ہوم << تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات؛ امکانات و خدشات-ناصر انصاری

تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات؛ امکانات و خدشات-ناصر انصاری

گزشتہ دونوں پاکستان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے امن مذاکرات کیلئے ملک کے معروف مذہبی سکالر مفتی تقی عثمانی کی زیر قیادت علماء کا ایک وفد کابل روانہ کردیا ہے۔ پاکستان اس سے پہلے دہشتگردی کے دیرینہ مسئلے کے پر امن حل کیلئے تحریک طالبان پاکستان سے امارت اسلامیہ افغانستان کے تعاون سے مذاکرات کر چکا ہے۔ گزشتہ ماہ علماء کے ایک تیرہ رکنی وفد کا دورۂِ کابل اور اس سے قبل پچاس رکنی قبائلی جرگہ کا انعقاد بھی پاکستان کی جانب سے امن کو موقع دینے کی انہی کاوشوں کا حصہ تھا۔

پاکستان میں تحریک طالبان کیا قیام باقاعدہ طور پر 2007ء میں عمل میں آیا اور گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے ملک میں دہشتگردانہ اور خونریز کارروائیوں میں ملوث ہے جن میں اب تک اسّی ہزار سے زائد پاکستانی لقمۂِ اجل بن چکے ہیں۔ تحریک طالبان کی سب سے دہشتناک اور خونریز کاروائی 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ تھا جس کے بعد حکومت نے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا اور دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے کاوشیں تیز تر کردیں۔ دہشتگردی کے سدِ باب کیلئے سخت اور نرم دونوں طریقے پاکستانی فیصلہ سازوں کی پالیسی کا حصہ رہے ہیں جن کے مطابق طالبان کے حلقوں میں موجود امن کی طرف مائل، قابلِ اصلاح اور قومی دھارے میں شامل ہونے کے خواہشمند افراد کو پرامن طریقے سے قومی دھارے میں شامل کرنا جبکہ متشدد اور ناقابلِ اصلاح عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جانا ہے۔ پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی جانب سے وقتاً فوقتاً کئے جانے والے سیکیورٹی آپریشنز اور مذاکرات پاکستان کی اسی پالیسی کا مظہر ہیں۔

پاکستان اس وقت بہت سے محاذوں پر مختلف دشمنوں سے نبرد آزما ہے۔ خارجہ محاذ پر فتح کیلئے داخلی استحکام اور امن و امان کا قیام نہایت ناگزیر ہے۔ پاکستان کو اس وقت جہاں بلوچستان میں علیحدگی پسندوں اور عسکریت پسندوں کی دہشتگردانہ کاروائیوں کا سامنا ہے وہاں ملکی کی معاشی و سیاسی صورتحال بھی زیادہ حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ تحریکِ طالبان پاکستان کی پاک افغان سرحد کے آر پار موجودگی دونوں برادر اسلامی ممالک کے گہرے تعلقات پر بھی منفی اثرات کی وجہ بن سکتی ہے جو کہ دہائیوں کے بعد اب جا کر کہیں بہتر ہوئے ہیں اور یوں پاکستان کیلئے خارجہ سطح پر ایک اور محاذ کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ ملک میں امن اور سلامتی کی ایسی غیر یقینی صورتحال یقیناً بیرونی مداخلت کیلئے زمین ہموار کرے گی اور یوں ملکی سلامتی کیلئے مزید مسائل اور چلینجز پیدا ہونگے۔ اس لئے سب سے پہلے داخلی استحکام اور امن کا قیام لازمی ہے۔ اس کیلئے بہترین راستہ یہی ہے کہ مسلح گروہوں میں موجود قومی دھارے میں شامل ہونے کے خواہشمند حلقوں کو ایک موقع دیا جائے جبکہ شرانگیزی اور قتل و غارتگری پر مائل عناصر کو بذریعۂِ قوت جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں تاخیر نہ کی جائے۔ تحریک طالبان پاکستان سے کابل میں ہونے والے مذاکرات اس حوالے سے بہت اہم ہیں کیونکہ ان کے نتائج سے پاکستان کے پالیسی سازوں کیلئے واضح ہوجائے گا کہ دہشتگردی کی بیخ کنی کیلئے کونسا راستہ اختیار کیا جائے۔

اگر کابل امن مذاکرات میں دونوں فریقوں کے مابین کوئی مثبت سمجھوتہ طے پاتا ہے تو یقیناً یہ ایک حوصلہ افزاء پیشرفت ہوگی لیکن پھر بھی خدشات سے خالی نہ ہوگا۔ کسی بھی سمجھوتے کی صورت میں پاکستان کو اپنے ریاستی، عوامی اور سیکیورٹی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔ یہاں سب سے اہم اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ فریقین کونسے مطالبات سامنے رکھتے ہیں؟ کونسی پیشکش اور رعایتیں دینے اور لینے کے خواہاں ہیں؟ اطلاعات کے مطابق پاکستانی سیکیورٹی فورسز کا طالبان سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ ریاست سے ایک طویل المیعاد جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ اپنی تنظیم کو تحلیل کریے اور ہتھیار پھینک کر قومی سیاسی دھارے میں شامل ہوں۔ اس کے بدلے میں طالبان اور ان کے خاندانوں کو افغانستان سے پاکستان واپسی کا محفوظ راستہ مہیا کیا جائے گا۔ جبکہ طالبان کی طرف سے دو بڑے مطالبات سامنے آرہے ہیں۔ پہلا یہ کہ سابقہ تمام قبائلی علاقہ جات سے سیکیورٹی فورسز کی تعداد میں خاطر خواہ کمی لائی جائے۔ دوسرا یہ کہ آئینِ پاکستان میں ترمیم کر کے سابقہ فاٹا کے انضمام کو ختم کیا جائے اور قبائل کی آزاد حیثیت کو بحال کیا جائے۔ پاکستانی حکام کیلئے پہلا مطالبہ قابل غور ہوسکتا یے لیکن دوسرا مطالبہ یقیناً کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہونا چاہیے۔ فاٹا ستر سال سے زائد عرصے کے صبر آزما انتظار اور بہت سے تلخ تجربات اور قربانیوں کے بعد صوبائی انتظام میں ضم ہوا ہے۔ اس انضمام کا خاتمہ اس علاقے سے قانونی و ریاستی چھتری کو ہٹانے اور شرپسند عناصر کے ہاتھوں یرغمال ہونے دینے کے مترادف ہوگا۔ اس صورت میں نہ صرف سیکیورٹی کے نئے مسائل سر اٹھائیں گے بلکہ سابقہ فاٹا کی ترقی اور تعمیر کے امکانات بھی معدوم ہونگے جو کسی صورت فاٹا کے عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کو اپنے حدود و قیود واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ کونسے موضوعات اور عنوانات قابلِ بحث ہیں اور کون سے نہیں۔

ایک اور اہم خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے تحریک طالبان کی جانب سے مذاکرات کیلئے آمادگی کا اظہار ایک تاخیری حربہ ہوسکتا ہے تاکہ ملٹری ایکشن کو وقتی طور پر موقوف کروا کے اپنی تنظیمِ نو کی جاسکے اور بھرپور طریقے سے کاروائی کرنے کیلئے وقت لیا جا سکے۔ پاکستانی حکام کو اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے نہایت سیاسی بصیرت اور حکمت پر مبنی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہوگا کہ طالبان افغانستان سے واپس آکر قبائلی علاقوں میں نئی قوت اور استعداد کے ساتھ دوبارہ اپنے گروپوں کی تشکیل نو کر کے ریاستی رٹ کو چیلنج نہ کریں۔ ایسی دھوکہ دہی کی صورت میں پاکستان کیلئے مزید سیکیورٹی مسائل پیدا ہونگے جن کا ان سیاسی و معاشی بحران کے حالات میں پاکستان بلکل متحمل نہیں ہوسکتا۔

ان تمام حالات میں افغان طالبان کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے جن کا تحریک طالبان کے رہنماؤں سے ایک گہرا تعلق رہا ہے۔ افغان طالبان رہنماؤں کے مطابق پاکستانی طالبان ان کے ساتھ اتحادی افواج کے خلاف جہاد میں شانہ بشانہ لڑے ہیں اور ان کےلئے قربانیاں دی ہیں۔ تحریک طالبان سے حالیہ اور اس سے پہلے کے امن مذاکرات میں بھی افغان طالبان نے سہولت کار کا فریضہ انجام دیتے ہوئے تعاون کیا ہے۔ بظاہر افغان طالبان ان مذاکراتی عمل سے خود کو دور رکھے ہوئے ہے اور صرف سہولت کار کی خدمت انجام دے رہے ہیں لیکن ضروری ہے کہ افغان طالبان بھی فریقین کے مطالبات کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرے۔ پاکستان نے ہر اچھے اور برے وقت میں افغان عبوری حکومت کا ساتھ دیا ہے اور آج بھی اسلامی برادری، ہمسائیگی اور گہرے تاریخی و ثقافتی تعلقات کی بنیاد پر پاکستان دنیا کے کسی بھی ملک کی نسبت زیادہ نمایاں طور پر عالمی فورمز پر افغانستان کے حق میں آواز بلند کر رہا ہے۔ اب افغانستان کی طالبان حکومت کی بھی زمہ داری ہے کہ پاکستان کے احسانات کی قدر کرتے ہوئے نہ صرف اپنی زمین کو پاکستان کی سلامتی کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے وعدے کو پورا کرے بلکہ تحریک طالبان پاکستان پر بھی مذاکراتی عمل میں دباؤ ڈالے۔ اس کے علاوہ کسی ممکنہ سمجھوتے اور مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں پاکستانی طالبان کو معاہدے پر عملدرآمد کا پابند بھی بنائے۔ یہی راستہ افغانستان کی طالبان حکومت کیلئے بھی نہایت موزوں ہے کیونکہ وہ بطور ثالث اور بروکر کردار ادا کرتے ہوئے دونوں طرف کے دباؤ سے بچ سکتا ہے۔ بصورت دیگر پاکستان کے پاس ملٹری آپریشن کا راستہ ہی بچتا ہے۔ اس صورت میں پاکستانی طالبان کیلئے جائے فرار و قرار افغانستان ہی ہے اور اگر افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے تو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لہذا دانشمندی کا تقاضا اور وقت کی ضرورت یہی ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت اس امن مذاکرات کو کامیاب کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے اور ایک ایسی حکمت عملی اپنائے جو پاکستان کی داخلی سلامتی اور تحفظ کے ساتھ افغانستان پاکستان تعلقات کو بھی مظبوط تر بنائے۔