ہوم << خانہ داری لڑکیوں کو پھر سے کیوں مرغوب ہے- سعدیہ قریشی

خانہ داری لڑکیوں کو پھر سے کیوں مرغوب ہے- سعدیہ قریشی

مسائل در مسائل اور ایشو در ایشو اس پر مستزاد سیاسی حالات کی گرد میں سوچ کا پنچھی کسی نئے موضوع کا رزق تلاشنے میں ادھر ادھر اڑتا پھرتا تھا کہ فیس بک پر زارا مظہر کی تحریر میری نظر سے گزری۔زارا مظہر سوشل میڈیا پر مقبول لکھاری ہیں۔ گھر،گھرداری ،باغبانی ، خانگی مسائل پر مبنی افسانے ان کا میدان ہیں ۔

تحریر بنی سنوری چمکتی ہوئی سوشل میڈیا قارئین سے خوب داد پاتی ہے۔زارا مظہر نے اپنی تحریروں کے ایک کردار سوسن کا پس منظر بتایا کہ یہ ایک اولڈ فیشنڈ کردار ہے جسے گھر داری سے محبت ہے۔سوسن کے لبادے میں زارا مظہر اپنے سلیقہ شعاری کی کہانیاں بھی سناتی ہیں۔مجھے پنساکولا فلوریڈا کی وہ سوسن ایڈم یاد آجاتی ہیں جو ہماری ٹریول گائیڈ تھیں۔عمر 75 سال سے اوپر تھی ۔بھاری جسم ،گوری چٹی مگر انتہائی سلیقہ والی پرانے طور اطوار سے آراستہ نانی دادی تھیں۔کڑھائی، بنائی ،سلائی کی ماہر۔پرانی ٹی شرٹس سے آرٹ کے نمونے بناتی اور پرانے سویٹروں کو اپنے ہنر سے نئی شکل دے کر دوبارہ پہنتیں۔ایک روز زرد رنگ کی اونی ٹوپی پہنی ہوئی تھی جس پر ایک طرف اون کا ایک پھول سجایا ہوا تھا ۔ کہنے لگی کہ یہ میرا پرانا سوئیٹر تھا جس کی بازو کاٹ کے میں نے یہ ٹوپی بنائی ہے۔ سوسن ایڈم کی شکل میں ہم نے ایک اصلی اولڈ فیشنڈ سوسن سے ملاقات کرلی۔

زارا مظہر کی سوسن بھی ایسی سگھڑ اور گھر داری کی ماہر ہے۔ کالم کامحرک یہ موضوع اس طرح سے بنا کے کچھ دن پہلے میں نے ایک امریکی خاتون صحافی ایملی میچر کی کتاب انٹر نیٹ پر پڑھی جو بالکل ایک نئے مشاہدے پر لکھی گئی تھی۔کتاب کے ٹائٹل پر ایک سوئیٹر بنتی ہوئی لڑکی کی تصویر ہے ،ساتھ ہی ایک برتن میں خانہ داری کے اوزار پڑے ہیں۔ موضوع نیا نکور اور کتاب کا مواد بہت دلچسپ تھا۔کتاب کا نام تھا homeward bound: why Women Are Embracing The New Domesticity آسانی کے لیے اردو میں مفہوم یہ بنتا ہے۔سوئے منزل: خانہ داری لڑکیوں کو پھر سے کیوں مرغوب ہے ؟ اس میں لفظ کیوں بہت معنی خیز ہے۔ انیسویں صدی کا وسط جب یورپ میں صنعتی انقلاب آیا تو زیادہ سے زیادہ عورتیں گھروں سے کمانے کے لیے نکل کھڑی ہوئیں۔ عورتوں کے حقوق کا پرچار کرنے والی تنظمیوں نے بھی عورتوں کی معاشی آزادی کا نعرہ لگایا۔

اس کلچر میں گھر اور گھرداری کو عورتوں کے لیے قید خانہ بنا کر پیش کیا گیا۔ women emancipationکی تحریکیں چلیں، نتیجتََا پڑھی لکھی ماؤںنے گھر اوربچوںکوبوجھ سمجھا ۔وہ دفتروں اور کارخانوں میں کام کرنے لگیں بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ڈے کئیرمراکز کھل گئے۔ کچن کے چولہے ٹھنڈے ہوئے کھانے باہر سے آنے لگے ۔انیس سو پچاس سے پہلے لائف سٹائل بالکل مختلف تھا ،عورتیں گھروں میں فارم ہاوس سٹائل کی زندگی گزارتیں، سویٹر کی بنائی کرتیں، سبزیاں اگاتیں، کیک بیک کرتیں اور اپنے خاندان کو تازہ غذافراہم کرتیں۔کتاب میں میں ایملی کہتی ہیں کہ میرے لئے یہ حیران کن ہے کہ اس وقت ہم ٹیکنالوجی سے آراستہ زندگی گزار رہے ہیں لیکن اس دور میں نے اپنی جنریشن کی بہت سی پڑھی لکھی ماؤں کو اپنی نانی دادی والے انداز کی گھر داری کی طرف واپس پلٹتے ہوئے دیکھا ہے۔ کتاب میں بہت سی اعلی تعلیم یافتہ مائوں کے حوالے دئیے ہیں جنہوں نے اپنے کیرئیر کے عروج پرنوکری و چھوڑا اور ایک ماں کی حیثیت سے گھر پر رہ کر گھر داری اور بچے پالنے کو ترجیح دی۔

سوشل میڈیا ٹیکنالوجی نے آسان کردیا ہے کہ گھر داری کرتی یہ تعلیم یافتہ مائیںاپنے باغ میں سبزیاں اگاتے باورچی خانے میں کیک بیک کرتے، جیم بناتے کی ویڈیو اپلوڈ کر رہی ہیں۔پڑھی لکھی ماؤں کی یہ ایک پوری جنریشن ایسی ہے جس نے گھر داری کو ایک شاندار آرٹ صورت میں ڈھال کر سوشل میڈیا پر پیش کیا اور کمائی کا ذریعہ بنایا۔ایملی لکھتی ہیں کہ یہ حقیقت حیران کن ہے کہ سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں گھر داری کے اس نئے انداز نے جدت پسند اور رجعت پسند عورتوں،روایتی ماؤں اور انقلاب لانے کی شوقین مائوں کو ایک جگہ اکٹھا کردیا ہے۔ کتاب کے ابواب کے نام دیکھئے۔ ذہنی پریشانی کے دور میں گھر داری کا عروج۔ ورکنگ ویمن کی تاریخ۔ بلاگرز: گھر داری ایک شاندار آرٹ knitt your own job گھر کا کام اپنے ہاتھوں سے کرنے کا کلچر۔ خانہ داری کا یہ نیا تصور اپنی ورک پلیس سے ناخوش ماؤں کی نسل کو کیسے پسند آیا ہے ؟

ہمارے سامنے بہت سے سوال رکھتی ہے۔وہ بالکل ایک نیا منظر نامہ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے وہ اس گلوبل کلچر میں ہمیں نظر تو آ رہا ہے مگر شاید ہم ایملی کی طرح اسے کوئی نام نہیں دے سکے۔ اس پر باقاعدہ ریسرچ کی گئی اور بہت ساری خواتین سے انٹرویو کئیاور پھر ایک نتیجہ اخذ کیا۔ کتاب میں بہت ساری مثالیں دی گئی ہیں۔نیویارک ٹائمز کی ایک صحافی جس نے اپنے کیرئیر کے عروج پر نوکری سے استعفٰی دے کر ایک ایسے شخص سے شادی کی جو مضافاتی دیہات میں فارم ہائوس میں رہتا تھا ۔یہ خاتون صحافی اب مرغیوں کو پا پالتی ہیں، سبزیاں اگاتی ہیں اور اپنی خانہ داری کی سرگرمیوں پر بلاگز لکھتی ہے۔ وہ اپنی نوکری سے زیادہ کمارہی ہیں۔ ایملی میچر لکھتی ہے کہ یہ وہ نسل ہے جن کی مائیں کیرئیر ویمن تھیں، گھر اور باہر ہمیشہ ذہنی دباؤ کی حالت میں رہیں اس جنریشن نے کیرئیر ویمن بننے کی بجائے اپنی گرینڈ مدرز کی زندگیوں کے اطوار کو اپنانے پر ترجیح دی.

کیونکہ گھر میں بیٹھ کر بھی پوری دنیا سے جڑی ہیں اور کما سکتی ہیں۔ صنعتی انقلاب میں کیرئر ویمن کے لیے سیکس اینڈ سٹی گرل کا تصور پروان چڑھا مگر آج کی ان تعلیم یافتہ کمائی کرتی خانہ دار عورتوں نے اس تصور کو بدل دیا ہے۔سوچ سے لے کر زندگی کے طور اطوار تک یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے جو سماج میں عورتوں کے مقام اور کردار کا نئے سرے سے تعین کرے گی۔

Comments

Click here to post a comment