ہوم << امام عالی مقام علامہ اقبال کی نظر میں - مفتی منیب الرحمن

امام عالی مقام علامہ اقبال کی نظر میں - مفتی منیب الرحمن

علامہ اقبال نے اپنے فارسی مجموعۂ کلام ’’رموزِ بے خودی‘‘ میں ’’درمعنی حریتِ اسلام وسرِّحادثۂ کربلا‘‘کے عنوان سے امام عالی مقام حسین رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے،ہم اس نظم کے منتخب اشعار کا مفہوم اپنی ترتیب سے بیان کر رہے ہیں، علامہ اقبال امام عالی مقام کو فہمِ قرآن ، اَقدارِ دین کے اِحیاء، تسلیم ورضا ،صبروقناعت اور عزیمت واستقامت کے لیے معیار ومدار سمجھتے ہیں ، اُن کے نزدیک امام عالی مقام بے مثال ایثار واستقامت کا ایک ابدی استعارہ ہیں ، چنانچہ وہ کہتے ہیں:

رمز قرآن از حسین آموختیم
زآتش او شعلہ ہا اندوختیم

یعنی میں نے قرآن کا رازحسین سے سیکھا اور اُن کی آتشِ عشق سے کئی شمعیں روشن کیںاور کئی چَراغ جلائے ہیں۔ اقبال کے نزدیک امت کے درمیان امام عالی مقام کی مثال کتابِ الٰہی میں ’’قُل ھُوَ اللّٰہ اَحَد‘‘ کے کلمات جیسی ہے، وہ کہتے ہیں:

درمیاں اُمت آں کیواں جناب
ہمچو حرفِ ’’قُل ھُو اللّٰہ‘‘ در کتاب

امام عالی مقام نے عزیمت واستقامت کی راہ پر گامزن ہوکر بے مثال قربانیاں دیں،اپنی موجِ خون سے اَقدارِ حق کے اِحیاء کا ایک نیاگلستان آباد کیا اور تاقیام قیامت ظلم واستبدادکی راہ میں سَدِّ سکندری بننے والوںکے لیے مثالی کردار بنے،اقبال کہتے ہیں:

تا قیامت قطعِ استبداد کرد
موجِ خونِ او چمن ایجاد کرد
بہر حق در خاک و خون غلطیدہ است
پس بنای لاالٰہ گردیدہ است

ترجمہ:’’آپ نے قیامت تک کے لیے ظلم کا خاتمہ کردیا ،آپ کے مبارک خوں نے حق کی راہ میں بے مثل وبے مثال قربانیوں کا ایک نیا چمن ایجاد کیا، آپ حق کی خاطر خاک وخوں میں لت پت ہوگئے، لیکن اس بات کی بنیاد ڈال گئے کہ باطل کی خدائی اور باطل کا اقتدار ناقابلِ قبول ہے، خواہ اس کے لیے کوئی بھی قربانی دینی پڑے‘‘،علامہ اقبال حق کو چراغِ مصطفوی اور باطل کو شَرار بولہبی سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چَراغِ مُصطفوی سے، شَرارِ بُولہبی

یعنی ازل سے آج تک حق وباطل کے مابین معرکہ بپا ہے ، چراغِ مصطفوی سے شَرارِ بولہبی کی جنگ جاری ہے ، علامہ اقبال نے ابولہب کی حقارت واضح کرنے کے لیے اُسے ایک معمولی سا شرارہ قرار دیا ہے اور عظمتِ مصطفی ﷺ کے اظہار کے لیے اس شرارے کے مقابلے میں لفظِ ’’چراغ‘‘ استعمال کیا ہے، چراغ دیرپا روشنی کا ایک استعارہ ہے ،جبکہ شرارہ ایک لمحاتی اور عارضی چمک دکھا کر بجھ جاتا ہے، لیکن افسوس ہمارے دور میں تو بولہبی نے بھی چراغِ مصطفوی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، جمیل مظہری نے خوب کہا ہے:

کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی

علامہ اقبال امام عالی مقام کو حق وباطل کی اسی جنگ کا استعارہ کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:

موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوتِ از حیات آید پدید
زندہ حق از قوتِ شبیری است
باطل آخر داغِ حسرتِ مِیری است

یعنی حق وباطل کی معرکہ آرائی کبھی موسیٰ وفرعون کی صورت میں جاری رہی،پھر ختم المرسلین خاتم النبیین ﷺ کے عہدِ مبارک میں چراغِ مصطفوی اور شرار بولہبی کی صورت میں نظر آئی اور آپ ﷺ کے بعد یہی معرکہ شبیر ویزید کی صورت میں بپا ہوا، ازل سے یہی دو قوتیں ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہیں ، حق امام عالی مقام حسین رضی اللہ عنہ کی عظیم قربانیوں اوراخلاقی قوت سے زندہ ہے اورشاہی (باطل اقتدار)کا انجام ظاہری فتح کے باوجود آخر کار داغِ حسرت بن کر رہ جاتا ہے۔ علامہ اقبال بتاتے ہیں :جب تک خلافت پر قرآن کی حاکمیت قائم رہی ، حق کا بول بالا ہوتارہا، لیکن جب خلافت نے قرآن سے رشتہ توڑ دیا تو جامِ حرّیت زہر آلود ہوگیا، چنانچہ وہ کہتے ہیں:

چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت را زہر اندر کام ریخت

اقبال کہتے ہیں: امام عالی مقام کی شہادت اسی داستانِ حرم کی انتہا ہے ،جس کا آغازحضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی سے ہوا تھا، وہ کہتے ہیں:

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین، ابتدا ہے اسماعیل

نیز انھوں نے بجا کہا:

حقیقت ابدی ہے مقامِ شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی

ترجمہ:’’ظلم اور ظالم، فرعون اور فرعونیوں کے انداز بدلتے رہتے ہیں، لیکن حق کا استعارہ ابد تک امام عالی مقام ہی رہیں گے‘‘۔

علامہ اقبال اپنے عہد سے شکوہ کناں ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں آج بھی یزیدی اَقدار کا چَلن ہے ، یہی سکّۂ رائج الوقت ہے ،چنانچہ وہ امام عالی مقام کو اسی عشق کا استعارہ سمجھتے ہوئے لکھتے ہیں:

ہر کہ پیمان با ہوالموجود بست
گردنش از بندِ ہر معبود رَست

ترجمہ: ’’جس نے اللہ کی ذات سے پیمانِ وفا باندھ لیا ، اُس کی گردن ہر معبودِ باطل کی غلامی سے آزاد ہوگئی‘‘۔

بر زمین کربلا بارید و رفت
لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت

ترجمہ:’’نورورحمت کی برسات بھی کربلا کی زمین پر برس کر چلی گئی اورآپ نے کربلا کے ویرانے میں حق کے گل وگلزار سجائے اورعالَم بالا کی طرف چلے گئے‘‘۔

سِرِّ ابراہیم و اسمٰعیل بود
یعنی آن اجمال را تفصیل بود

ترجمہ:’’وہ ابراہیم واسماعیل علیہما السلام (کی قربانیوں کا )راز تھے، یعنی ذبحِ اسماعیل اجمال تھااور کربلا اُس کی تفصیل تھی‘‘۔

تیغ بہرِ عزت دین است و بس
مقصدِ اُو حفظِ آئین است و بس

ترجمہ:’’تلوار فقط دین کی عزت و سربلندی کے لیے ہے اور اس کا مقصد فقط دستورِ قرآنی کی حفاظت ہے‘‘،علامہ اقبال اس کی مزید تشریح اس شعر میں کرتے ہیں:

ماسوی اللہ را مسلمان بندہ نیست
پیش فرعونی سرش افگندہ نیست

ترجمہ:’’مسلمان غیر اللہ کی بندگی اختیار نہیں کرسکتااور اس کا سر کسی فرعونِ(وقت) کے آگے سرنگوں نہیں ہوسکتا‘‘۔

خون او تفسیر این اسرار کرد
ملت خوابیدہ را بیدار کرد

ترجمہ:’’اُن کے خون نے اس راز کی تفسیر بیان کردی اور سوئی ہوئی ملّت کو جگادیا‘‘۔

تیغ لا چون از میان بیرون کشید
از رگِ اربابِ باطل خون کشید

ترجمہ:’’جب امام عالی مقام نے اپنے نیام سے معبودانِ باطلہ کی نفی کی تلوار نکالی تو اہلِ باطل کی رگوں کا خون خشک ہوگیا، یعنی اگر کلمۂ توحید تو پڑھتا رہے ، لیکن یزیدِ وقت کے باطل مطالبات کے سامنے ’’لَا‘‘کہنے کا حوصلہ نہ ہو تو یہ کلمہ بے روح ہوجاتا ہے‘‘۔

نقشِ اِلَّا اللہ بر صحرا نوشت
سطرِ عنوانِ نجاتِ ما نوشت

ترجمہ:’’آپ نے اللہ وحدہٗ لاشریک کی الوہیت کا نقش صحرا میں ثبت کردیا اور ہماری نجات کا سرنامہ سرزمینِ کربلاپر رقم کر دیا‘‘۔

ای صبا ای پیک دور افتادگان
اشکِ ما بر خاکِ پاکِ او رسان

ترجمہ:’’اے بادِ صبا!ہم دورافتادہ عقیدت مندوں کا پیغام امام عالی مقام تک اور ہمارے آنسو اُن کی خاکِ پا تک پہنچادے‘‘، جناب ادیب رائے پوری نے عشق کے اس نداز کو اپنے اشعار میں یوں بیان کیا ہے:

آیا نہ ہو گا اس طرح، حُسن و شباب ریت پر
گلشنِ فاطمہ کے تھے، سارے گلاب ریت پر
آلِ بتول کے سوا، کوئی نہیں کھلا سکا
قطرۂ آب کے بغیر، اتنے گلاب ریت پر
عشق میں کیا بچائیے، عشق میں کیا لٹائیے
آلِ نبی نے لکھ دیا، سارا نصاب ریت پر
جتنے سوال عشق نے، آلِ رسول سے کیے
ایک کے بعد اِک دیے، سارے جواب ریت پر
پیاسا حسین کو کہوں، اتنا تو بے ادب نہیں
لمسِ لبِ حسین کو، ترسا ہے آب ریت پر
آلِ نبی کا کام تھا، آلِ نبی ہی کر گئے
کوئی نہ لکھ سکا ادیبؔ، ایسی کتاب ریت پر

امام حسین نے یہ عظیم قربانی اس لیے دی ہے کہ آپ خاندان نبوت کے چشم وچراغ تھے ،حضرت فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا کی آغوش پاک میں آپ کی تربیت ہوئی اور جب مائیں فاطمۃ الزھرا جیسی ہوں، تب ہی حسین جیسے جنم لیتے ہیں ، اقبال موت کے متعلق کہتے ہیں:

زندگی محکم ز تسلیم و رضا ست
موت نیرنج و طلسم و سیمیاست
بندہ حق ضیغم و آہوست مرگ
یک مقام از صد مقام اوست مرگ
می فتد بر مرگ آن مرد تمام
مثل شاہینی کہ افتد بر حمام
ہر زماں میرد غلام از بیم مرگ
زندگی او را حرام از بیم مرگ
بندہ آزاد را شأنے دگر
مرگ او را میدہد جانی دگر
او خود اندیش است مرگ اندیش نیست
مرگ آزادان ز آنی بیش نیست

ترجمہ:’’زندگی تسلیم و رضا (اللہ تعالیٰ کے سامنے سرتسلیم خم کر دینا اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہنے)سے استحکام پاتی ہے، موت صرف طلسم ، وہم اور نیرنگ ہے،اللہ تعالیٰ کا بندہ شیر ہے اورموت اس کے لیے ہرن ہے ، موت اس کے سینکڑوں مقامات میں سے ایک مقام ہے،وہ مرد کامل موت پر اس طرح جھپٹتا ہے جیسے شاہین کبوتر پر،(نفس کا)غلام ہر لمحہ موت کے خوف سے مرتا ہے، موت کے ڈر سے اس کی زندگی حرام ہو جاتی ہے،مگر اللہ تعالیٰ کے بندے کی شان یہ ہے کہ موت اسے نئی زندگی عطا کرتی ہے،اللہ تعالیٰ کے بندے کو اپنی فکر رہتی ہے (کہ میں احکام الٰہی کا پابند ہوں یا نہیں)،اسے موت کی فکر نہیں،اللہ والوں کی موت ایک لمحے سے زیادہ نہیں‘‘۔

مگر ہم جس دور میں جی رہے ہیں، اس میں کربلا کے تاجراور خونِ حسین کے سودا گر تو بہت ہیں، لیکن سنّتِ حسینی کو ادا کرتے ہوئے یزیدِ وقت کے سامنے سینہ سپرہونے والے اور اپنی کربلا سجانے والے ناپید ہیں، بس منافقت کا دوردورہ ہے، کسی نے خوب کہا ہے:

عجب تیری سیاست، عجب ترا نظام
یزید سے بھی مراسم، حسین کو بھی سلام

اسی حقیقت کو علامہ اقبال نے اس شعر میں بیان کیا ہے:

قافلۂ حجاز میں، ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار، ابھی گیسوئے دجلہ وفرات

Comments

Click here to post a comment