ہوم << مظلوم کا حقِ مزاحمت اور اسلام - جمیل اصغر جامی

مظلوم کا حقِ مزاحمت اور اسلام - جمیل اصغر جامی

جمیل اصغر جامیجبر اور ظلم کے خلاف جدوجہد انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ انسان کیا یہ ہر ذی روح کی فطرت کا حصہ ہے۔ زمین پر رینگنے والا ایک کیڑا بھی جب اپنی بقا کو خطرے میں پاتا ہے، تو پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر، پوری سرعت اور قوت سے مقابلے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ظلم کے خلاف جدوجہد، بقا کی جدوجہد ہے۔ دنیا کا ہر ضابطہ، دستور، اور اخلاقی اُصول اس جہدوجہد کی نہ صرف اجازت دیتا ہے، بلکہ اس کی تائید بھی کرتا ہے۔ کوئی ضابطہ، قانون یا مذہب اس بنیادی جبلی اُصول کی نفی کرکے، کائنات کی کسی ادنٰی درجے کی مخلوق کی تائید بھی حاصل نہیں کرسکتا، چہ جائیکہ کہ وہ انسانوں میں قبول عام حاصل کرلے۔
اسلام کا تو سب سے بڑا دعوی انفرادیت ہی یہ ہے کہ یہ ''دینِ فطرت'' ہے۔ اگر آپ اول و آخر اسلام کا مطالعہ کریں، تو یہ حقیقت بالکل واضح ہوجائے گی کہ یہ وہ مذہب ہے جو انسانی فطرت کے تمام جائز داعیات کا اثبات کرتا ہے اور ان کی تکمیل کے لیے بنیادی اخلاقی حدود و قیود کا ایک ضابطہ رکھتا ہے۔ ظلم اور جبر کے حوالے سے بھی اسلام مظلوم کی مزاحمت کے بنیادی فطری حق کا اثبات کرتاہے، ظالم اور مظلوم کے درمیان طاقت کے عدم توازن کو بھی بخوبی سمجھتا ہے لیکن اس عدم توازن کے باوجود مظلوم کا حقِ مزاحمت تسلیم کرتا ہے۔ اسی لیے تو ارشاد ہوا: ''کتنی ہی چھوٹی جماعتیں رہی ہیں، جو اللہ کے قانونِ صبر و استقامت سے بڑی جماعتوں پر غالب آگئیں، اور اللہ کی مدد تو ثابت قدم لوگوں کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔'' پھر ظلم کے سامنے، لامتناہی صبرِ مطلق تو سر تا سر ظالم کی مدد ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ حکمت عملی کا تعین کیا جائے، سارے عوامل کو مدنظر رکھا جائے اور وہ راستہ اپنایا جائے جو سب سے زیادہ سود مند ہو۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی کوئی قوم کسی جارح کے جبر کا شکار ہوئی، تو اس نے ایک گونہ مزاحمت کو روا رکھا اور بالآخر یہی مزاحمت اس کی نجات کا باعث بنی۔ قرآن ان الفاظ میں مظلوم کو اپنے دفاع کا حق دیتا ہے: ''ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جا رہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بےشک اﷲ ان کی مدد پر بڑا قادر ہے۔ (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے۔''
دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی قوم نے ظلم اور سفاکیت کے چلن کے سامنے صبر اور خود سپردگی کا رویہ اپنایا ہو، اور بالآخر، جارح طاقت نے یا تو رحم کھا کر، یا اپنی ساری کی ساری قاہرانہ طاقت صرف کر کے اس کی جان بخشی کردی ہو۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب بھی کوئی قوم مزاحمت کی راہِ پرخار کا انتخاب کرتی ہے، تو یہ فیصلہ اس کے لیے ہر چند کوئی آسان فیصلہ نہیں ہوتا۔ بھلا ایک ایسی قوم سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے کہ ہر راہ جو ادھر کو جاتی ہے، مقتل سے گزر کر جاتی ہے؟ وہ بخوبی جان چکی ہوتی ہے کہ سروں کی فصلیں کٹیں گی، خون مانند آب بہے گا اور مقتل سجیں گے۔ ظاہر ہے یہ سب جانتے ہوئے اگر ایک قوم کسی راہِ مغیلاں پر نکلتی ہے تو وہ اس سے پہلے بہت کچھ آزما چکی ہوتی ہے۔ بھلا کسے پڑی ہے کہ جو منزل کچھ سال جلسے اور جلوسوں کے اہتمام سے حاصل ہوسکے یا تحریر و تقریر اور سیاسی نشست و برخاست سے مل سکے، اس کے لیے سینے چھلنی کروائے، گردنیں کٹوائے اور لاشے اُٹھائے؟ اسی موضوع پر نوابزادہ نصراللہ خان علیہ الرحمہ کی دو لافانی سطریں:
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعائوں سے ٹلی ہے