ایک زمانہ تھا گائوں پہنچتے ہی گھر سے نکلتے تھے تو دوستوں کی محفلیں ٹھکانہ ہوتی تھیں، اب گائوں جانا ہوتا ہے تو پہلا پڑائو قبرستان میں ہوتا ہے۔خاندان میں جو نجیب ترین تھے ، اب قبروں میں بسیرا کیے ہوئے ہیں۔
زمین کا نمک ہم نے اپنے گائوں کے قبرستان کے حوالے کر دیا۔ حضرت مولانا غلام نقشبند ، جناب صفدر علی چودھری ،جناب ظہیر الدین گوندل۔ انسان علم ، سادگی ، کردار کے عروج پر ہو تو کیسے ہوتا ہے ، دست قدرت کے یہ معجزے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھے ہیں۔گائوں کے باغات ، ان میں بولتی کوئلیں ، آم کے گھنے درخت ، بہتی کوہلیں سب کا حسن ویسا ہی ہے لیکن گائوں کی مٹی کی خوشبو جب وجود میں اترتی ہے تو آدمی یادوں کی ڈوری سے بندھا سیدھا قبرستان جا پہنچتا ہے۔ چھوٹے سے گائوں کا سادہ سا قبرستان ہے۔
ایک آدھ قبر پر کتبہ لگا ہے، باقی اب یادداشت کا معاملہ ہے۔ کیسی بے بسی کا عالم تھا۔ سورج سر پر تھا اور میں اپنے ہی گائوں کے اس قبرستان میں اجنبی بن کر کھڑا تھا۔ایک آدھ قبر کو چھوڑ کر اب کچھ یاد نہیں آ رہا تھا کون کہاں دفن ہے۔ یہ سب میرے اپنے تھے۔ ندیم گوندل جیسا میرا بچپن کا دوست اور یار بھی یہیں دفن تھا ، میرے چچوں عبدلواحد گوندل اور محمد مختار مرحوم کی قبریں بھی یہیں کہیں تھیں ، ایک سے میں نے قرآن پڑھا تھا ، دوسرے سے خوش خطی سیکھی تھی۔ چچا زاد بھائی مرحوم خورشید عالم گوہر قلم نے بھی انہی سے خوش خطی سیکھی تھی۔جن کے ساتھ میں نے سالوںبتائے تھے آج ان کی قبریں ہی نہیںمل رہی تھیں۔ چھوٹے بھائی سعد گوندل نے اس قبر پر کتبہ لگا رہا تھا جس پر دعا کرنے میں گائوں جاتا ہوں۔ لیکن جب میں گائوں کے قبرستان پہنچتا ہوں تو من و تو کی تمیز مٹ جاتی ہے۔ اس مٹی کے اندر سب میرے ہیں اور میں نے عمر کا ایک حصہ ان کے بیچ گزارا ہے۔آج اپنے ہی خاندان کے بیچ کھڑا ٹھا ،دائیں بائیں مٹی کی ڈھیریاں تھیں اور کچھ خبر نہ تھی کس ڈھیری میں کون سو رہا ہے۔ دور باغ میں کوئل بول رہی تھی۔ کوئل بولی تو احمد مشتاق یاد آئے: خواب کے پھولوں کی تعبیریں پرانی ہو گئیں خون ٹھنڈا پڑ گیا ، آنکھیں پرانی ہو گئیں جس کا چہرہ تھا چمکتے موسموں کی آرزو اس کی تصویریں بھی اوراق خزانی ہو گئیں رہ گیا مشتاق دل میں رنگ یاد رفتگاں پھول مہنگے ہو گئے ، قبریں پرانی ہو گئیں تھوڑی دیر گزری ، ایک کسان پاس سے گزرا ۔ ساتھ ہی برادرم عبد الحئی گوندل کا ڈیرہ ہے ،وہاں گیا اور لوٹ آیا۔ سلام کیا، مجھے دیکھتا رہا اور پھر بولا: آپ سعد گوندل کے بھائی ہیں؟ جی ہاں انہی کا بھائی ہوں۔ آپ کو لسی پلائوں؟ اس گرمی میں اس سے شاندار دعوت اور کیا ہو سکتی تھی۔ لسی میری بہت پرانی کمزوری ہے۔ میں نے کہ : ضرور پلائیں۔ وہ لسی بنانے چلا یا اور میں اس کی بچھائی چارپائی کی بجائے ساتھ بہتے کھالے پر آ کر بیٹھ گیا۔ کھالے میں پانی بہہ رہا تھا۔ یوں لگا جیسے وقت بہہ رہا ہو۔ ایک وقت تھا صبح کا آغاز ’ ادھ رڑکے‘ سے ہوتا تھا اور دوپہر میں لسی پی کرتے تھے ۔مہمانوں کو بھی لسی دی جاتی تھی۔ پھر وہی ہوا جو وقت کے ساتھ ہوتا ہے کہ وقت ہی بدل جاتا ہے۔وقت بدلا تو کولڈ ڈرنک کی لعنت آ گئی اور ابھی تک موجود ہے۔اس لعنت نے لسی کو بھی چاٹ لیا اور شکنجوین کو بھی۔دو سال پہلے سرگودھا سے اسلام آباد کے لیے نکلے تو اچانک اہلیہ نے کہا : سرگودھا آئے بھی تھے اور لسی پیے بغیر جا رہے ہیں۔غالب کلکتے کے ذکر پر جیسے ہائے ہائے کر اٹھتے تھے ، لسی کے ذکر بھی وہی ہائے ہائے مجھ سے لپٹ گئی۔ اب عالم یہ تھا کہ ہم موٹر وے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ واپسی ناممکن تھی۔ اچانک یاد آیا کہ برادرم نوازش گوندل ایڈوکیٹ کا ڈیرہ موٹر وے کے عین اوپر ہے اور ہم موٹر وے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔میں نے نوازش صاحب کو اسلام آباد فون کیا کہ ڈیرے پر رابطہ کریں اور بتائیں لسی ہے یا نہیں ۔لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔گائوں میں لسی کی فراہمی کے مخصوص اوقات ہوتے ہیں۔صبح کے دوپہر میں بدلتے بدلتے لسی نایاب ہو جاتی ہے۔ اب بہتے کھالے میں ٹانگیں ڈبوکر بیٹھا تھا اور لسی پی رہا تھا۔ یہ شہر کے واہیات کنجوس قسم کا گلاس نہیں تھا یہ گائوں کا وہ پرانا گلاس تھا جو شہر کے جگ جتنا ہوتا ہے۔مزید لسی پی نہیں جا رہی تھی مگر پینے کو جی چاہ رہا تھا۔ مجھے اپنا بھانجا یاد آ گیا۔اب تو صاحب’ ڈاکٹر صاحب ‘ ہیں تب بچے تھے اور ایک شادی کی تقریب میں پیپسی ہاتھ میں پکڑے، کھڑے رو رہے تھے۔میں نے پوچھا کیا ہوا؟ ماموں پیپسی کی بھوک لگی ہے۔ بیٹا پیپسی کی بھوک لگی ہے توپیپسی تو آپ کے ہاتھ میں ہے پی لو۔ ساتھ ہی اس کا برا بھائی کھڑا تھا، اس نے بتایا کہ ماموں یہ تین چار’ پیپسیاں‘پی چکا ہے اب یہ مزید پینا چاہ رہا ہے لیکن اس سے پی نہیں جا رہی۔ اس لیے رو رہا ہے۔ یہیں بیٹھے بیٹھے یاد آیا کہ خالہ زاد بھائی جناب معین نظامی نے بھی اگلے دنوںلسی پر کچھ لکھا تھا۔ لسی پیتے پیتے فیس بک پر ان کی تحریر پڑھنے لگا۔لکھتے ہیں:’’ ویسے تو لسی بارہ مہینے کا مرغوب مشرب ہے لیکن گرمیوں میں اس کا استعمال خاص طورزیادہ اچھا لگتا ہے۔ایران ، ترکیہ ، افغانستان اور وسط ایشیاء میں بھی اس کی بہت مانگ ہے۔ترکیہ میں آئرن اور فارسی علاقوں میں دوغ، آب دوغ وغیرہ۔ان ملکوں میں تو اس کی کئی اقسام خوبصورت بوتلوں، ڈبوں اور طرح طرح کی پیکنگز میں ملتی اور خوب فروخت ہوتی رہتی ہیں۔پنجاب میں لُو چلتی تھی تو کہا جاتا تھا کہ ان دنوں لسی سے بہتر کئی چیز نہیں۔لو کے دنوں میں پسند کی جانے والی زودہضم پتلی لسی کنگا ، چھاہ یا چھاچھ کہلاتی تھی۔چاٹی کی لسی کی چاٹ لگ جائے تو دوسرے ہر مشروب سے جی اچاٹ ہو جاتا ہے‘‘۔ میں گائوں کی چھائوں میں لسی پی رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں ، گرمیوں میں جب لُو چلنے لگے تو چاٹی کی لسی پینے گائوں ضرور آنا چاہیے ورنہ قبرستان بھی اجنبی ہو جاتاہے۔مٹی بھی بے گانی ہو جاتی ہے۔قبریں بھی بھول جاتی ہیں۔
تبصرہ لکھیے