ہوم << اسرائیل؛ آل سعود کا نیا معاشقہ - فیض اللہ خان

اسرائیل؛ آل سعود کا نیا معاشقہ - فیض اللہ خان

فیض اللہ خان جونہی امریکہ نے ہرجائی کی طرح سعودی عرب کو طلاق دی اور ایران کو اپنے حرم میں شامل کیا، تب سے ہی سعودی بادشاہوں کی بے چینی نمایاں تھی. ایسے میں اگر کسی سے عشق کی پینگیں بڑھا کر معاملات درست کرنے کی کوشش کی جاسکتی تھی تو وہ بنی اسرائیل ہی تھے، سو پیش رفت چوری چوری چپکے چپکے ہوتی رہی اور اب آل سعود کے چہیتے سابق فوجی جنرل نے اپنے تھنک ٹینک کے سرکردہ دماغوں کے ساتھ اعلی اسرائیلی سفارتکار سے بیت المقدس جا کر سرعام ملاقات کرلی، حالانکہ دونوں کے درمیان سفارتی تعلقات ہیں نہ ایک دوسرے کے سفری کی سہولت. یہ تو خیر سے سامنے کی بات ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان روابط پہلے سے تھے بلکہ کسی نہ کسی درجے میں ایران و پاکستان کے بھی ہیں اور اس میں قباحت بھی نہیں، کیونکہ ایسے معاملات بہرحال ریاستوں کی خارجہ پالیسی کا جز ہوا کرتے ہیں. مشرف دور میں اس حوالے سے کی جانے والی ملاقاتوں کے قصے خود خورشید محمود بیان کرچکے ہیں.
فطری بات ہے کہ سعودیوں اور یہودیوں کے درمیان اس ملاقات میں مقبوضہ بیت المقدس کی بازیابی سے متعلق گفتگو ہونے سے تو رہی، نہ ہی سعودی تھنک ٹینک نے اسرائیلیوں کو شریعت محمدی تسلیم کرنے اور امت محمدیہ میں شمولیت کی دعوت دی ہوگی. بات چیت کا محور و مرکز امریکا ایران کی نئی باضابطہ محبت ہی رہی ہوگی. ویسے ایران کے امریکی حکام سے خفیہ مراسم اس زمانے سے ہی قائم تھے جب وہاں رضا شاہ پہلوی کو ہٹا کر انقلاب کی داغ بیل ڈالی گئی تھی. ہاں بظاہر خوب نورا کشتی رہی اور ایرانی ملا سادہ لوح مسلمانوں کو کئی دہائیوں تک بیوقوف بناتے رہے، صد شکر کہ اب عام مسلمانوں کی اکثریت اس کھیل کو سمجھ چکی ہے.
سعودی عرب جانتا ہے کہ اس خطے میں ان کا سب سے بڑا اگر کوئی مخالف ہے تو وہ ایرانی فارسی ہیں اور گزشتہ عرصے میں جس طرح فارسیوں نے یمن، شام، بحرین اور لبنان و بغداد میں مداخلت کی، اس نے سعودی حکمرانوں کی چولیں ہلا دی ہیں. اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ سعودی دودھ کے دھلے ہیں. ان تمام جگہوں پہ ان کی مداخلت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں. ہر دو جانب سے اختیار کردہ پالیسیوں کے نتیجے میں بے گناہ مسلمان مارے گئے.
سعودی تھنک ٹینک کے یروشلم جانے اور وہاں ملاقات کرنے اور پھر اس کی تصویر سمیت اطلاع و تفصیل سوچ سمجھ کر ہی جاری کی گئی ہیں، دراصل اس کے ذریعے پوری مسلم و غیر مسلم دنیا کو پیغام دیا گیا ہے کہ ریاستوں کے معاملات نظریات کے نہیں بلکہ مفادات کے تابع ہوتے ہیں. اس ملاقات پہ بہت سی اسرائیل تنظیمیں بھی خوش نہیں ہوں گی کیونکہ اسرائیل کا اصل ہدف مدینہ منورہ تک اپنی غیر قانونی ریاست کی توسیع ہے جبکہ ایران ماضی کی فارسی ریاست کی مختلف انداز میں بحالی چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ شیعہ مذہب کا بھرپور استعمال کر رہا ہے.
سچی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی مسلم حکمران سے قدس کی بازیابی کی توقع نہیں، اس بارے میں یہ بادشاہ لوگ بیانات کبھی کبھار جاری کرتے ہیں، یہی ان کا احسان عظیم ہے اور اسے ہی کافی شافی سمجھیے. اس معاملے میں میری ناقص رائے یہ ہے کہ جب اسرائیل کی حمایت کرنے و بنانے والے امریکا و برطانیہ اور اقوام متحدہ سے تعلقات رکھے جاسکتے ہیں تو پھر اسرائیل کا کیا قصور؟ جتنے فلسطینی اس نے مارے اس سے لاکھوں گنا زیادہ مسلمان تو یہ مہذب ممالک قتل کرچکے، مسلم مقبوضات پہ قبضے اس کے سوا ہیں اور ایسے معاملات میں چینی حکومت بھی کسی سے پیچھے نہیں. ایسے میں اسرائیل کی غاصب ریاست نے جو کچھ کیا، انھی ریاستوں اور اداروں کے تعاون سے ہی کیا، لیکن کیا کیجیے کہ ہمیں امریکی یہودی اچھے اور اسرائیلی برے لگتے ہیں حالانکہ ہیں دونوں ہی یکساں آئٹم، دونوں میں کوئی فرق نہیں!
امید ہے کہ مستقبل میں سعودی اسرائیلی مراسم کے حوالے سے سلفیوں کی جانب سے بھی اسی طرح کا علم الکلام، بیانات، تاویلات اور دلائل منظر عام پہ آجائیں گے جیسے ایران امریکہ تعلقات اور یورپ سے معاہدے پہ ولایت فقیہ کے پیروکار پیش کرچکے. سعودی سفیر کو کھلی مجلس میں، مشورہ ہے کہ پاکستان میں صرف مسالک پہ سرمایہ کاری کرنے کے بجائے، اگر یہ امریکہ و ایرانیوں کی طرح ہر شعبے کے افراد پہ کی ہوتی تو گزرے برسوں میں کم از کم آپ کا مؤقف وہی لوگ بیان نہ کرتے جن کی شناخت ہی مسلکی ہے، اور جسے صرف مخصوص حلقوں ہی میں پذیرائی ملتی ہے. اس نااہلی کا افسوس ہی ہے کہ لاکھوں پاکستانی عرب ریاستوں میں کام کرتے ہیں، زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا سبب بنتے ہیں لیکن ہمارے یہاں مئوثر پروپیگنڈہ ہمیشہ ایران کا ہی رہا ہے.
سعودی بادشاہوں پہ آنے والا یہ مشکل وقت خود ان کی عجیب و غریب پالیسیوں کی وجہ سے ہے. آج اسرائیل کے در پہ مدد کے لیے کھڑے ہونے والے بادشاہ سلامت کو سمندر برد ہونے والا ایک طویل شخص ضرور یاد آیا ہوگا جس کی شہریت منسوخ کرتے ہوئے اسے عالمی دہشت گرد، انھی کے طرز عمل نے بنایا تھا. تب صدام حسین کی کویت پر چڑھائی والے معاملے پہ اس نے کہا تھا کہ امریکیوں کو اس مقدس سرزمین پہ آنے کی اجازت نہ دو، ہم مل کر یہ مسئلہ حل کرلیں گے. لیکن رعونت سے پہلے اس کی بات ٹھکرائی گئی اور بعد کے برسوں میں کیا اخوان، کیا داعش اور کیا ہی حماس، سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا گیا، جمہوری و جہادی میں کوئی فرق نہ رہا، سعودی عرب میں اہل تشیع تو ایک طرف ہزاروں اسلام پسند پاپند سلاسل کیے گئے. اب جب ان سب کے نتائج سامنے آرہے ہیں تو دوست صف دشمناں میں کھڑے ہیں.
کبھی کبھی ہی صحیح، لیکن سعودی بادشاہوں کو بحیرہ عرب کی موجوں کے سپرد ہونے والا طویل القامت شخص ضرور یاد آتا ہوگا جسے لمحہ بھر میں اس مجلس سے اٹھایا گیا تھا، جہاں بیٹھنے میں اسے زمانے لگے

Comments

Click here to post a comment

  • امید ہے کہ مستقفیض اللہ بھائی۔۔۔۔۔۔۔سچ کہوں تو یہ پیراگرام سونے سے لکھنے کا قابل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انتہائی مبنی برانصاف تجزیہبل میں سعودی اسرائیلی مراسم کے حوالے سے سلفیوں کی جانب سے بھی اسی طرح کا علم الکلام، بیانات، تاویلات اور دلائل منظر عام پہ آجائیں گے جیسے ایران امریکہ تعلقات اور یورپ سے معاہدے پہ ولایت فقیہ کے پیروکار پیش کرچکے. سعودی سفیر کو کھلی مجلس میں، مشورہ ہے کہ پاکستان میں صرف مسالک پہ سرمایہ کاری کرنے کے بجائے، اگر یہ امریکہ و ایرانیوں کی طرح ہر شعبے کے افراد پہ کی ہوتی تو گزرے برسوں میں کم از کم آپ کا مؤقف وہی لوگ بیان نہ کرتے جن کی شناخت ہی مسلکی ہے، اور جسے صرف مخصوص حلقوں ہی میں پذیرائی ملتی ہے. اس نااہلی کا افسوس ہی ہے کہ لاکھوں پاکستانی عرب ریاستوں میں کام کرتے ہیں، زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا سبب بنتے ہیں لیکن ہمارے یہاں مئوثر پروپیگنڈہ ہمیشہ ایران کا ہی رہا ہے.

  • RIYADH - Saudi Arabia's Foreign Ministry distanced itself on Wednesday from a recent visit to Israel by a number of Saudi citizens, including an outspoken former military general.
    An unnamed ministry official told the Saudi-owned al-Hayat newspaper that the rare public engagement "does not reflect the views of the Saudi government."
    The official referred to Israel as "the occupied territories."
    Saudi Arabia and Israel have no official relations and the kingdom prohibits its citizens from traveling to Israel. It also does not grant visas to Israelis.
    However, Saudi government permission was likely necessary for Anwar Eshki and the delegation of Saudi academics and businessmen to make the visit.
    While in Jerusalem, Eshki met with the Israeli Foreign Ministry's Director-General, Dore Gold, and a group of opposition Knesset members.
    Israeli media reported that Eshki was leading a delegation of "businessmen and academics" on a mission to promote a stalled Saudi-led 2002 Arab peace initiative.
    He reportedly met with Maj. Gen. Yoav Mordechai, head of the COGAT, military body that coordinates Israeli activities in the West Bank and Gaza.