ہوم << پاکستانی سیاست کے تضادات -سلمان عابد

پاکستانی سیاست کے تضادات -سلمان عابد

پاکستان کی سیاست مجموعی طور پر تضادات کی بنیاد پر کھڑی ہے ۔ یہ تضادات محض شخصی بنیادوں پر ہی قائم نہیں بلکہ سوچ اور فکر ی بنیادوں پر بھی ہمیں یہ تضاد کا کھیل نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔حزب اقتدار او رحزب اختلاف کے دو مختلف سیاسی چہرے ہیں جو ایک دوسرے سے مطابقت ہی نہیں رکھتے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سیاسی قیادت یا سیاسی جماعتیں حزب اقتدار کا حصہ ہوتی ہیں تو ان کا طرز عمل ، گفتگو، الفاظ، سوچ اور فکر مختلف ہوتی ہے ۔یہ ہی قیادت جب حزب اختلاف کے طور پر سامنے آتی ہے تو ان کا طرز عمل اقتدار کی سیاست کے مقابلے میں عملا مختلف نظر آتا ہے ۔ لوگوں کو یہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ لوگ حزب اقتدار میں سچ بول رہے تھا یا حزب اختلاف میں ان کے سچ کو تسلیم کیا جائے ۔ کیونکہ دونوں معاملات میں ایک واضح تضاد او رٹکراو نظر آتا ہے جو سیاست او رجمہوریت سمیت مجموعی سیاست کو خراب کرنے کا سبب بنتا ہے یا اس طرز عمل سے سیاسی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان اٹھتے ہیں ۔
آج کی سیاست کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جو بھی سیاست دان کسی بھی عہدے پر ہو یا بڑا نام رکھتا ہو اس کے مختلف نوعیت کے ویڈیو بیانات کو باربار دکھا کر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ان کا کون سا موقف درست ہے او رکون سا غلط ۔ان سیاسی تضادات کو بنیاد بنا کر دیکھا جائے تو یہ لگتا ہے کہ سیاست جھوٹ او رمنافقت کا نام بن کر رہ گئی ہے ۔ وہ سیاست جس نے معاشروں کو سیاسی ، جمہوری او رمعاشی طور پر مضبوط بنانا تھا وہ لوگوں کو جھوٹ کی تعلیم ، سیاسی و سماجی تقسیم ،محرومی کی سیاست کا سبب بن گئی ہے ۔ لوگوں کا سیاست پر اعتبار کم ہوتا جارہا ہے او ران کو لگتا ہے کہ سیاست میں بس جھوٹ پر مبنی سیاست کا کاروبار ہی چلتا ہے ۔سیاسی نظریات، سوچ او رفکر سمیت اصولی سیاست اور سیاسی قربانی کا جذبہ یا جمہوری معاشرے کی تشکیل کی جنگ یا جدوجہد اب ماضی کا قصہ بن گئے ہیں ۔ سیاسی جماعتوں کے منشور، دعووں ، وعدوں ، خوش نما نعروں سمیت لفظوں و تقریروں میں سچ کا کھیل کہیں چھپ کر رہ گیا ہے ۔ اس کے مقابلے میں جھوٹ پر مبنی سیاست ، ذاتی مفادات ، کاروبار اور اقرا پروری یا لوگوں کو جذباتی سیاست کا حصہ بنانے نے پوری سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔
اسی طرح سیاست میں عام آدمی یا کمزور آدمی کی بات بڑی شدت سے کی جاتی ہے او ردعوی کیا جاتا ہے کہ ہماری سیاسی جدوجہد کی جنگ عملا عام آدمی کے مفادات کے گر د ہی کھڑی ہے ۔ لیکن پاکستان کا عام یا کمزور آدمی قومی مجموعی سیاست میں کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے یا اس کا بڑے پیمانے پر استحصال اس انداز سے ہورہا ہے کہ وہ آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف جارہا ہے ۔سیاست میں ایک مراعات یافتہ طبقہ ہے جس کے پاس اختیارات بھی ہیں اور دولت بھی اسی کو بنیاد بنا کر اس نے سیاسی جماعتوں او ران کی قیادت کو یرغمال بنالیا ہے ۔ سیاسی محاذ پر آپ سیاسی جماعتوں او ران کی قیادت کے فیصلے دیکھیں تو ان میں بالادست طبقوں کی برتری بڑی واضح طور پر دیکھی جاسکتا ہے ۔سیاسی محاذ پر سیاسی کارکن کے پاس سوائے نعرے لگانے ، ووٹ مانگنے ، طاقت ور سیاست دانوں کی مہم چلانے ان کے سیاسی مخالفین کو اپنا سیاسی دشمن سمجھنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ جب بھی ان کو اوپر کی سطح پر لانے کی بات کی جاتی ہے تو منطق دی جاتی ہے کہ آپ کے پاس انتخاب لڑنے کے لیے نہ تو طاقت ہے ، نہ برادری ہے او رنہ ہی بڑے پیمانے پر وسائل ہیں ۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کے پاس اپنی قیاد ت کے تضادات کی موجودگی میں سوائے سمجھوتوں کی سیاست کے سوا کچھ نہیں ۔اگر کسی سیاسی کارکن کو اوپر بھی لایا جاتا ہے تو اس کے پاس سوائے اپنی قیادت کی سیاسی غلامی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔
عملی طو رپر پاکستان کی سیاست کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں قومی وصوبائی اسمبلی ، سینٹ ، مقامی حکومتوں کے نظام پر ایک مخصوص خاندان یا عملی طور پر برادری کی سیاست کا غلبہ ہے ۔ تمام سیاسی جماعتوں کی جکڑ بندی اور سیاسی نوازشات کی بارش بھی ان ہی مخصوص خاندانوں کی طرف ہی ہوتی ہے ، کارکن پہلے بھی محروم تھا او راب بھی اس کے سوا محرومی کی سیاست کے اور کچھ بھی نہیں ہے ۔سیاسی جماعتوں میں جو بالادست رجحان موجود ہے اپنی سیاسی بقا کے لیے تو وہ سیاسی خاندانوں کی سیاسی غلامی کے سوا کچھ نہیں او راگر کہیں کسی کارکن نے قیادت کے خلاف کوئی بھی آواز اٹھائی تو اس کو یکسر نظرانداز کردیا جاتا ہے یا اسے دیوار سے لگا کر عبرت کا نشان بنایا جاتا ہے ۔بنیادی طور پر سیاست میں سے تضادات پر مبنی سیاست کا خاتمہ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب ہمارے پاس داخلی اور خارجی محاذپر ایک مضبوط سیاسی نظا م ، جماعت اور قیادت ہوتی ہے ۔ یہ عمل سیاسی جماعتوں او ران کی قیادت کے درمیان اوپر سے نچلی سطح تک جوابدہی کے نظام کو مضبوط بناتا ہے اور قیادت بھی ہر فرد سمیت سیاسی فورم کو جوابدہ ہوتی ہے ۔لیکن اگر ہم نے اپنے سیاسی تضادات سے بچنے یا اپنے آپ کو جوابدہ نہ بنانے کی قسم کھا لی ہے تو پھر ہم کبھی بھی اپنی اپنی جماعتوں میں داخلی نظام کو مضبوط نہیں بنائیں گے ۔
ہماری سیاسی قیادت کو انداز ہی نہیں کہ اب سوشل میڈیا کا دور ہے جہاں ان کے تمام ماضی او رحال کے بیانات کو بنیاد بنا کر رائے عامہ پر اثر ڈالا جاتا ہے اور لوگوں کو دکھایا جاتا ہے کہ سیاست دانوں کے تضادات کیا ہیں ۔سیاسی قیادتوں کے مختلف انٹرویوز ، بیانات ، تقرریں سوشل میڈیا پر بالادست ہیں او رنیچے لوگوں کے منفی تبصرے ظاہر کرتے ہیں کہ لوگ سیاسی قیادت کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں ۔اس پر محض سیاسی جماعتوں یا ان کی قیادت کی سوشل میڈیا پر تنقید ظاہر کرتی ہے کہ ان کو گلہ ہے کہ لوگوں میں ان کا آئینہ کیوں دکھایا جارہا ہے اور کیونکر ان کی کردار کشی کی جارہی ہے ۔مسئلہ کردار کشی کا نہیں بلکہ ان تضادات کا ہے جو سیاست دان اختیار کرتے ہیں ۔ ووٹ کو عزت دو ، پارلیمانی سطح کی سیاست او رپارلیمنٹ کی مضبوطی ، جمہوریت ، اسٹیبلیشمنٹ کی مداخلتوں ، آئین شکنی سب کی بھرپور مخالفت ایک طبقہ اس وقت کرتا ہے جب وہ سیاسی عتاب میں ہوتا ہے ۔ لیکن یہ ہی طبقہ اقتدار کی سیاست کے چور دروازوں سے وہی راستہ اختیار کرتا ہے جو ان کے لیے اقتدار کی سیاست کی راہ کو ہموار کرتے ہیں ۔ایک جماعت ایک طرف اقتدار میں شامل جماعت پر الزام لگاتی ہے کہ یہ اسٹیبلیشمنٹ کا حمایت یافتہ گروپ یا اقتدار پرست ٹولہ ہے تو دوسری طرف ان کی توجہ کا مرکز بھی وہی طاقت کے مراکز ہیں ۔
بنیادی طور پر جب سیاست کی بنیاد اخلاقی یا سیاسی و جمہوری اصولوں کے برعکس ہوگی اور اس کے مقابلے میں ذاتی مفادات پر مبنی سیاست کو ہی بالادستی دی جائے گی تو ایسی سیاست ہمارے مفاد میں نہیں ہوسکتی ۔ ایسی سیاست عام آدمی سمیت معاشرے کے وہ طبقات جو واقعی بڑی تبدیلی کے خواہش مند ہیں ان کے خلاف ہے ۔ اس لیے اگر پاکستان میں ایک طبقہ موجودہ سیاست او رجمہوریت کے کھیل پرعملی مزاحمت دکھاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سیاسی او رجمہوریت کے خلاف ہے ۔ ہمیں ان لوگوں کی آوازیں سننی ہوں گی جو موجودہ جمہوری نظام سیاست پر آواز اٹھارہے ہیں یا اپنا ایک متبادل نقطہ نظر پیش کررہے ہیں تو ان کو یکسر نظرانداز کرنے کی بجائے ان کو بھی سننا ہوگا اور جواب بھی دینا ہوگا کیسے آگے بڑھا جائے ۔سیاسی جماعتوں میں موجود کارکنوں کے اندر اس خوف کو ختم کرنا ہوگا کہ اگر انہوں نے اپنی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا تو وہ باہر نکال دیے جائیں گے ۔سیاسی نظام کی تبدیلی میں ایک بڑی کنجی سیاسی کارکنوں ، میڈیا او راہل دانش کی ہوتی ہے جب تک وہ خود سے آگے بڑھ کر ذمہ دارانہ کردار ادا نہیں کریں گے سیاسی نظام میں اصلاح کے امکانات کم ہی رہیں گے ۔سیاسی نظام میں تبدیلی کا عمل محض سیاسی جماعتوں او ران کے کارکنوں تک ہی محدود نہیں بلکہ معاشرے کے دیگر طبقات بالخصوص جو رائے عامہ بناتے ہیں ان کو ہی آگے بڑھ کر سیاسی جماعتوں او ران کی قیادت پر دباو کو بڑھانا ہوگا ۔ سیاسی قیادت کو قائل کرنا ہوگا کہ ان کی موجودہ سیاست سے عام آدمی کو ہی کوئی فائدہ نہیں ہورہا ۔ اگر واقعی سیاسی جماعتیں کوئی بڑا مقدمہ لڑنا چاہتی ہیں تو ان کو ملک میں موجود طبقاتی نظام کے خلاف جنگ

Comments

Click here to post a comment