ہوم << مودی کا یار...حامد میر

مودی کا یار...حامد میر

hamid_mir1
’’مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘‘ یہ تھا وہ نعرہ جو آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنمائوں کی تقاریر کا محور تھا۔ وہ پیپلز پارٹی جس کی قیادت2013ءکی انتخابی مہم میں بلٹ پروف روسٹرم کے بغیر تقریر کیلئے تیار نہ تھی]2016میں آزاد کشمیر کے مختلف شہروں میں بڑی بے خوفی سے نواز شریف کو مودی کا یار قرار دے رہی تھی۔
پیپلز پارٹی نے آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں بلاول صاحب کو لانچ کیا تھا جبکہ پاکستان تحریک انصاف ایک دفعہ پھر عمران خان کی مقبولیت پر انحصار کررہی تھی۔ بلاول اور عمران خان کی اکثر تقاریر کا اسکرپٹ ملتا جلتا تھا۔ دونوں نے نواز شریف کی کشمیر کاز سے مبینہ غداری اور پاناما لیکس کو موضوع سخن بنا رکھا تھا۔
مسلم لیگ (ن)کے قائد نواز شریف آزاد کشمیر کے انتخابات سے کئی ہفتے قبل بیمار ہوگئے اور وہ غداری کے الزامات کا جواب دینے کے قابل نہیں تھے، تاہم مسلم لیگ(ن) کے وزراء نے بڑے زور و شور سے آزاد کشمیر میں انتخابی مہم جاری رکھی۔ الیکٹرانک میڈیا پر کچھ سیاسی پنڈتوں نے یہ دعوے شروع کردئیے کہ2016تبدیلی کا سال ہوگا اور یہ تبدیلی آزاد کشمیر سے شروع ہوگی۔ یہ بھی کہا گیا کہ پہلے آزاد کشمیر میں وہی جماعت انتخابات جیتتی تھی جس کے پاس اسلام آباد کی حکومت ہوتی تھی لیکن اس مرتبہ اسلام آبادکے حکمرانوں کو آزاد کشمیر میں منہ کی کھانی پڑے گی۔ طاقتور حلقوں کے ساتھ قربتوں کے دعویداران نے بند کمروں میں مکے لہراتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس کا اتحاد آزاد کشمیر میں گیم چینجر بنے گا۔
ایسے ہی دعوئوں کو سن کر انتخابات سے چند روز قبل اس خاکسار نے آزاد کشمیر کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک ویک اینڈ پر خاموشی سے بھوربن پہنچا۔رات اس پرفضا مقام پر گزار کر اگلی صبح مظفر آباد جا پہنچا۔ عام لوگوں سے بات چیت کیلئے حضرت سائیں سخی سہیل سرکارؒ اور حضرت شاہ عنایت ولیؒ کے مزارات پر فاتحہ کی سعادت حاصل کی۔ کچھ مقامی دوستوں سے حالات معلوم کئے۔ سرکاری افسران سے صورتحال پر آف دی ریکارڈ تبادلہ خیال کیا تو زمینی حقائق مختلف نکلے۔
پی ایس ایف سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے ایک گروپ کو یقین تھا کہ پیپلز پارٹی کو دوبارہ اکثریت ملنے والی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے ایک پرانے کارکن کی رائے بالکل مختلف تھی۔ موصوف مظفر آباد شہر میں اپنی پارٹی کے ایک انتخابی دفتر کے نگران تھے لیکن ان کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی بمشکل تین چار نشستیں جیتے گی اور تحریک انصاف کو آزاد کشمیر سے کچھ نہیں ملے گا، البتہ مہاجرین کی ایک دو نشستیں اسے مل سکتی ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی، بزرگ سیاسی کارکن نے کہا کہ آزاد کشمیر کے لوگ سیاسی طور پر بہت باشعور ہیں۔ انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت پاکستان کے وزیر اعظم کو مودی کا یار قر ار دے کر مودی سے نفرت کا اظہار نہیں کررہی بلکہ ڈاکٹر عاصم حسین اور ایان علی کیلئے کچھ سہولتیں حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس بزرگ سیاسی کارکن نے بتایا کہ جب بیرسٹر سلطان محمود، خواجہ فاروق اور دیوان محی الدین جیسے لوگ تحریک انصاف میں شامل ہوجائیں اور تحریک انصاف سردار عتیق کی مسلم کانفرنس سے اتحاد کرے تو کشمیریوں کو سمجھ آجاتی ہے کہ آزاد کشمیر کی سیاست کو غلام بنانے کا منصوبہ کون بنارہا ہے؟پھر اس بزرگ نے مسکراتے ہوئے داغ کا یہ شعر پیش کیا؎
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
Abdul-Rasheed-Turabi
اسی بزرگ نے جماعت اسلامی کے ایک مقامی کارکن سے تعارف کرایا اور کہا کہ ان اسلام پسندوں سے پوچھیے ناں کہ یہ خیبر پختونخوا میں تو تحریک انصاف کے ساتھ ہیں لیکن آزاد کشمیر میں مودی کے یار کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں؟جماعت اسلامی کے اس بے باک کارکن نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ سب جانتے ہیں کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو سب سے زیادہ نقصان جنرل پرویز مشرف نے پہنچایا تھا جس نے پہلے واجپائی اور پھر منموہن سنگھ کے ساتھ سیکرٹ ڈپلومیسی کے ذریعہ کشمیر پر سرنڈر کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس لئے مقبوضہ جموں و کشمیر کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے مشرف کو غدار کشمیر قرار دیا۔ پیپلز پارٹی نے اس مشرف کے ساتھ این آر او کی ڈیل کی اور تحریک انصاف نے مشرف کے ایک شریک کار سردار عتیق کے ساتھ اتحاد کرلیا۔ جماعت اسلامی کیلئے نواز شریف چھوٹی برائی ہے لہٰذا آزاد کشمیر کی جماعت اسلامی نوازشریف کے ساتھ ہے۔ پھر ان صاحب نے راز دارانہ لہجے میں کہا کہ ذرا مظفر آباد میں پار کے مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کریں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ تحریک انصاف کو ووٹ ڈالنے کیلئے دبائو کون ڈال رہا ہے؟ مظفر آباد کے ایک ریسٹ ہائوس میں کچھ مقامی سرکاری افسران نے بھی دبے لہجوں میں بتایا کہ ایک تاثر قائم کیا جارہا ہے کہ نواز شریف نے کشمیر بیچ دیا ہے لیکن آزاد کشمیر کے لوگ غداری کے الزامات پر توجہ دینے والے نہیں وہ جانتے ہیں کہ عبدالرشید ترابی اور خالد ابراہیم جیسے لوگ مودی کے کسی یار کے اتحادی نہیں بن سکتے ۔ تمام دن مظفر آباد میں گزار کر یہ ناچیز واپس اسلام آباد چلا آیا۔
میں نے اپنے تاثرات اور مشاہدات کو کالم کا موضوع بنانے سے گزیر کیا اور انتخابات کا انتظار کرنے لگا۔ انتخابات میں مودی کے یا ر کو میری توقعات سے کہیں زیادہ پذیرائی ملی۔ یہ انتخابات فوج کی نگرانی میں منعقد ہوئے لیکن پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دھاندلی کے الزامات لگارہی ہیں۔ مجموعی طور پر پیپلز پارٹی کی کارکردگی تحریک انصاف سے بہتر نظر آئی۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ(ن) کی 32نشستوں کے مقابلے پر جو تین نشستیں حاصل کیں وہ آزاد کشمیر سے جیتیں۔ تحریک انصاف کو آزاد کشمیر سے ایک بھی نشست نہیں ملی۔ تحریک انصاف کو ایک نشست لاہور سے ملی اور ایک صوبہ خیبر پختونخوا سے ملی۔ یہ درست ہے کہ اسلام آباد کی حکمران جماعت کو آزاد کشمیر میں سرکاری وسائل کے استعمال کا بھرپور موقع ملا لیکن یہی کچھ پیپلز پارٹی نے بھی کیا۔2011میں پیپلز پارٹی کو اسلام آبادکی حکمرانی کے باوجود آزاد کشمیر میں 21نشستیں ملیں جبکہ2016میں مسلم لیگ(ن) نے اسلام آباد کی حکمرانی کے ساتھ32نشستیں حاصل کیں اور لاہور میں ایک نشست پر شکست کھائی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آزاد کشمیر کے ووٹروں نے پاکستان کے منتخب وزیر اعظم پر غداری کے الزامات لگانے والوں کو مسترد کردیا۔ یہ وہ الزامات تھے جو کبھی حسین شہید سہروردی ، کبھی محترمہ فاطمہ جناح، کبھی ذوالفقار علی بھٹو اور کبھی محترمہ بینظیر بھٹو پر لگائے گئے۔ کسی پر یہ الزامات ثابت نہ ہوئے لیکن کوئی سیاستدان پاکستان سے فرار نہیں ہوا۔ فرار کون ہوا؟ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔
Barrister-Sultan-Mehmood-Chaudhry-PTI
ایک طرف بلاول صاحب اور عمران خان نے نواز شریف کو مودی کا یار قرار دیا دوسری طرف بھارت کے ایک شہر انبالہ میں نواز شریف کے خلاف برہان مظفر وانی کو شہید قرار دینے پر مقدمہ چلایا جارہاہےاور سشما سوراج بھی نواز شریف پر اپنا غصہ دکھا رہی ہیں ۔ آزاد کشمیر کے ووٹروں نے نواز شریف پر اعتماد کا اظہار تو کردیا لیکن نواز شریف کو اس اعتماد پر پورا اترنے کیلئے دو قدم نہیں چار قدم آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو اپنے قول و فعل سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ کسی فوجی ڈکٹیٹر کی طرح بیک ڈور چینل سے منصور اعجاز جیسے مشکوک لوگوں کے ذریعہ مذاکرات کے نام پر سرنڈر کے کسی آپشن پر یقین نہیں رکھتے بلکہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف اتنی موثر اور بھرپور آواز اٹھائیں کہ انہیں مودی کا یار قرار دینے والوں کیلئے ان کے اپنے کہے ہوئے الفاظ ندامت کا باعث بن جائیں