ہوم << پاکستانی سیاست کے دلچسپ رجحانات - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

پاکستانی سیاست کے دلچسپ رجحانات - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

عاصم اللہ بخش پچھلے چند دنوں میں پاکستانی سیاست میں چند دلچسپ رجحانات دیکھنے میں آئے ہیں. سندھ اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوں کے حوالہ سے پارٹی رہنماؤں نے بالترتیب اہم عہدیداروں کی تبدیلی اور آئندہ کے لیے حکومتی پالیسی کے اعلانات کیے ہیں.
مشرق وسطی اور ترکی کے حالات کے تناظر میں بڑھتے بیرونی چیلنجز اور آزاد کشمیر انتخابات میں مسلم لیگ ن کی واضح کامیابی کے بعد محسوس ہو رہا ہے کہ وفاقی حکومت کو ہٹانے کا "بھاری" پتھر چوم کر رکھ دیا گیا ہے اور اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف اب 2018 ہی کو بذریعہ الیکشن کسی ممکنہ تبدیلی کا سال دیکھ رہی ہیں. یہ اس لحاظ سے مثبت بات ہے کہ اس کا تمام تر فائدہ عوام کو ہوگا جو بےچارے ان آخری دو سال کے انتظار میں پہلے تین سال ہر جانب سے محض وعدوں اور دعووں پر ہی ٹرخائے جاتے رہتے ہیں.
خیبر پختونخوا میں ترقیاتی فنڈز کی بذریعہ بلدیاتی نظام گراس روٹ لیول تک منتقلی تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کا ایک اہم اور دوررس اقدام ہے جس کے ثمرات عوام تک براہ راست پہنچنے کی توقع ہے. حقیقت میں سب اسی طرح ہو، اسے یقینی بنانا حکومت اور پارٹی لیڈرشپ کی ذمہ داری ہے.
میری نظر میں سندھ میں وقوع پذیر ہونے والے اقدامات کی اہمیت زیادہ ہے کیونکہ یہ پیپلز پارٹی کے مستقبل کے لیے بہت سے مضمرات لیے ہوئے ہیں. صرف سندھ میں ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں. پیپلزپارٹی نے سندھ میں اپنے "مستقل" وزیر اعلی سید قائم علی شاہ کی تبدیلی کا فیصلہ کر لیا ہے. یہ بلاول بھٹو زرداری کی بطور مقتدر پارٹی لیڈر باقاعدہ لانچنگ ہے. اب وہ اپنی ٹیم لانے کی بابت عمل بھی کر رہے ہیں. اپنی والدہ کی طرح وہ بھی "انکلز" کے بجائے نسبتاً نئے یا اپنے لوگوں کو سامنے لانا چاہتے ہیں جو انھیں ہدایات دینے کے بجائے ان سے ہدایات لینے کے لیے خود کو آمادہ کر سکیں. گو ان کے والد کا مشورہ اور ہدایت ان تمام فیصلوں میں ضرور شامل ہو گی لیکن انہوں نے اپنے لیے پس منظر کا انتخاب کرتے ہوئے سینٹر سٹیج بلاول کے لیے خالی کر دی ہے. نامزد وزیر اعلی سید مراد علی شاہ ایک شاندار تعلیمی کیریئر رکھتے ہیں اور اپنے باقی پارٹی ساتھیوں کی نسبت بےداغ شہرت کے حامل ہیں. انہیں سندھ کا وزیر خزانہ بنانے کا فیصلہ بھی بلاول ہی کا تھا.
جو مبصرین اسے محض چہرے کی تبدیلی سے تعبیر کر رہے ہیں، وہ اس بات سے صرف نظر فرما رہے ہیں کہ یہ تبدیلی ایک مشکل فیصلہ ہے. اسمبلی میں ووٹنگ اور پارٹی میں تقسیم یا بغاوت چند حقیقی رسک ہیں جو لیے گئے. یہ اتنے معمولی خدشات نہیں کہ کسی بڑے مقصد کی عدم موجودگی میں محض چیرہ تبدیل کرنے کے لیے یہ سب کیا جائے. بلاول بھٹو مراد علی شاہمراد علی شاہ کی آمد سے دو مقاصد کا حصول مطلوب ہو سکتا ہے. کرپشن پر قابو پانا تاکہ عمران خان کے نعرے کو ان ہی کے ساتھ خاص نہ رہنے دیا جائے بلکہ ظاہر کیا جائے کہ وہ ان سے بڑھ کر نہیں تو اسی قدر اس جدوجہد کے چیمپئن ضرور ہیں. دوسرا یہ کہ گورننس کے معاملات بہتر بنا کر مسلم لیگ نواز کو آئندہ انتخابات میں ایک مضبوط چیلنج دیا جا سکے. پیپلز پارٹی کے خیال میں یہ دو اقدام، خواہ سندھ میں ہی ہوں، پورے ملک میں ان کے ناراض، مایوس اور پژمردہ کارکنوں میں ایک نئی روح پھونک سکتے ہیں. ان کو یہ بھی توقع ہوگی کہ دوسرے صوبوں، بالخصوص پنجاب میں ان کی پارٹی کو چھوڑ کر جانے والے لیڈر حضرات بھی شاید واپسی کا رخ کر لیں، خاص طور سے وہ جو تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے.
سندھ میں مراد علی شاہ کے لیے گھمبیر مسائل موجود ہیں. کراچی آپریشن، رینجرز اور فوج سے ورکنگ ریلیشنز رکھنا، ایم کیو ایم سے تعلقات، پھر اندرون سندھ امن و امان اور ڈاکوؤں کے گروہوں سے نبرد آزما ہونا صرف چند بڑے مسائل ہیں. یہ بھی دیکھنا ہوگا خود ان کی پارٹی کے سینئر اراکین ان کے ساتھ کیسا چلتے ہیں. سید خورشید شاہ کا آن ریکارڈ سرد مہری کا مظاہرہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا. نئے وزیر اعلی کو بلدیاتی اداروں اور نمائندوں کو فعال کرنے کے لیے بھی سرعت سے آگے بڑھنا ہو گا تا کہ ایم کیو ایم کو دیوار سے لگائے جانے کا تاثر ختم ہو.
یہ بھی دلچسپ ہوگا کہ بلاول کے سامنے آنے پر کراچی آپریشن میں مصروف حلقے ان کو کس قدر سپیس دیتے ہیں. کیا فریال تالپور کے معاملہ پر غض بصر کا معاملہ ہوگا؟ کیا اب وہ سیاست میں کوئی فعال کردار ادا کر پائیں گی یا انہیں پس منظر میں جانا ہوگا. اسی ضمن میں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ذوالفقار مرزا کیا کردار ادا کریں گے، اپنے بھتیجے کے ساتھ ہوں گے یا اس کے مخالف. فوج کے ساتھ بلاول کی انڈرسٹینڈنگ جانچنے کے لیے یہ بھی ایک کسوٹی ہو گا.
کام بہت ہیں اور مسائل گھمبیر. تاہم، حالات کا آئندہ رخ کیا ہوگا، بہتری ہوگی یا پرنالہ وہیں گرتا رہے گا؟ اس کا فیصلہ مراد علی شاۃ صاحب کی وزارت اعلی کے شروع کے چند دنوں میں اہم انتظامی عہدوں پر تقرریوں اور پالیسی گائیڈ لائنز سے ہی ہو جائے گا.

Comments

Click here to post a comment