ہوم << اخلاق، تربیت اور بچے - انوار الحق

اخلاق، تربیت اور بچے - انوار الحق

انوار الحق دلیل پر بچوں کی تربیت کے حوالے سے تین مضمون نظر سے گزرے، جن میں نہایت عمدگی سے اس بات کا احا طہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ بچوں کی تربیت کیسے کی جائے؟ ایک بات جو اس حوالے سے ذہن میں کھٹکتی ہے کہ بچوں کی تربیت کے معاملے میں بھی ہم دو انتہاؤں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اگر ایک طرف ایسے والدین ہیں جنہیں یہ تک نہیں پتا کہ ان کے بچے سارا دن، ساری رات کیا کرتے ہیں تو دوسری طرف ایسے والدین بھی ہیں جو اپنے بچوں کو گھر کے اندر ہوا میں ہاتھ کھول کر اسے بھی اپنے اندر جذب نہیں کرنے دیتے۔ اتنی سختی یا نرمی معاشرے کا عموم تو نہیں ہے مگر ایسے لوگ موجود ضرور ہیں۔
معاشرے کا بچوں کے حوالے سے مقبول عام رویہ یہی ہے کہ ان کی خوراک، تعلیم، صحت اور ضروریات زندگی کا ہر طرح سے خیا ل رکھو، تعلیم میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نظر آئے تو تنبیہ کرو اور عمومی معاشرتی مزاج کے خلاف کوئی عمل سرزد ہوجائے تو اس پر گرفت کرو۔ چونکہ ہمارا عمومی معا شرتی مزاج زیادہ مذہبی یا تعلیم و تعلم سے شغف رکھنے والا نہیں ہے، سو ایسے میں مذہب سے متعلقہ امور اور کتب بینی و مطالعے کے حوالے سے زیادہ سختی دیکھنے میں نہیں آتی۔ اخلاقیات کا تصور مذہب و تعلیم سے وابستہ ہے، جب مذہب عام لوگوں کی زندگیوں میں چند عبادات سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا تو اخلاقی تربیت میں کمی رہ جاتی ہے۔ بعض اوقات ایک انسان عبادات میں پیش پیش ہونے کے باوجود اخلاقیات اور معاملات کے میدان میں ایسی ایسی حرکتوں کا مرتکب ہو رہا ہوتا ہے، جن کے بارے میں ہم اکثر کہتے ہیں کوئی مسلمان ایسا کیسے کرسکتا ہے؟
تعلیم کے ساتھ بچوں کی اخلاقی اصلاح کا تصور جڑا ہوا ہے اور بلا شبہ اچھے اساتذہ بچوں کی اخلاقی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں لیکن موجودہ دور میں رسمی اور فنی علوم کی زیادتی اور سلیبس پر عمل درآمد کے اہتمام نے اخلاقی تربیت کی حیثیت ثانوی کردی ہے۔ اس کی ایک اور وجہ استاد اور شاگرد کے مابین تعلق کی نوعیت کی بھی ہے جو زیادہ تر کاروباری ہو چکی ہے۔ سو والدین، مذہبی ادارے اور تعلیم مجموعی طور پر اخلاقی تربیت کرنے سے قاصر ہیں۔ میڈیا بھی ایک اہم فیکٹر کے طور پر سامنے آیا ہے اور اخلاقیات کی خرابی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس ماحول میں ایسی تربیت کرنا جو ان تینوں مضامین میں بیان کی گئی ہے، اگر ناممکن نہیں تو بہت دشوار ہے۔ اچھی تربیت کے لیے عملی صورت وہی ہے جو مجاہد تارڑ صا حب نے بیان کی ہے کہ ہر طرح سے جدیدیت سے متعلق رہنا ہے اور بچ کے بھی رہنا ہے۔ اور ذرا سی محنت و کاوش سے یہ ممکن ہے۔
بچوں کی تربیت کے ضمن میں ایک بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ انھیں سختی کا احساس نہ ہو۔ انھیں یہ نہ لگے کہ ان پر بےجا پابندیاں لگائی گئی ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنی زندگی سے لطف بھی نہیں اٹھاسکتے۔ اگر ایسا ہوا تو ساری تربیت صرف سامنے سامنے مئوثر رہے گی، اس کے کوئی دوررس نتائج نہیں مرتب ہونگے۔ بچوں کو والدین بےشک اپنے طریقے سے چلائیں، ان پر نظر رکھیں، کمپیوٹر اور موبائل کے استمعال کے حوالے سے احتیاط برتیں، بچے کے دوستوں سے متعلق واقفیت رکھیں، بچے کا وقت کن کاموں میں صرف ہو رہا ہے، اس کا خیال رکھیں مگر بچے کی تخلیقی صلاحیت اور آگے بڑھنے کے جذبے کو مت کچلیں۔ ہر ممکن طریقے سے بچوں کی نگرانی اور راہنمائی کریں مگر ان کی خود اعتمادی کو مجروح نہ ہونے دیں۔ تربیت کا تقاضا ہے کہ سختی کے ساتھ اس پہلو کو بھی مدنظر رکھا جائے تاکہ بچے کی زندگی میں کوئی خلا نہ رہ جائے۔
آخر میں ممتاز مفتی کی کتاب تلاش سے ایک بات کہ ہر بچے کے لیے اس کا اپنا دور جینا ضروری ہوتا ہے۔ اپنے بچوں کی تربیت بھی کریں اور انہیں اپنا دور بھی جینے دیں۔ اب یہ والدین پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح اس توازن کو برقرار رکھتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment