ہوم << ساڑھ ستی کے بعد کا منظر - عبداللہ طارق سہیل

ساڑھ ستی کے بعد کا منظر - عبداللہ طارق سہیل

منگل کی صبح الیکشن کمشن نے جو فیصلہ سنایا، وہ پی ٹی آئی کی سمجھ میں چند گھنٹے بعد آیا۔ اس سے پہلے کی صورت حال یہ تھی کہ ٹی وی چینلز نے ابھی فیصلے کی سرخیاں (ٹکر) ٹھیک سے پیش بھی نہیں کئے تھے کہ پی ٹی آئی کے تین رہنما میڈیا کے سامنے آ گئے.

اور فیصلے کو اپنی فتح، حکومت کی شکست قرار دینے لگے۔ ایک رہنما نے تو یہ بھی کہا کہ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔ لیکن سب سے زیادہ جوش میں اپنے ملتان والے قبلہ شاہ محمود قریشی صاحب آئے۔ انہوں نے اپنے بیان پر مسرت میں اس بات پر خدا کا شکر ادا کیا کہ خدا نے خان صاحب کو سرخرو کیا اور حکومت کو منہ کی کھانا پڑی۔ بیان میں بس اتنی کسر رہ گئی کہ قریشی صاحب نے شکرانہ کے نوافل پڑھنے کی کال نہیں دی۔ وہ چاہتے تو دو روزہ ملک گیر جشن کا اعلان بھی کر سکتے تھے۔ بہرحال یہ دن کی شروعات تھی۔ سورج کے نصف النہار کا سفر طے کرتے کرتے پارٹی کو فیصلے کی کچھ کچھ سمجھ آنا شروع ہو گئی اور چند گھنٹوں میں معاملہ فہمی کا سفر عملی ہوا تو جشن کی فضا غائب ہو گئی.

اس کی جگہ اداسی اور ”لو بلڈ پریشر“ نے لے لی۔ لو بلڈ پریشر میں بھی غصہ آ جایا کرتا ہے چنانچہ شیخ صاحب کو بھی آیا اور انہوں نے جو بیان داغا، اس میں جہاں انہوں نے اپوزیشن کی سیاست کا بیڑا غرق ہونے کی دعا فرمائی، وہاں یہ امید بھی ظاہر کی کہ معاملہ جونہی سپریم کورٹ جائے گا، پہلی سماعت ہی میں اڑا کر رکھ دیا جائے گا۔ پہلی سماعت کے لفظ شیخ جی نے استعمال کئے ، ایک ٹی وی کو ببپر دیتے ہوئے انہوں نے یہ بات نظرانداز کر دی کہ فیصلہ اڑانے کے لیے متعلقہ فریقوں کے وکیلوں کو بھی سنا جاتا ہے۔ غنیمت ہے کہ شیخ جی نے اپنی شیخی کو صرف فیصلے تک محدود رکھا، یہ نہیں کہہ ڈالا کہ الیکشن کمشن کو بھی ساتھ ہی اڑا کررکھ دیا جائے۔

شیخ جی کی غم و غصہ سے بھرپور شیخی اپنی جگہ لیکن پارٹی رہنماﺅں کو اور خود عمران خان کو بھی احساس ہے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں رہا۔ جو حالات سامنے ہیں اور جو پس پردہ ہیں، وہ ستاروں کی الٹی گردش کی خبر دے رہے ہیں۔ ایک سیاسی نجومی نے کہا کہ خان صاحب اور ان کی پارٹی کے لیے ”ساڑھ ستی“ کا دور شروع ہو چکا ہے۔ یہ کہ ساڑھے سات برس سے پہلے اچھا وقت نہیں آئے گا۔ ساڑھے سات بعد اچھے وقت کا آنا ضروری نہیں، بس یہ ہے کہ برا وقت ٹل جائے گا۔

مطلب 71 برس کے خان صاحب تب اس عمر کو پہنچ چکے ہوں گے جس عمر میں اب پرویز الٰہی ہیں، جنہیں خان صاحب نے وزیر اعلیٰ کا ٹائٹل تو دے دیا ہے لیکن اختیار نہیں، حتیٰ کہ کابینہ کے ارکان کا انتخاب بھی خاں صاحب نے ، بلاضرورت مشورہ اخود ہی کیا ہے۔ ساڑھے سات برس بعد حالات کیا ہوں گے، کون جانتا ہے۔ بہرحال، خان صاحب ایک بار پھر میدان میں آئیں گے تو ان کا پہلا اعلان کیا ہو گا۔ دھرنے کا یا لانگ مارچ کا؟ یہ اعلان کرنے سے تو وہ بہرحال گریز کریں گے کہ چوروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ اس لیے کہ الیکشن کمشن کا فیصلہ آئے ابھی محض ساڑھے سات برس ہی گزرے ہوں گے۔

یہ بات بھی وہ نہیں دہرائیں گے کہ کچھ بھی ہو، پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کو منصب نہیں دوں گا۔ اس لیے کہ تب شاید یہ ایشو ہی نہیں ہو گا۔ مطلب اس کی ضرورت ہی کہاں رہے گی۔ ہاں کچھ اعلانات میں وہ ”اضافے“ کر سکتے ہیں۔ مثلاً اس بار 50 لاکھ نہیں، ایک کروڑ نوکریاں دوں گا (آبادی بھی بڑھ گئی ہو گی اور بے روزگاروں کی گنتی بھی)۔ ایک نہیں، دو کروڑ گھر بناﺅں گا۔ ملک کے چپے چپے پر لنگر خانوں کا جال بچھا دوں گا۔

مراد سعید اپنی تقریر کا ”ری پلے“ کیسے کریں گے۔؟ کیا یہ کہیں گے کہ خان آئے گا، دو سو ارب ڈالر باہر سے لائے گا، فلاں فلاں کے منہ پر مارے گا؟۔ شاید لیکن انہیں واپس لائی جانے والی دولت کی مالیت بڑھانا پڑے گی۔ دو سو ارب کی جگہ شاید دو ہزار ارب ڈالر واپس لانے کی نوید سنانا ہو گی۔ شیخ صاحب بھی تب تک 80 کا ہندسہ پار کر چکے ہوں گے۔ آگ لگا دو مار دو مار دو اڑا دو تباہ کر دو والے جذبات میں کچھ تو ٹھہراﺅ آ چکا ہو گا۔ اگرچہ ارادے بدستور بلند ہوں گے، یوں فرمایا کریں گے کہ میرا خان آئے گا ایک ہی بال میں ن لیگ کی سیاست کا بیڑا غرق کر دے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے تب تک وہ زرداری سب پر بھاری کے حلقہ بگوش ہو چکے ہوں اور یہ نعرہ لگا ڈالیں کہ لکھ لو، کشمیر میرے سیّد بلاول علی بھٹو زرداری شاہ صاحب کے دور ہی میں آزاد ہو گا۔

مشرف کے دور میں انہوں نے یہی بات کہی تھی، لکھ لو، کشمیر میرے سیّد مشرف کے دور ہی میں آزاد ہو گا۔ ٹھیک چھ مہینے بعد ان کا سیّد استعفیٰ دے کر عازم دبئی ہو چکا تھا۔ بہرحال، یہ آنے والے دور کی ایک دھندلی سی تصویر کے سوا کچھ نہیں، زمانہ حال کی طرف واپس لوٹیے تو خان صاحب کے لیے گھور سمسیائیں کھڑی ہیں، ان کی ڈگر کٹھن سے کٹھن ہو چلی ہے، پہلی بار انہیں ”گرم ہوا“ لگی ہے اور شالا تتّی ہوا نہ لگے والی فضا ختم ہو گئی ہے۔ انہیں یقین نہیں آ رہا کہ کوئی عدالت (یا عدالت جیسا کوئی ادارہ) ان کے خلاف بھی فیصلہ دے سکتی ہے۔ وہ اس بات پر بھی حیران ہیں کہ وہ فرشتے کہاں گئے جو ہر مشکل وقت میں غیب سے ظاہر ہو کر انہیں صاف بچا لے جاتے تھے۔ وہ آخر شب ہم سفر نہ جانے کیا ہوئے ۔ شیخ صاحب کی یہ خواہش پوری ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر سے بھی کم ہیں کہ فیصلہ اڑا کر رکھ دیا جائے گا لیکن برسبیل تذکرہ، ان سے یہ سوال پوچھنے کو دل کرتا ہے کہ شیخ جی، وہ پاکستان کو سری لنکا بنانے کے پراجیکٹ کا کیا بنا، معاملہ کہاں تک پہنچا۔

نصیب دشمناں، دو ہفتے گزر گئے، آپ نے اپنے کسی ایک بیان میں اس کا ذکر کیا نہ اس خونی انقلاب کی نوید سنائی جو پہلے ہر دوسرے روز سنایا کرتے تھے۔ شیخ میاں، اتنی بھی کیا مایوسی کہ انقلاب کا مینیو ہی بھول گئے واحد امید فیصلہ اڑائے جانے سے باندھ لی۔ آخر شب کے ایک باغ و بہار ہم سفر جاوید اقبال بھی تھے۔ نیب کی سربراہی سے فارغ ہو چکے ، اب حکومت انہیں لاپتہ افراد کے کمشن کی سربراہی سے بھی سبکدوش کرنا چاہتی ہے۔ فی االوقت یہ سبکدوشی ٹل گئی ہے کہ اس بارے میں سینٹ کمیٹی کی سفارش عدالت نے معطل کر دی ہے۔

ایک دلچسپ خبر یہ ہے کہ ہم سفر صاحب نے اس کمشن کے قیام کو عدالت میں چیلنج کر دیا ہے جو حکومت نے ایک محترمہ طیبہ گل کے الزامات کی تحقیق کے لیے بنایا تھا۔ طیبہ گل نے محترم ہم سفر پر بہت سنگین الزامات لگائے تھے جن کو ہم سفر نے سراسر جھوٹ قرار دیا تھا۔

سراسر جھوٹے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئیں، ہم سفر نہ جانے اس تحقیقات سے اتنے کیوں ڈر گئے کہ کمشن کا قیام ہی چیلنج کر دیا۔ خوف کی فضا بعض دیکر ہم سفر حضرات پر بھی چھائی ہوئی ہے۔ اب اور کیا کہیئے ، سوائے اس کے کہ ڈر بری بلا ہے اور یہ کہ جو ڈر گیا وہ ....خیر چھوڑئیے۔

Comments

Click here to post a comment