئی لوگ نہیں ہوتے۔؟ اوپر سے کچھ کج بحث اور کج فہم، ناقص العقل اور مشرکانہ سوچ والے لوگ گول میز کانفرنس کے شرکا کی فہرست نکال لائے اور اعتراض جڑ دیا کہ زمان خان اور جہانگیر خان نام کا کوئی آدمی اس فہرست میں ہے ہی نہیں۔ نادان مشرکو۔ تمہیں تاریخ کے بے جان کاغذوں پر اعتماد ہے، جیتے جاگتے سچے اور امانت دار عمران خان پر نہیں۔ ارے توبہ ہے لوگو! دیکھو کیا اندھیر نگری مچی ہے، کوئی مولانا طارق جمیل کو خبر کردے۔

خان صاحب کے چیف آف سٹاف شہباز گل کو فوج میں بغاوت کرانے کی کوشش کے الزام پر گرفتار کر لیا گیا۔ خان صاحب نے ردعمل میں کہا کہ گرفتار نہیں کیا گیا، اغوا کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی فرمایا، اگر شہباز گل نے کوئی جرم کیا ہے تو قانونی طریقہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ گرفتاری کا معاملہ تو خیر، ریمانڈ بھی ہو چکا، البتہ ’’اگر کوئی جرم کیا ہے ، والی بات کا تو جواب ہی نہیں، اس کی داد نہ دینا سخت زیادتی ہو گی۔

Comments

Click here to post a comment