ہوم << آزادکشمیر کا الیکشن اور مقبوضہ کشمیر - عقیل شہزاد

آزادکشمیر کا الیکشن اور مقبوضہ کشمیر - عقیل شہزاد

ہم جلد آزادی حاصل کر لیں گے. یہ الفاظ پچپن سے کانوں میں سنتے آئے ہیں. اب یا تو ہمارے کانوں میں کوئی خرابی ہے یا پھر آزادی کی تحریک میں، اللہ بہتر جانتا ہے. کچھ لوگوں کو یہ کہتے بھی سنا ہے کہ اگر آج کشمیر آزاد ہو جائے تو آزادکشمیر لیڈران کو کچھ نہیں ملنے والا، اب کیا یہ کہنا درست ہے، ہو سکتا ہے کہ ہو، لیکن یہ ہماری بے حسی کی بھی مثال ہے جس سے یہ جھلکتا ہے کہ ہم خود نہیں چاہتے کہ کشمیر آزاد ہو.
آزاد کشمیر کے حالیہ الیکشن مسلم لیگ نواز واضح فرق سے جیت گئی، لیکن کوئی بھی پارٹی انتخابی مہم کے دوران کشمیر پالیسی اور اس کے مسائل پر بات نہ کر سکی. قربان جائیے ان سب پارٹیوں پر کہ ہر ایک کو اپنی پڑی ہے. اہل کشمیر کو عمران خان صاحب سے کچھ امیدیں تھی لیکن وہ بھی صرف نوازشریف صاحب کو پانامہ لیکس کے طعنے ہی دیتے رہے، ایک بار بھی جناب کو خیال نہ آیا کہ سامنے کشمیری ہیں، کچھ بناوٹی ہمدردی ہی ظاہر کر دی جائے. سرحد کے اس پار روز نہتے کشمیریوں پر ظلم ہو رہا ہے، کوئی بات اس پر بھی ہوجائے. خان صاحب اپنا رونا روتے رہے، شاید ان کو احساس ہو کہ کشمیر میں حکومت تب تک نہیں قائم ہو سکتی جب تک پاکستان کا اقتدار ہاتھ میں نہ ہو، اور یہ سوچ شاید ٹھیک بھی ہو لیکن خان صاحب پھر تو آپ بھی روایتی سیاستدان ہوئے نا. آپ نے رویتی انداز میں آزادکشمر پی ٹی آئی کا صدر چنا، روایتی انداز میں الیکشن کی تیاری کی، مہم چلائی اور پھر روایتی انداز میں بری طرح ہار بھی گئے.
پپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری صاحب نے بھی الیکشن میں بھرپور حصہ لیا، جگہ جگہ نوازحکومت کو للکارا، مودی کا یار بھی کہا، دھاندلی کرنے پر سنگین نتائج کی نوید بھی سنائی اور جیالوں کو خوب گرمایا بھی مگر الیکشن میں ان کی پارٹی کا بھی برا حال ہوا. شاید ریاست کے عوام انھیں اور ان کی پارٹی کو جان چکے تھے. 5 سال کوئی کم وقت نہیں ہوتا کسی کو آزمانے میں. مقبوضہ کشمیر کے مظالم کے حوالے سے بلاول نے بہت کچھ اپنی تقاریر میں کہا اور اپنے آپ کو کشمیریوں کا خیرخواہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی. مگر عوام نے ووٹ دے کر بتایا کہ انھیں ان کی باتوں پر یقین نہیں ہے.
اب ذرا بات ہو جائے ن لیگ کی. اس کے تو تیور ہی بدلے ہوئے تھے. برجیس سے رشید کا سفر اور بلیک ڈے سے الحاق پاکستان ڈے تک اور الحاق پاکستان سے پھر بلیک ڈے تک سفر نے اسے کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کر دیا. ہوا یوں کہ پہلے آزاد کشمیر حکومت نے بلیک ڈے منایا اور ایک عدد چھٹی بھی مار لی، پھر الحاق پاکستان کی ایک چھٹی مار لی اور پھر باری آئی وفاق کی، اس نے سوچا کہ موقع ہے کشمیریوں سے یکجہتی کا سو بلیک ڈے منا کر عوام کی ہمدردی حاصل کی جائے، ویسے بھی الیکشن ہم نے ہی جیتنا ہے تو کیوں نہ ذرا پکا کام کیا جائے. 20 کو بلیک ڈے منایا گیا اور 21 تک نجی نیوز چینل پر اشتہار چلتے رہے کہ ہم سے بڑا کشمیریوں کا خیرخواہ کوئی نہیں. 21 تک سلسلہ اشتہارات حیران کن تھا کیونکہ بلیک ڈے تو 20 کو تھا تو 21 تک اسے گھسیٹنے کی کیا ضرورت تھی؟ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ 21 کو انتخابات ہیں، اس لیے یہ سب کیا جا رہا ہے. اس کے علاوہ وہی سب وعدے یہاں بھی کیے گئے جو پاکستان میں کیے گئے تھے.
اب جب مسلم لیگ ن جیت گئی ہے تو ہر طرف خوشی کا عالم چھایا ہوا ہے، ڈھول تماشے اور بھنگڑے جاری ہیں. عین اسی وقت سرحد کے اس پار کرفیو نافذ ہے، نیٹ سسٹم بند ہے، مواصلاتی نظام معطل ہے، آزادی کی خاطر لوگ جانیں دے رہے ہیں، بچے یتیم ہو رہے ہیں، عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں، ماؤں کے جواں سال بچے شہید ہو رہے ہیں، اور ہم یہاں کچھ یوں نعرے لگا رہے ہیں
شیر اک واری فیر
آئی آئی پی ٹی آئی
فیصلہ ضمیر دا ووٹ بینظیر دا
اور ہم سب جانتے ہیں کہ ان نعروں سے کشمیر کبھی آزاد نہیں ہوگا

Comments

Click here to post a comment